یہ ایک تلخ حقیقت ہے

ہمارے معاشرے میں بچیاں کبھی شرم و حیا کی وجہ سےاور کبھی ماں باپ کی عزت کے خیال سے خاموشی سے زندگی گزار دیتیں ہیں انکو اپنے حقوق کا پتہ ہی نہیں طلاق کو گناہ سمجھا جاتا پے اور ظلم برداشت کرنے کو نیکی سمجھا جاتا ہے

یہ ایک تلخ حقیقت ہے

زندگی اللہ کی دی گئی نعمت ہے اور اسے یوں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ہمارے معاشرے میں بچیاں کبھی شرم و حیا کی وجہ سےاور کبھی ماں باپ کی عزت کے خیال سے خاموشی سے زندگی گزار دیتیں ہیں انکو اپنے حقوق کا پتہ ہی نہیں طلاق کو گناہ سمجھا جاتا پے اور ظلم برداشت کرنے کو نیکی سمجھا جاتا ہے۔ وہ لڑکی جس کا شوہر اس سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا اور پہلی ہی رات اسے یہ جتا بھی دیا۔ پورا سال گزر جانے کے بعد بھی وہی دوریاں ہیں، انتظار والی لمبی راتیں ہیں۔ شادی کے سال بعد ہی تھکن پور پور میں ہے۔ سمجھ یہ نہیں آتا کہ اگر یہ لوگ اتنے بات ماننے والے ہوتے ہیں تو پھر شادی کر کے نبھائیں بھی۔ اگر نہیں ماننی تو سرے سے نہ مانیں۔ کسی اور کو کیوں رولنا ہوتا ہے پھر؟

اس لڑکی کا قصہ سنا تو وہ بھی یاد آئی جو چند دن پہلے اسی اذیت سے گھبرا کر میرے سامنے رو دی تھی۔ کہنے لگی کہ دعا کریں کسی طرح بچہ ہو جائے تا کہ بس میں اپنی مصروفیت میں لگ جاؤں۔ بہت سی عورتین اس امید پہ زندگی گزار دیتی کہ سباسے سمجھانا چاہا تھا کہ دیکھیں، یوں نہیں ہوا کرتا۔۔

ہر لمس کی الگ پہچان، الگ احساس ہوتا ہے۔ ابو کی آغوش کا بالکل الگ احساس ملتا ہے اور بچے کو سینے سے لگانے کا بالکل الگ۔ دوست کی جپھی کچھ اور ہوتی ہے، شوہر کی بانہوں کا حصار کچھ اور۔
اولاد شوہر کی متبادل نہیں ہوتی۔ دونوں محبتوں کا خانہ الگ ہے۔

اور یہ کہ بچہ کبھی اس امید میں نہ کریں کہ وہ بندہ ٹھیک ہو جائے گا۔جن میں انسانیت نہ ہو وہ بچے کے بعد مزید شیر ہی ہوتے ہیں۔ بچہ ہو بھی جائے تو شوہر کی قربت کی ضرورت رہے گی ہی۔اس سے دست بردار نہیں ہوا جا سکتا۔ ہونا بھی نہیں چاہئے۔ ٹھیک ہو جائے گا اور کچھ اس خوف میں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ضروری نہیں ہر دفعہ اچھے کی امید پر اچھا ہو کبھی کبھی زندگی دوسرا موقعہ دینا چاہ رہی ہوتی ہے جسے ہم گنوا کر خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔ ہماری طرف بروکن ہوم اس کو سمجھتے ہیں جہاں طلاق ہو جائے۔ ایک ہی چھت کے نیچے ایک دوسرے کے ساتھ ٹاکسک رویے، اپنے اندر اور ارد گرد کے ماحول میں زہر بھرتے، اپنی ہی اولاد کو تلخیوں میں پالتے۔۔ اسے کوئی بروکن نہیں سمجھتا۔

سال بھر میں جس انسان سے خیر نہ نکلی، نئی نویلی شادی میں جو چاؤ نہ اٹھا سکا، اس سے بعد میں کیا امید رکھی جائے۔ ایسے انسان سے وقت پر علیحدہ ہو جانا ہی بہتر ہے ورنہ ہر دن آپ کی تھکن میں اضافہ کرتا جائے گا۔ آپ کی جسمانی اور جذباتی ضروریات کا مسلسل استحصال آپ کو چڑچڑا اور بیمار کر دے گا۔ وہ کہتے ہیں ناں زندگی ضائع نہیں کرنا چاہیئے وہ ناں بروقت فیصلہ لینا چاہئیے۔۔۔۔۔ ابھی شادی کو مختصر عرصہ ہوا ہے۔ بچے نہیں ہیں۔ آپ کم عمر ہیں۔ آپ خود بات کریں۔ مسئلہ حل نہیں ہوتا تو بزرگوں کو شامل کریں۔ اگر پھر بھی چیزیں جوں کی توں رہتی ہیں تو علیحدگی ہی حل ہے۔ ہر گزرتا دن اس کے بہتر ہونے کی امید لگائے رکھنے میں گزارنے سے بہتر ہے کسی اچھے انسان کے انتظار میں گزار لیں۔

حکمت کا معنی یہی ئے کہ صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کیا جائے۔ نہ جلد بازی، نہ تمام حقیقت کھل جانے کے بعد وقت ضائع کرنا۔ استخارے کی دعا کو معمول بنائیے جس کا ترجمہ بے حد مکمل اور خوبصورت ئے۔ مفہوم کچھ یوں ہے کہ اگر یہ (انسان) میرے لئے ہر اعتبار سے بہتر ہے تو ہمارے آپسی راستے کھول دے یا رب، اور اگر اس میں خیر نہیں تو مجھے اس سے اور اسے مجھ سے دور فرما دے۔
 

SALMA RANI
About the Author: SALMA RANI Read More Articles by SALMA RANI: 15 Articles with 12187 views I am SALMA RANI . I have a M.PHILL degree in the Urdu Language from the well-reputed university of Sargodha. you will be able to speak reading and .. View More