میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو آداب
میں نے اپنی پچھلی تحریر " دربار نبوت کے آداب " میں ایک صحابی رسول صلی
اللہ علیہ وآلیہ وسلم حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے بارے میں ذکر کیا
تھا اور میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ میں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ
کے بارے میں ایک مفصل تحریر لےکر آئوں گا اور یہ بھی بتائوں گا کہ سرکار
علیہ وسلم نے آپ علیہ الرحمہ کے بارے میں جو تین بشارتیں انہیں عطا فرمائی
تھیں وہ کیسے پوری ہوئیں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ انصار کے
مشہور قبیلے بنو خرزج کی ایک شاخ بنو نجار سے تعلق رکھتے تھے اور یثرب میں
رہتے تھے یثرب مدینہ پاک کا پرانا نام تھا آپ علیہ الرحمہ نہایت ذہین ،
حاضر دماغ ، حاضر جواب ، خوش بیاں اور بلند آواز کے مالک شخص تھے جب تقریر
کرنے کھڑے ہوتے اور بولنا شروع کرتے تو لوگوں کو مسحور کرلیتے اور محفل پر
چھا جاتے تھے آپ علیہ الرحمہ یثرب کے ان لوگوں میں سے تھے جو سب سے پہلے
اسلام لائے تھے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جب سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم
حجرت کرکے مدینہ پاک تشریف لائے تو حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اپنے
قبیلہ کے شہ سواروں پر مشتمل ایک جماعت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ
وسلم کا اپنے رفیق دوست حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مدینہ پاک
آنے پر ایک شاندار استقبال کیا اور آپ علیہ الرحمہ نے ایک تقریر کی جس کی
ابتدا اللہ تبارک وتعالی کی حمد و ثناء اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے
درود پاک سے کیا اور اختتام ان الفاظ پر کیا کہ "اے اللہ رب العزت کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ سے اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم ہر اس چیز سے آپ
کی حفاظت کریں گے جس سے اپنی عورتوں اور بچوں کی حفاظت کرتے ہیں تو کیا
ہمیں اس بدلے کچھ ملے گا ؟
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے
جب حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کا جوش خطابت دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور
فرمایا کہ اس کے عوض تمہیں جنت ملے گی جنت کے الفاظ اور وہ بھی سرکار علیہ
وسلم کی زباں سے تو وہاں پر موجود تمام لوگوں کے چہرے خوشی سے دمک اٹھے اور
سب نے یک زباں ہوکر کہا رضینا یارسول اللہ رضینا یارسول اللہ اور حضور صلی
اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اسی دن سے حضرت ثابت بن قیس کو اپنا خطیب مقرر
کردیا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں بنو تمیم عرب کا ایک بہت بڑا قبیلہ تھا یہ
بدو لوگ تھے ( بدو غیر مہذب ، خانہ بدوش لوگوں کو کہتے ہیں ) ایک دفعہ
مدینہ منورہ آیا اس قبیلے والوں کو اپنے شاعروں اور خطیبوں پر بڑا ناز اور
فخر تھا مسجد نبوی میں آکر رہائشی کمروں کے پاس پہنچ کر آواز دی کہ اے محمد
(صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ) زرا گھر سے باہر تشریف لایئے تو آپ علیہ وسلم
کو اس طرح سے ان کا نام لیکر پکارنا اچھا نہ لگا صحابہ کرام علیہم الرضوان
میں سے کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح سے نام
لیکر پکاریں کیوں کہ نام لیکر پکارنا تو سراسر بے ادبی ہے کیا ہم کبھی اپنے
والد کو نام لیکر پکارتے ہیں کبھی نہیں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جب اللہ رب العزت کے رسول صلی اللہ علیہ
وآلیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے تو آنے والے قافلے کے سردار نے بولا کہ
ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے پاس اس لئے آئے تھے کہ ہم اپنے قبیلے کے
قابل فخر شاعروں اور خطیبوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے سامنے ظاہر
کرسکیں انہیں موقع دیں کہ وہ اپنا جوہر دکھاسکیں اور اپنے آپ کو سب سے برتر
ثابت کرسکیں اس زمانے میں عربوں کو اپنی زبان دانی پر بڑا فخر تھا ان کے
شاعر لوگوں میں آگ لگادیا کرتے تھے یعنی اشعار سنتے تو لوگ ایک دوسرے کو
مرنے مارنے پر تل جاتے اور اسی طرح ان کے خطیب بھی کمال فن سے اپنے خطاب کے
ذریعے لوگوں کو حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہونے پر مجبور کردیتے تھے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ رب العزت کی اجازت سے پہلے بنو تمیم
کے ایک شاعر نے خوبصورت اشعار پرھے اور پھر ان کے خطیب عطارد بن حاجب نے
زبردست تقریر کی اپنے قبیلے کی خوبیاں مال و دولت اور کثرت تعداد کا ذکر
کیا اور پھر لوگوں سے پوچھتا ہے کہ بتائو ہم جیسا کوئی اور ہے ؟ پھر سرکار
مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے شاعر اسلام حضرت سیدنا حسان بن ثابت رضی
اللہ عنہ کو اشارہ کیا اور انہوں نے بنو تمیم کے شاعر کو خوب اچھی طرح جواب
دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اپنے صحابی حضرت ثابت بن قیس رضی
اللہ عنہ کو اشارہ کیا کہ وہ اب بنو تمیم کے خطیب کا اپنے خطاب سے جواب پیش
کریں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے
ہوئے اور اپنے بہادرانہ اور دلیرانہ انداز میں الفاظوں کے خوبصورت چنائو کے
ساتھ اپنے جوش خطابت میں فصاحت اور بلاغت کے دریا بہا دیئے صرف چند منٹوں
میں آپ علیہ الرحمہ نے عقیدہ توحید ، اللہ تعالی کی وحدانیت ، اللہ کے رسول
کے مقام و مرتبہ اور آپ صلی اللہ ولیہ وآلیہ وسلم کے اخلاق و کردار کا بہت
خوبصورت تذکرہ کیا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس سارے معاملے کے بعد بنو تمیم کے سردار
کو یہ بات تسلیم کرنا پڑی کہ آپ علیہ وسلم کے شاعر ہمارے شعراء سے بہتر اور
آپ کے خطیب ہمارے خطیب سے افضل و اعلی ہیں ۔حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ
کو جو تین بشارتیں سرکار علیہ وسلم کی طرف سے ملی ان میں پہلی بشارت یہ تھی
کہ آپ علیہ الرحمہ کی زندگی انتہائی قابل تعریف گزرے گی تو اس میں کسی شک و
شبہ کی گنجائش نہیں کیوں کہ آپ علیہ الرحمہ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ آپ
علیہ الرحمہ کا شمار اس وقت کے اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے آپ
علیہ الرحمہ کا شمار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے کاتبین میں ہوتا تھا آپ
علیہ الرحمہ کو خطیب انصار اور خطیب رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی کہا جاتا
تھا آپ علیہ الرحمہ کا مقام و مرتبہ اتنا بلند تھا کہ جب بھی سرکار علیہ
وسلم اورصحابہ کرام علیہم الرضوان کی محفل ہوتی اور آپ حضرت ثابت بن قیس
علیہ الرحمہ تشریف لاتے تو خاص طور پر جگہ دی جاتی اور وہ تشریف رکھتے اپ
علیہ الرحمہ کو سرکار علیہ وسلم کے کاتب وحی ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آپ علیہ الرحمہ کی زندگی اتنی قابل تعریف
تھی کہ ساری زندگی ایمان کامل اور اعمال صالحہ کی دولت سے مالامال رہے
تندرستی و سلامتی کی دولت سے سرفراز رہے اعزازواکرام کا یہ عالم تھا کہ
معروف صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں کہ ہم جب بھی حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو دیکھتے تو یہ ہی کہتے
کہ دیکھو یہ جنتی مسلمان ہے اور زمین پر چل رہا ہے صحابہ کرام علیہم
الرضوان کی جماعت جس کو جنتی کہکر پکارے تو اس کے مقام و مرتبہ کا کیا کہنا
گویا سرکار علیہ وسلم کی بتائی ہوئی پہلی بشارت صحیح ثابت ہوئی
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جہاں تک آپ علیہ الرحمہ کی شہادت کی بات
ہے تو آپ علیہ الرحمہ غزوہ بدر کے علاوہ تمام غزوہ میں سرکار علیہ وسلم کے
ساتھ شریک رہے جنگ یمامہ کے دن جب امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ
عنہ کے مقدس فوج کے مجاہدین اسلام " مسیلمتہ الکزاب " سے جہاد فرمارہے تھے
تو حضرت ثابت بن قیس علیہ الرحمہ بھی نبوت کا دعوہ کرنے والے اس کزاب خبیث
کے ساتھ جہاد کرنے والے لشکر میں شامل ہوگئے تھے کزاب کا شیطانی لشکر تعداد
میں زیادہ تھا جب کزاب خبیث کے شدید حملوں کے دبائو کی وجہ سے مسلمان پیچھے
ہٹنے لگے تو ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اپنے اسلامی جوش و جذبات سے بے خود
ہوگئے اور بلند آواز سے لشکر کے مسلمانوں کو للکارا کہ اے مسلم نوجوانوں جب
ہم رسول اللہ صلیہ اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے کفار سے جہاد کرتے تھے
تو ہمارا کوئی قدم کبھی پیچھے نہیں ہٹتا تھا مگر مجھے تم مسلمان نوجوانوں
پر حیرت اور افسوس ہے کہ تم جہاد میں اتنے پسپا ہورہے ہو آخر تمہارے اندر
غیرت ایمانی کے خون کی حرارت کہاں چلی گئی ؟
میرے محترم پڑھنے والوں یہ کہکر انہوں نے سر پر کفن باندھا اور خود آگے
بڑھگئے اور انتہائی دلیرانہ اور جانبازی کے ساتھ دشمنان اسلام پر حملہ آور
ہوگئے چنانچہ اس بوڑھے جاں باز مجاہد کی للکار سے نوجوانوں میں جان پڑھگئی
اور یکدم اسلامی لشکر فاتحانہ انداز سے آگے بڑھا اور کزاب خبیث کے شیطانی
گروہ کو نیست و نابود کردیا اور اسی مجاہدانہ حملے میں کفار سے لڑتے ہوئے
آپ علیہ الرحمہ نے جام شہادت نوش فرمایا اور جنت میں داخل ہوگئے گویا سرکار
علیہ وسلم کی باقی دو بشارتیں بھی پوری ہوگئیں اور اللہ رب العزت نے حضرت
ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو شہادت کا رتبہ عطا کرتے ہوئے جنت میں داخل
کردیا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس تحریر کے آخر میں حضرت ثابت بن قیس رضی
اللہ عنہ کی ایک کرامت کا ذکر کرتا چلوں کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ
شہادت کے بعد ایک صحابی کے خواب میں تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اے
مجاہد اسلام تم میرا ایک پیغام امیر لشکر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
تک پہنچادو کہ میں جب شہید ہوا تو میرے جسم پر ایک لوہے کی زرہ تھی جو ایک
سپاہی نے اتار لیا تھا اور اپنے گھوڑے باندھنے والی جگہ پر اس کو رکھکر اس
پر ایک ہانڈی اوندھی رکھکر اسے چھپادیا ہے لہذہ اسے برآمد کرکے اپنے قبضے
میں لےلیں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے مزید ان
صحابی سے خواب میں فرمایا کہ تم مدینہ منورہ پہنچ کر خلیفہ رسول صلی اللہ
علیہ وسلم امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو میرا پیغام
پہنچادو کہ مجھ پر خو قرض ہے وہ ادا کردیں اور میرے غلام کو آزاد کردیں
لہذہ ان صحابی نے سب سے پہلے حضرت خالد بن ولید کو جاکر یہ پورا خواب سنایا
جب انہوں نے تلاشی لی تو واقعی وہ لوہے کا زرہ ٹھیک اسی جگہ سے برآمد ہوا
جس کی نشاندہی حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے کی تھی پھر جب یہ خواب
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سنایا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے وصیت پر
عمل کرتے ہوئے ان کا غلام آزاد کیا اور سارا قرضہ بھی ادا کردیا مشہور
صحابی حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ خصوصیت صرف حضرت ثابت بن قیس
کو ہی ملی تھی کہ جو کسی اور کبھی نصیب نہیں ہوئی کیوں کہ میرے علم میں
کوئی ایسا شخص نہیں جسکی مرنے کے نعد وصیت کو نافذ کیا گیا ہو (صاوی ج2
صفحہ 108 )۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے بارے
میں یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے
زمانے میں ایسے کئی صحابہ کرام موجود تھے جو انتہائی بہادر ، دلیر ، جاں
نثار ، اور چھپے ہوئوں میں تھے جن کا ذکر اتنا عام نہیں ملتا ہمیں چاہیئے
کہ ہم ان کی زندگی سے نہ صرف سبق حاصل کریں بلکہ اپنی زندگی کو بھی ان کی
طرح گزارنے کی کوشش کریں اور اللہ رب العزت کے خاص بندوں میں شامل ہوکر جنت
کے حقدار بن جائیں انشاءاللہ ۔
|