رمضان المبارک کی آمد پر تمام امت مسلمہ کو تہہ دِل سے
مبارکباد۔ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قران نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے
نہ کہ صرف سراسر ہدایت ہے بلکہ ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل کتاب ہے جو حق و
باطل کا فرق کھول کر رکھ دیتی ہے۔اس ماہ میں روزہ بھی رکھے جائیں گے اور
تراویح بھی پڑھی جائے گی۔ یہ دونوں عبادتیں باعث مغفرت ہیں۔ بخاری و مسلم
شریف میں ایک حدیث ہے کہ ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت
محمد رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ رمضان کے روزے ایمان و احتساب (ثواب کی
نیت) کے ساتھ رکھے ان کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ اسی طرح جو لوگ
ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں تراویح پڑھیں گے ان کے بھی
پچھلے سب گناہ ماف کر دیے جائیں گے۔
تراویح جمع ہے ترویح کی جس کے معنی ہوتے ہیں’راحت دینا‘ لیکن حقیقت میں
تراویح بڑی مشقّت والی پڑھتے ہیں۔وجہ یہ ہے کہ ہم دنیاوی مقاصد کے پیش نظر
تراویح سے جلد از جلد فراغت چاہتے ہیں جو ایک چھٹکارا حاصل کرنے کے مماثل
ہے۔ افسوس کہ یہ تراویح کی شان اور شرعی احکامات کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اس
ضمن میں کم علمی کے باعث عام مسلمان اور بالخصوص چھوٹے بڑے تاجر حضرات ایسی
مساجد کو تلاش کر ہی لیتے ہیں جہاں پانچ یا چھ راتوں میں قرآن کریم سُن کر
تراویح سے دست برداری حاصل کر لی جائے۔ یہ امر بھی باعث افسوس ہے کہ ہمارے
حفاظ کرام اس قسم کے حضرات کی خواہشوں کی تکمیل کے لیے یا تو تیار ہو جاتے
ہیں یا ایسا کرنے پر مجبورہو جاتے ہیں۔ جبکہ احکام لٰہی ہے کہ قرآن کریم کی
تلاوت ٹھہر ٹھہر کر اطمینان سے کریں کیونکہ دوران تلاوت تلفظ کی غلطی ہو
گئی تو لفظ کے معنی ہی بدل جائیں گے۔ مثال کے طور پر ایک لفظ ہے ’’لَتَدْ
خُلُنَّ‘‘ جس کے معنی ہیں ’تم ضرور داخل ہوگے‘۔لیکن اگر یہ لفظ اس طرح پڑھ
دیا جائے ’ ’ لَاتَدْ خُلُنَّ‘‘ تو اس کے مطلب ہو جاتے ہیں ’تم ہرگز نہیں
داخل ہوگے‘۔پانچ چھ دنوں میں تراویح کی تکمیل کی خاطر جلد بازی میں اگر
حافظ صاحب تلفظ میں غلطی کر گئے تو یہ دانستہ طور پر غلط عمل ہے اور ہمیں
ایسی صورت میں ثواب کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔
یہ بات ذہن نشیں کر لیں کہ تراویح نعوذ باﷲ کوئی رسم نہیں بلکہ ایک عبادت
ہے اور اس عبادت کو ہمیں رمضان شریف کی ساری راتوں میں پھیلانا چاہئے۔
اﷲ تعالیٰ نے ہر نیک کام کو انجام دینے کے لیے آسانیاں فراہم کی ہیں لہذا
درج ذیل امور کواختیار کرکے ہم تراویح کو راحت والی نماز بناسکتے ہیں۔
۱)․ حرمین شریفین کی ترتیب تراویح کی نقل کی جائے جو درج ذیل ہے:
(الف) ۲۹؍ رمضان تک قران کا دور مکمل ہوتا ہے۔
(ب) روزانہ دو امام دس دس رکعات کی ترتیب سے تراویح پڑھاتے ہیں۔
(ت) شروع کے چار روز کے علاوہ بقیہ تمام راتوں میں ایک ایک پارہ پڑھا جاتا
ہے۔
۲)․ ملک کے جنوبی علاقوں کی طرح اگر سارے شہر میں ایک ہی ترتیب پر تراویح
ہو تو کسی خاص مسجد کی پابندی ضروری نہیں ہوگی، لہذا آپ جس علاقہ میں بھی
ہوں وہاں کی مسجد میں عشا کی نماز کے ساتھ تراویح بھی ادا کر سکتے ہیں جس
سے انشا اﷲ سابقہ ترتیب حاصل ہو جائے گی۔
۳) شہری مساجد میں عام طور پر دو حافظِ قرآن ، ایک امام اور دوسرے نائب
امام یا موذّن ہوتے ہیں۔لیکن امام صاحب ہی تراویح پڑھانے کی ذمہ داری
نبھاتے ہیں اور نائب امام کو موقع نہیں ملتا ہے۔اگر روز کے دس-دس پارے ان
دونوں حفاظ میں تقسیم کر دیے جائیں تو نائب امام یا موذن کو بھی قرآن سنانے
کا موقع ملے اور احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو۔
مساجد کے انتظامیہ سے درخواست ہے کہ اس طرح کے نظم پر غور کرنے کی زحمت
فرمائیں۔ |