لمحوں میں طیارہ پانی میں جا گرا لیکن پھر٬ وہ پائلٹس جو طیارے سمیت سمندر میں گرنے کے بعد بھی حیران کن طور پر زندہ بچ گئے

image
 
طیارہ بردار بحری جہازوں سے ٹیک آف کرنا کبھی بھی معمول کی بات نہیں رہی اور اس معاملے میں کئی حادثات بھی پیش آ چکے ہیں۔ تاہم ایجیکٹر سیٹوں نے ان میں سے بہت سے پائلٹوں کو بچایا بھی ہے، جن میں سے کچھ ایسے ہیں جن کے طیارے پہلے ہی زیر آب پہنچ چکے تھے۔
 
یہ 13 اکتوبر سنہ 1954 کی بات ہے۔ رائل نیوی کے ہوا باز بروس میک فارلین نے بحیرہ روم میں کسی مقام پر موجود برطانوی طیارہ بردار بحری جہاز البیون سے اڑان بھری۔ چند لمحوں بعد ہی ان کا طیارہ جہاز کے سامنے پانی میں گر چکا تھا۔
 
میک فارلین ایک بھاری اور طاقتور طیارہ اڑا رہے تھے جسے ویسٹ لینڈ واؤرن کا نام دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے یہ ایک حملہ آور لڑاکا طیارہ ہے جو ایک بہت بڑے انجن سے چلتا ہے اور اس طیارے کے اگلے حصے میں دو گھومنے والے پروپیلرز چلتے رہتے ہیں، ہر ایک مختلف سمت میں گھومتے ہیں۔
 
واؤرن کی تیاری میں مشکلات آئی تھیں اور صرف ایک سال پہلے ہی اسے سروس میں داخل کیا گيا تھا۔ البیون جہاز کا سفر جو ستمبر میں شروع ہوا تھا اس نے ایک سنگین مسئلے کی نشاندہی کی تھی۔
 
کہا گیا تھا کہ ٹیک آف کرتے ہوئے واؤرن جی-فورسز کا نشانہ بن سکتا ہے جس کا مطلب تھا کہ لمحہ بھر کے لیے انجن کو ایندھن کی فراہمی بند ہو سکتی جس کی وجہ سے 'فلیم آوٹ' کا مسئلہ ہو سکتا تھا۔ بغیر ایندھن یا ہتھیاروں کے اس طیارے کا وزن سات ٹن سے زیادہ تھا اور یہ قدرتی طور پر گلائیڈ نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی پہلی تعیناتی کے دوران کئی واؤرنز ٹیک آف کرنے کے بعد سمندر میں گر گئے۔
 
تاہم میک فارلین کا حادثہ کچھ مختلف تھا۔
 
پروپیلرز سے چلنے کے باوجود وائورن جیٹس کی ایک قسم تھی اور وہ صرف چند ’نان جیٹ طیاروں‘ میں سے ایک تھا جس میں انجیکشن سیٹ کی خصوصیت تھی جو ان پائلٹس کے لیے ضروری ہوتا ہے جن کے طیارے بحری جہاز سے پرواز کرنے کے فوراً بعد ہی پانی میں گر جاتے ہیں۔
 
میک فارلین کے پاس اپنی سیٹ کو چالو کرنے کا وقت نہیں تھا اس سے پہلے کہ وہ ایسا کرتے ان کا طیارہ پانی میں گر پڑا اور کچھ دیر بعد 24 ہزار ٹن وزنی طیارہ بردار جہاز ڈوبے ہوئے طیارے پر سے گزر گیا۔
 
image
 
اس پر سے گزرتے ہوئے بحری جہاز نے ڈوبے ہوئے واؤرن کو دو حصوں میں کاٹ دیا۔ وہ جہاز کے گزرنے کے اذیت ناک لمحے کے دوران انتظار کرتے رہے تاکہ اس کے بعد وہ جہاز کی چھتری کو علیحدہ کر سکیں۔ پھر انھوں نے ہینڈل کھینچا۔۔۔ لیکن کچھ نہیں ہوا۔
 
میک فارلین نے دوبارہ ہینڈل کھینچا، اور اس بار سیٹ میں حرکت ہوئی اور اچھل کر نکل پڑے۔ ہوابازی کی ویب سائٹ ہش-کٹ میں اس واقعے کے بارے میں ایک رپورٹ کے مطابق اس کے بعد پائلٹ نے ’خود کو البیون کے نیچے پانی میں ادھر ادھر تیرتے ہوئے پایا۔ گویا یہ کافی نہیں تھا، انھیں جلد ہی احساس ہوا کہ انھیں پانی میں نیچے کی جانب کھینچا جا رہا ہے۔‘
 
اس میں مزید لکھا ہے کہ ’کسی طرح انھوں نے خود کو اس جال کی الجھن سے آزاد کیا جو ان کا پیراشوٹ تھا، اس کے بعد انھوں نے سطح کی طرف آہستہ آہستہ اٹھنا شروع کیا۔‘
 
میک فارلین نے اپنی نشست کو اس طرح استعمال کیا جس کے بارے میں ڈیزائنرز نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا، اور وہ پانی کے اندر ہوائی جہاز سے کامیابی کے ساتھ نکلنے والے پہلے پائلٹ بن گئے۔
 
ایجیکٹر سیٹ ٹیکنالوجی اس وقت اپنے ابتدائی دور میں تھی اور اس وقت تک صرف چند ہی درجن کامیاب اجیکشنز ہوئی تھیں۔
 
سیٹ کو ڈیزائن کرنے والی مارٹن-بیکر نامی ایک برطانوی کمپنی نے اس بات پر بھی غور نہیں کیا تھا کہ آیا سیٹیں اس حالت میں بھی کام کر سکتی ہیں۔
 
ہش کٹ کے ایڈیٹر جو کولز کا کہنا ہے کہ ’آپ کو پانی کے اندر ایجیکٹ نہیں کرنا چاہیے ایسا کرنے سے بنیادی طور پر آپ اپنے ہوائی جہاز کو بم میں تبدیل کر رہے ہوں گے کیونکہ دھماکہ خیز چارج عام طور پر فضا میں پھیل جاتا ہے۔‘
 
پانی کے اندر اپنی سیٹ سے باہر نکلنے والے پائلٹس کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے، جس میں اچانک پانی کے اندر جانے کا خطرہ، اور ڈی کمپریشن کی چوٹوں کا امکان شامل ہیں اور پھر اگر وہ بہت تیزی سے سطح پر اٹھتے ہیں تو جسم میں ’تناؤ‘ آنے کا خطرہ بھی رہتا ہے۔
 
کولز کا کہنا ہے کہ ’سنہ 1950 کی دہائی میں ابتدائی کیریئر جیٹ واقعی خوفناک انجن استعمال کر رہے تھے اور اکثر آسمان میں پرواز کرنے کے بعد بھی گر چکے تھے اور یہ گرنا ناکافی طاقت کی وجہ سے تھا۔‘
 
اس قسم کے بہت سے طیاروں کے حادثے کی بلند شرح نے بہتر ایجیکشن سیٹوں کی ترقی کی حوصلہ افزائی کی تاکہ پائلٹس کی جان بچائی جا سکے۔
 
image
 
مارٹن بیکر نے آخر کار اپنی مارک-6 سیٹ کا ایک ورژن خاص طور پر کیریئر پر مبنی بلیک برن بکینیر کے لیے بنایا۔ کول کہتے ہیں کہ اس کے پس پشت 'خیال یہ تھا کہ آپ کو کام چلنے کے لیے کمپریسڈ ہوا ملتی رہے، آپ کو پانی کے اندر دھماکہ خیز مواد نہیں چاہیے ۔ لہذا، مارک 6 کے ساتھ، آپ چھتری کو کمپریسڈ ہوا سے اڑا دیتے ہیں، اور آپ پائلٹ کو کمپریسڈ ہوا سے اوپر دھکیلتے ہیں۔
 
'جب طیارہ پانی کے اندر ایک خاص گہرائی تک پہنچتا ہے تو اسے پتا چل جاتا ہے کہ وہ وہاں ہے اور پانی کے اندر سے نکلنے کا کام وہاں سے شروع کر دیتا ہے۔۔۔ طیارہ جانتا ہے اور یہ اس آدمی کو باہر نکالنا ہے۔ ہم پانی کے اندر نہیں رہنا چاہتے۔'
 
میک فارلین کے بچنے کے ایک دہائی بعد امریکی بحریہ کے ہوا باز اے-7 لڑاکا طیارے سے کامیابی کے ساتھ باہر نکلے تھے جب رات کی مشق کے دوران غلط طریقے سے ان کا جہاز اترا تھا اور بحری جہاز کے عرشے کے کنارے سے لٹک گیا تھا اور اس کی دم کا ہُک تار میں پھنس گیا تھا۔
 
پائلٹ رس پیئرسن نے بعد میں بحری میگزین دی ہُک کے لکھا: 'دل کی دھڑکن سے بھی کم وقت میں، طیارہ فلائٹ ڈیک کے کنارے پر غیر یقینی طور پر پھنس گیا تھا۔۔۔ اس وقت ایجیکٹ کرنا خودکشی کے مترادف تھا۔ اجیکشن سیٹ کی راکٹ موٹر سیٹ کو پانی پر اس طرح دھکیلے گی جیسے کہ کوئی سپاٹ چٹان کسی تالاب پر پچھلتا ہوا نکلے۔‘
 
اے-7 کا انجن لڑھکتا ہوا نیچے جا رہا تھا یہاں تک کہ وہ اپنی برقی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے بہت آہستہ حرکت نہ کرنے لگا۔ پیئرسن لکھتے ہیں کہ ’طیارہ فلائٹ ڈیک سے گرا اور بحرالکاہل کے پانی پر گرنے سے پہلے کوئی 60 فٹ [18 میٹر] نیچے گیا - یہ احساس بلیک ہول میں گرنے جیسا تھا۔‘
 
امریکی بحریہ کی تربیت میں پائلٹس کو سکھایا گيا تھا کہ اوسط طیارہ ہر سیکنڈ میں 10 فٹ (تین میٹر) ڈوبتا ہے، اور بہت دیر ہونے سے پہلے ان کے پاس فرار کے لیے صرف 10 سیکنڈ کا وقت ہوتا ہے۔
 
ہڈسن نے ہینڈل کھینچا جس کی وجہ سے وہ دھماکے سے گہرے پانی میں اڑا دیا گیا، اس قوت نے اس کے چہرے سے آکسیجن ماسک کو گرا دیا۔ اس کی حالت ایسی ہو گئی کہ اسے اوپر نيچے کا فرق نہیں رہا اور وہ لینڈنگ ٹارچز کی ٹمٹماتی روشنیوں کی مدد سے بچا جو کیریئر کے فلائٹ ڈیک ڈائریکٹرز نے پانی میں پھینکی تھیں۔
 
پیئرسن اپنے جزوی طور پر کھلے ہوئے پیراشوٹ کے ذریعے تقریباً پیچھے گھسیٹ لیا گیا تھا اور وہ سطح آب کے نیچے تیرنے والے اپنے ہوائی جہاز کی سپورٹ سے اپنی لائف جیکٹ کو پھلانے میں کامیاب ہوا تھا۔
 
image
 
مزید ایک دہائی بعد ایک واقعے میں تیسرا پائلٹ تھا جو اس طرح کی صورت حال سے بچنے میں کامیاب ہوا۔ اس کا تعلق انڈیا سے تھا۔ اس کا طیارہ ٹیک آف کے بعد سمندر میں گر کر تباہ ہو گیا۔ تاہم ایسے واقعات شاذونادر کے ہی زمرے میں آتے ہیں۔
 
اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ پانی کے اندر ہوائی جہاز سے باہر نکلنا کتنا مشکل ہوتا ہے تو سنہ 1960 کی دہائی کی یہ امریکی بحریہ کی ہدایاتی ویڈیو اس کو پیش کرنے کے لیے کافی ہے۔
 
راوی کے سکرپٹ کا پرسکون لہجہ ناقابل یقین حد تک دباؤ والی صورتحال کو جھٹلاتا ہے، کیونکہ ایک پائلٹ ایک ڈمی کاک پٹ سے ایک ٹیسٹ ٹینک سے باہر نکلتا ہے جو ریسکیو غوطہ خوروں سے گھرا ہوا ہے۔
 
دلچسپ بات یہ ہے کہ ویڈیو پائلٹس کو خبردار کرتی ہے کہ اگر وہ سطح پر تیر رہے ہوں تو اپنے طیارے سے باہر نہ نکلیں۔ حالیہ ماڈلز کے برعکس کھڑے ہوئے طیارے (جسے ’زیرو-زیرو‘ کہا جاتا ہے) سے ایجیکشن سیٹ ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا محفوظ نہیں۔
 
ویڈیو میں کہا گیا ہے کہ پانی پر 80 فٹ (25 میٹر) کی بلندی سے گرنا کسی کنکریٹ پر اسی بلندی گرنے سے مختلف نہیں ہے۔ یہ سنسنی دوڑا دینے والا خیال ہے۔
 
ویڈیو کا فائر سائیڈ چیٹ ٹون ایک پائلٹ کی فوٹیج سے متصادم ہے جو ڈوبے ہوئے کاک پٹ سے سست رفتاری کے ساتھ بچ نکلتا ہے (انجیکشن میں لگنے والی توانائی سے لمحے بھر کے لیے بلیک آوٹ ہو سکتا ہے۔۔۔ اپنی عقل کو مجتمع کرنے کے فوراً بعد، سیٹ سے خود کو علیحدہ کر لیں)۔
 
اگرچہ پائلٹوں کو آکسیجن کی سپلائی سے منسلک کیا گیا ہوتا اور انھیں اپنی سانسیں روکے رکھنے کے لیے کوئی خاص جدوجہد نہیں کرنی پڑتی لیکن ویڈیو دکھاتی ہے کہ پائلٹوں کے لیے سیٹ سے الگ ہونا کتنا مشکل ہوتا ہے۔
 
نومبر سنہ 2021 میں، رائل نیوی کے ایک ایف-35 بی فائٹر طیارے کے پائلٹ کو ٹیک آف کے فوراً بعد ایک کیریئر کے بہت قریب اپنے طیارے سے ایجیکٹ ہونا پڑا (ممکنہ طور پر اس لیے کہ لانچ سے پہلے حفاظتی انجن کے کور نہیں ہٹائے گئے تھے)۔
 
F-35B میں ایک ایسا نظام ہے جو پائلٹ کو خود بخود باہر ایجیکٹ کر دیتا ہے اگر اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ سطح سے ٹکرانے والا ہے۔ یہ یاک 38 نامی سوویت جمپ جیٹ میں استعمال ہونے والے سسٹم کا بہت زیادہ نفیس ورژن ہے۔
 
روسی ورژن سنہ1970 کی دہائی میں سروس میں داخل ہوا تھا۔ یاک برطانیہ اور امریکہ کے استعمال کردہ ہیریئرز جیسا تھا لیکن اس کا انجن کم طاقتور، کم قابل اعتماد تھا۔ اگر اس کا کوئی بھی لفٹ جیٹ خراب ہو جاتا ہے طیارہ 60 ڈگری سے زیادہ گھوم جاتا ہے تو پائلٹ خود بخود ایجیکٹ کر دیا جاتا ہے۔
 
بہر حال یہ کوئی خوشگوار حیرت والی بات نہیں لیکن پانی کی سطح کے نیچے اپنے ہاتھوں کی مدد سے نکلنا شاید کم دباؤ والا معاملہ ہوتا ہے۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: