یہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف ہے جو سنت علی
الکفایہ ہے یعنی محلے میں اگر ایک شخص بھی اعتکاف کرلے تو سب کی طرف سے
ہوجائے گا ورنہ سب گناہ گار ہوں گے، رمضان المبارک کی بیس تاریخ کو سورج
غروب ہونے سے کچھ پہلے اعتکاف شروع کیا جاتا ہے اور عید کا چاند نظر آنے تک
جاری رہتا ہے۔ اس اعتکاف کے ذریعے سے اﷲ تعالیٰ سے تقرب کے ساتھ شب قدر کی
عبادت حاصل ہوجاتی ہے جس میں عبادت کرنا اﷲ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ہزار
مہینوں یعنی 83 سال کی عبادت سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ 2 ہجری میں روزے کی
فرضیت کے بعد سے وفات تک نبی اکرمؐ نے ہمیشہ رمضان میں اعتکاف فرمایا،حضرت
ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ’’جو شخص اﷲ کی
رضا کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے
درمیان تین خندقوں کو آڑ بنا دیں گے، ایک خندق کی مسافت آسمان و زمین کی
درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہے،ایک دن کے اعتکاف کی یہ فضیلت ہے تو
رمضان المبارک کے آخری عشرے کے اعتکاف کی کیا فضیلت ہوگی؟ خوش قسمت ہیں وہ
لوگ جو رمضان کی مبارک گھڑیوں میں اعتکاف کرتے ہیں اور مذکورہ فضیلت کے
مستحق قرار پاتے ہیں،حضرت سیدنا ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے
رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے عشرے میں بھی، پھر
خیمے سے جس میں اعتکاف فرمارہے تھے، باہر سر نکال کر ارشاد فرمایا کہ میں
نے پہلے عشرے کا اعتکاف شب قدر کی تلاش اور اہتمام کی وجہ سے کیا تھا پھر
اسی کی وجہ سے دوسرے عشرے میں کیا، پھر مجھے کسی (یعنی فرشتے) نے بتایا کہ
وہ رات آخری عشرے میں ہے، لہٰذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کررہے ہیں وہ آخری
عشرے کا بھی اعتکاف کریں (بخاری و مسلم)حضرت سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ
رسول اﷲؐ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے، وفات تک آپ کا یہ
معمول رہا۔ آپؐ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اہتمام سے اعتکاف کرتی رہیں (بخاری
ومسلم)حضرت سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲؐ ہر رمضان کے آخری عشرے
میں اعتکاف فرماتے تھے لیکن جس سال آپؐ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن
کا اعتکاف فرمایا (بخاری)حضرت سیدنا عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول
اﷲﷺ نے اعتکاف کرنے والے کے لیے فرمایا کہ وہ (اعتکاف کی وجہ سے مسجد میں
مقید ہوجانے کی وجہ سے) گناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کے لیے نیکیاں اتنی
ہی لکھی جاتی ہیں جتنی کرنے والے کے لیے (یعنی اعتکاف کرنے والا بہت سے نیک
اعمال مثلاً جنازے میں شرکت، مریض کی عیادت وغیرہ سے اعتکاف کی وجہ سے رکا
رہتا ہے، ان اعمال کا اجروثواب اعتکاف کرنے والے کو کیے بغیر بھی ملتا رہتا
ہے (ابن ماجہ)معتکف کو بلا ضرورت شرعیہ وطبعیہ اعتکاف والی مسجد سے باہر
نکلنا جائز نہیں ہے۔معتکف کے متعلقین میں سے کوئی سخت بیمار ہوجائے یا کسی
کی وفات ہوجائے یا کوئی بڑا حادثہ پیش آجائے یا معتکف خود ہی سخت بیمار
ہوجائے یا اس کی جان ومال کو خطرہ لاحق ہوجائے تو معتکف کے مسجد سے چلے
جانے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا لیکن ایسی مجبوری میں چلے جانے سے گنا ہ نہیں
ہوگا ان شاء ا ﷲ۔ البتہ بعد میں قضا کرنی چاہیے،حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا
فرماتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے اور فرمایا
کرتے کہ لیلۃ القدر کو رمضان کی آخری راتوں میں تلاش کیا کرو،اعتکاف سے
مقصود لیلۃ القدر کو پانا ہے، جس کی فضیلت ہزار مہینوں سے زیادہ ہے۔ اس
حدیث میں لیلۃ القدر کو تلاش کرنے کے لیے آخری عشرے کا اہتمام بتایا گیا ہے
جو دیگر احادیث کی رو سے اس عشرے کی طاق راتیں ہیں۔ لہٰذا بہتر تو یہی ہے
کہ اس آخری عشرے کی ساری راتوں میں بیداری کا اہتمام کرنا چاہیے، ورنہ کم
از کم طاق راتوں کو تو ضرور عبادت میں گزارنا چاہیے۔ رمضان کے سنت اعتکاف
کا وقت بیسواں روزہ پورا ہونے کے دن غروبِ آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور عید
کا چاند نظر آنے تک رہتا ہے۔ معتکف کو چاہیے کہ وہ بیسویں دن غروبِ آفتاب
سے پہلے اعتکاف والی جگہ پہنچ جائے۔اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے مولائے کریم ہمیں
رمضان المبارک کے ایام کی صحیح معنوں میں قدر دانی کر نے کی توفیق نصیب
فرمائے اور اعتکاف جیسی سنت کو مستقل اپنانے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین |