ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓجناب نبی کریم ﷺکی
زوجہ محترمہ اور خلیفہ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی صاحبزادی ہیں
،مسلمانوں کی ماں ہیں،اﷲ تعالیٰ نے آ پ ؓ کو بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا
،سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نبی ﷺ کے اعلان نبوت کے چار سال بعد پیدا
ہوئیں، سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا انتہائی ذہین تھیں اور انہیں یہ بھی اعزاز
حاصل ہے کہ علمی طور پر صحابیاتؓ میں سب سے بڑی فقیہہ تھیں، نبی ﷺ نے نکاح
سے پہلے انہیں دو مرتبہ خواب میں دیکھا کہ وہ ریشمی کپڑے میں ملبوس ہیں،
کوئی شخص آپ ﷺ سے کہتا ہے کہ یہ آپﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں۔ آپ ﷺ دوران خواب
ہی فرماتے ہیں کہ اگر یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو ایسا ہوجائے گا۔ اسی
خواب کی بنیاد پر رسول اﷲ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے ہاں عائشہ
صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے نکاح کا پیغام بھجوایا۔اتنا سننا تھا کہ سیدنا ابوبکر
صدیق رضی اﷲ عنہ خوشی سے پھولے نہ سمائے تھے کہ ان کی صاحبزادی حضرت محمد ﷺ
کے نکاح میں آئیں۔ چنانچہ فوراً راضی ہوگئے اور شوال کے مہینے میں چار سو
درہم کے حق مہر پر آپ کا نکاح ہوا،حضرت عائشہ صدیقہ ؓکو مندرجہ ذیل ایسی
خصوصیات حاصل تھیں، جن میں امت کا کوئی فرد ان کا سہیم و شریک نہیں،چنانچہ
وہ فرماتی ہیں فرشتہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ان کی تصویر لے کر حاضر ہوا۔وہ
آپ ﷺ کو ازواج مطہرات ؓ میں سب سے زیادہ محبوب تھیں۔ آپ کی وجہ سے امت کو
تیمم کی رخصت ملی،جبرائیل علیہ السلام کو آپ نے دیکھا،آپ کی پاک دامنی اور
برات میں دس قرآنی آیات نازل ہوئیں اس کے علاوہ اور بھی کئی فضیلتیں حاصل
تھیں۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ لوگ رسول اﷲ ﷺکی خدمت میں ہدیہ پیش کرنے
کے لیے اس دن کا انتظار کرتے جس روز آپﷺ کی میرے یہاں باری ہوتی اور اس سے
ان کا منشا رسول اﷲﷺ کی خوش نودی حاصل کرنا تھا،حضرت عُروہ بن زبیرؓ کا قول
ہے کہ میں نے قرآن و حدیث، فقہ و تاریخ اور علم الانساب میں اُمّ المومنین
حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا، احنف بن قیسؒ اور موسیٰ بن طلحہؒ
کا قول ہے کہ حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر میں نے کسی کو فصیح الّلسان نہیں
پایا،رسول اﷲ ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ﷺجہاں عام حالات میں اپنے ساتھ حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کو رکھا کرتے تھے،وہاں کئی مواقع پر سفر میں بھی
آپ کو اپنے ساتھ لے گئے۔ جن میں غزوات کے سفر بھی شامل ہیں،امّ المومنین
سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کم کھانا تمام بیماریوں کا علاج ہے اور
شکم سیری بیماری کی جڑ ہے،مہمان کی خاطر زیادہ خرچ کرو، کہ یہ اسراف
نہیں،عبادتوں میں افضل ترین عبادت عاجزی ہے،مصیبتوں کا مقابلہ صبر سے اور
نعمتوں کی حفاظت شکر کے ساتھ کرو،آدمی کے برا ہونے کی ایک علامت یہ ہے کہ
وہ یہ گمان کرے کہ وہ اچھا ہے،زبا ن کی حفاظت کرو کہ عزت اور ذلت کی یہی
سزاوار ہے،تمہارے لیے خیر اسی میں ہے کہ شر سے باز آجاؤ،حق کا پرستار ذلیل
نہیں ہوتا، چاہے سارا زمانہ اس کے خلاف ہوجائے اور باطل کا پرستار عزت نہیں
پاتا،چاہے چاند اس کی پیشانی پر نکل آئے،جب معدہ بھر جائے تو فکر کمزور
پڑجاتی ہے اور حکمت و دانائی کی صلاحیت گونگی ہوجاتی ہے،عظمت صرف ایک فیصد
ودیعت کی جاتی ہے اور ننانوے فیصد محنت و ریاضت سے ملتی ہے ،اس کے علا وہ
اور بھی بہت سارے ارشادات حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہیں،حضرت ابوبکرصدیقؓ
فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے بڑھ کر علم قرآن و فرائض اور حلال و
حرام شعر و تاریخ عرب نیز نسب اور فقہ و طب میں کوئی نہ دیکھا۔ حضرت عروہ ؓ
فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ کو دیکھا کہ آپ ؓستر ہزار کی بھاری بھرکم
رقم تقسیم فرما دیتی تھیں اور اپنی قمیض پر پیوند لگے ہوئے تھے۔ حضرت عروہؓ
فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ کثرت سے روزے رکھا کرتی تھیں، امام یحییٰ بن
معین رحمۃ اﷲ علیہ نے حضرت عائشہؓ کے طریق سے روایت نقل کی ہے وہ فرماتی
ہیں کہ میں نبی کریم ﷺکے روضہ اقدس میں بغیر پردے جایا کرتی تھی اور یہی
گمان کرتی کہ ان میں حضور ﷺاور میرے والد ہی تو ہیں ان سے کیا پردہ کرنا
پھر جب حضرت عمر ؓدفن ہوئے تو میں کبھی بھی پردہ کئے بغیر نہ گئی کہ مجھے
عمرؓ سے حیاء مانع تھی، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ کا وصال
ہوا تو ہمارے پاس کچھ گیہوں تھے ہم کافی عرصہ تک اسی سے کھاتے رہے پھر ہم
نے خادمہ سے کہا کہ ان کو تول کر دیکھو جب سے خادمہ نے تولا اس وقت سے وہ
گیہوں کم ہونا شروع ہو گئے۔ اگر نہ تولتے تو جب تک چاہتے اسی سے کھاتے
رہتے۔رسول اﷲ ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے وقت آپ کی طبیعت کئی روزعلیل
رہی، بیماری نے شدت اختیار کی۔آپ ﷺ نے اپنی تمام ازواج مطہراتؓسے اجازت
چاہی کہ آپ کی تیمارداری عائشہ صدیقہؓ کے ہاں کی جائے۔ تمام ازواج مطہراتؓ
نے بخوشی اس کی اجازت دے دی۔ آپ ﷺ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے ہاں تشریف لے گئے،
اور وصال تک ان ہی کے ہاں رہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہاسورہ اخلاص،
سورہ فلق اور سورہ ناس پڑھ کر رسول اﷲ ﷺ کے ہاتھوں پر دم کرتی تھیں۔نبی ﷺ
کی حیات طیبہ کے آخری لمحات میں یہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے لیے
بڑا اعزاز تھا۔ آنحضرت ﷺنے میرے سوا کسی دوسری کنواری سے شادی نہ کی جب آپؐ
پر وحی نازل ہوتی تو آپ ﷺ میرے پاس ہوتے، آسمانوں سے میری برأت نازل
ہوئی،میں ساری دنیا میں سب سے زیادہ آپؐ کو محبوب تھی جب آپ ؐ کو دنیا و
آخرت کا اختیار دیا گیا تو اس وقت بھی آپؐ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے
جب وصال ہوا تو میری ہی باری کا دن تھا۔ آپﷺ کی تدفین بھی میرے ہی گھر میں
ہوئی۔ آپ ؐنے آخری وقت میں مسواک نرم کرنے کے لئے حضرت عائشہؓ کو دی ان کا
لعاب مسواک کو لگا جومسواک رسول اﷲ ﷺ نے کی، امام ترمذی ؒفرماتے ہیں کہ
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓسے مروی ہے کہ ہم پر جب بھی کوئی حدیث مشکل گزرتی اور
سمجھ میں نہ آتی توجب حضرت عائشہؓ سے اس بارے میں پوچھا جاتا اس کا علم
انہیں کے پاس پایا جاتا۔خواتین کو آج آپ ؓ کا اسوہ اپنانے کی اشد ضرورت
ہے،جس پر عمل پیرا ہو کر زندگی میں انقلاب لا یا جا سکتا ہے، دین محمدیؐ
کاایک حصہ آپؓ سے مروی ہے۔ اسلام کی اس عظیم ہستی کا۱۷رمضان۵۸ ھ میں انتقال
ہوا اور تدفین جنت البقیع میں ہوئی حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ آپؓ کو آپﷺ
کے پہلو میں دفن کیا جائے انہوں نے کہا کہ مجھے ازواج مطہراتؓ کے ہمراہ جنت
البقیع میں دفن کیا جائے چنانچہ آپؓ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا ۔
|