انصاف کی فراہمی، انسانی حقوق، جمہوریت، آئین اور قانون
کی حکمرانی کےاور قانون کے دفاع کےلئےوکلاء برادری انتہائی اہم کردار ادا
کرتی رہی ہے۔ دوسری جانب وکلاء برادری پر خطرناک حد تک بڑھتے ہوئے پر دہشت
گرد حملوں، دبائو، دھونس، دھمکیوں کے حالیہ واقعات نے وکلاء برادری کے لئے
پیشہ ورانہ فرائض کو سرانجام دینا انتہائی مشکل ہوتا جارہا ہے۔ایسے وکلاء
کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران مذکورہ حملوں ، مجرمانہ
قوت،ڈرانے دھمکانے سے بچانے کے لیے قانون سازی کرنا وقت کی اشدضرورت
تھی۔پاکستان بار کونسل سمیت چاروں صوبائی بار کونسلز ، سپریم کورٹ بار،
ہائی کورٹ باراور پاکستان بھر کی ضلعی و تحصیل بار ایسویسی ایشن عرصہ دراز
سے وکلاء کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے لئے پاکستانی پارلیمان سے ایسی قانون
سازی کی خواہاں تھی جس میں وکلاء کے تحفظ کے ساتھ ساتھ انکی فلاح و بہبودکے
اقدامات کو قانونی تحفظ میسر ہوسکے۔ اس سلسلہ میں پارلیمان نے’’وکلاء کی
بہبود اور تحفظ کا بل 2023‘‘ تیار کیا ۔جس میں، اس بات کو یقینی بنانے کے
لیے طریقہ کار وضع کیا گیا ہے کہ وکلاءبغیر کسی خوف یا بیرونی اثر و رسوخ
اپنی پیشہ ورانہ خدمات انصاف کی فراہمی اور قانون کی حکمرانی کے لئے اپنی
خدمات پیش کرسکیں۔بالآخرپاکستان کی قومی اسمبلی نے 29مارچ کو وکلاء کی
بہبود اور تحفظ کا بل 2023بھاری اکثریت سےبل منظور کرلیا۔امید ہے بہت جلد
سینٹ اور صدر مملکت کی منظوری کے بعد باقاعدہ قانون کی صورت اختیار کرکے
پورے ملک میں نافظ العمل ہوجائے گا۔اس بل کے تین باب ہیں۔ پہلا باب ابتدایہ
ہے جس میں بل بارے مختصر عنوان، حدود اور آغاز، متعدد اصطلاحات کی تعریف
موجود ہیں۔ دوسرے باب میں جرائم اور سزائوں بارے معلومات کا اندراج ہے جبکہ
تیسرے باب میں وکلاء کی فلاح و بہبودبارے معلومات ہیں ۔اس بل کے اغراض و
مقاصد میں درج بالا خطرات کا ذکر اوراسکےساتھ بین الاقوامی سطح پر وکلاء
برادری کے تحفظ کےاُٹھائی جانے والی آوازوں کا بھی تذکرہ موجود ہے۔ جیسا
کہ یہ قانون اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی مختلف قراردادوں سے بھی مطابقت
رکھتا ہے۔اور اسکے ساتھ ساتھستمبر، 1990 میں ہوانا، کیوبا میں اقوام متحدہ
کی آٹھویں کانگریس کی مناسبت سےاپنائی گئی قرارداد "Basic Principles on
the Role of Lawyers" جس میں حکومتوں پر زور دیا گیا تھا کہ حکومتیں اس بات
کو یقینی بنائے گی کہ وکلاء بغیر کسی خوف و ہراس ، رکاوٹ، ہراساں کرنا یا
مداخلتاپنے تمام پیشہ ورانہ افعال انجام دینے کے قابل ہوںسکیں اور اسکے
ساتھ ساتھ حکام کی یہ ذمہ داری ہوگی ہے کہ وہ وکلاء کو ہر قسم کے خطرے، خوف
و ہراس سے محفوظ رکھنے کے لئے انتظامات کریں۔
قانون کی نمایاں خصوصیات:
قانون کے باب نمبر 2میں وکلاء کے خلاف جرم کی تفصیل اور سزا بارے تفصیلات
درج ہیں۔ کسی وکیل کو اسکے پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی سے روکنے کے لئے
کسی بھی قسم کی دھمکی، کام سے روکنا ، بلیک میل کرنا، کام میں رکاوٹ ڈالنا
، عدالتوں میں پیش ہونے سے روکنا جیسے عوامل کو "وکیل کے خلاف تشدد کا عمل"
اور قابل سزا فعل قرار دیا گیا ہے۔اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں تین سال
تک کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ تجویز کی گئی ہے۔ اور اگر پہلے سے سزا
یافتہ شخص وکیل کے خلاف دوبارہ جرم کا ارتکاب کرےتواسکو پانچ سال تک کی سزا
اور دو لاکھ جرمانہ کیا جائے گا۔اور یہ جرم قابل دست اندازی، ناقابل ضمانت
ہوگا اور صرف عدالت کی اجازت ہی سے قابل راضی نامہ ہوگا۔کسی وکیل کے خلاف
مذکورہ جرم کی صورت میںدرج کئے گئے مقدمہ کی انسپکٹر سے کم عہدہ کا پولیس
آفیسر تفتیش نہیں کرے گا۔اور مقدمہ کی تفتیش 14دن کے اندر اندر مکمل کرکے
چالان عدالت میں پیش کرنا لازم ہوگا۔وفاقی حکومت متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف
جسٹس کیساتھ مشارورت سے ایڈیشنل سیشن جج کی سربراہی میں مقدمات کی سماعت کے
لئے خصوصی عدالتوں کا قیام کیا جائے گا۔اور خصوصی عدالتوں سے مقدمہ کا
فیصلہ چھ ماہ کے اندر اندر سنایا جائے گا ۔کسی فرد، سرکاری اہلکار،اتھارٹی
کے پاس یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ وکیل سےاسکے پیشہ ورانہ کام کے سلسلہ
میں کسی قسم کی دستاویزات اور معلومات کے حصول کے لئے وہ کسی وکیل کو
گرفتار کرے یا حراست میں لے یا پھر اس سے کسی قسم کی تحقیقات کرے۔ ایسا
کرنے کی صورت میں اس شخص کے خلاف وکیل کے خلاف کے تشدد کا عمل تصور کیا
جائے گا ۔اس قانون کے باب نمبر 3میں بنیادی سہولیات بارے تفصیلا ت کا
اندراج ہے۔جیسا کہ ہر اُس کمپنی جسکے پاس کم از کم بیس ملین پیڈ اپ سرمایہ
، خود مختار ادارہ، کارپوریشن یا قانونی اتھارٹی ہوگی تو اس کمپنی کے لئے
کم از کم ایک پیشہ ور وکیل کو لیگل ایڈوائزر رکھنا لازم ہوگا۔ اور ایک وکیل
بیک وقت زیادہ سے زیادہ تین کمپنیوںمیں لیگل ایڈوائز کے طور پر اپنی خدمات
سرانجام دے سکتا ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومت تمام سرکاری اور نیم سرکاری
ہسپتالوں کو مطلع کرے گی کہ وکیل، وکیل کے والدین، وکیل کا زوج اور زیر
کفالت بچوں کو گزیٹیڈ سرکاری افسر کے برابرطبی علاج کی سہولیات کا حق حاصل
ہوگا۔یہ طبی سہولیات وکیل کی جانب سے متعلقہ بار کونسل کے تصدیق شدہ لائسنس
دیکھانے کی صورت میں دی جائے گی۔تمام مالیاتی ادارے وکیل کو بغیر کسی
امتیاز کے مالی سہولیات کی فراہمی میں تعاون کو یقینی بنائیں گے اور کسی
خلاف ورزی کی صورت میں، متاثرہ وکیل کی شکایت پر، متعلقہ اتھارٹی مناسب
مالیاتی ادارہ کے خلاف کارروائی شروع کرے گی۔ایک وکیل جو اپنی پیشہ ورانہ
ڈیوٹی کی انجام دہی کے دوران نامعلوم حملہ آور کے ہاتھوں دہشت گردی یا
دیگر جارحیت کا شکار ہوجائے تو اس کا خاندان حکومت کے گریڈ 18کے گزٹیڈ
آفسیر کے برابر شہدا پیکج کا حقدار ہوگا ۔قومی اسمبلی سے اس بل کی منظور ی
کے بعد پاکستان بار کونسل و صوبائی بار کونسلز اور تمام وکلاء برادری نے
انتہائی مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
|