جی20 اجلاس اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سازشیں

ان واقعات اور صورتحال سے یہ خطرات ظاہر ہوتے ہیں کہ بھارتی حکومت جی 20سربراہ اجلاس سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کا کوئی ایسا واقعہ کروا سکتی ہے کہ جس کا الزام پاکستان پہ عائید کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر سے متعلق عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ مقبوضہ کشمیرکے سابق گورنر ستیا پال ملک نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی بتایا کہ مقبوضہ جموں وکشمیرسے متعلق بھارتی حکومت کے5اگست2019کے اقدام سے پہلے ہی ایسے سخت ترین اقدامات کر لئے گئے تھے کہ جس سے مقبوضہ کشمیرمیں یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ '' کوئی کتا بھونک سکے یا کوئی چڑیا چہچہا سکے''۔
اطہر مسعود وانی

اس وقت جبکہ بھارت میں جی20سربراہی کانفرنس کی تیاریا ں جاری ہیں، مقبوضہ جموں و کشمیر میں متعین بھارت کے سابق گورنرستیا پال ملک کے ایک انٹرویو میں کئے گئے انکشافات عالمی سطح پہ ایک موضوع بن گئے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میںاگست 2018 سے اکتوبر 2019 تک گورنر متعین رہنے والے ستیا پال ملک نے انڈین میڈیا آرگن '' دی وائر'' کے صحافی کرن تھاپر کو دیئے گئے ایک تفصیلی وڈیو انٹرویو میں بھارتی حکومت اور بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سازشیانہ کردار کے بارے میں انکشاف کیا کہ اس کا مقصد پلوامہ واقعہ کی ذمہ داری پاکستان پہ ڈالتے ہوئے مودی حکومت اور' بی جے پی ' کو انتخابات میں فائدہ پہنچانا تھا۔ امریکہ کے سرکاری نشریاتی ادارے ' وائس آف امریکہ' نے اپنی رپورٹ میں ستیا پال ملک کے اس انٹرویو کے حوالے سے لکھا کہ '' مودی نے انہیں کہا تھا کہ وہ چپ رہیں اور کسی کو نہ بتائیں۔ اسی طرح قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے بھی ان سے کہا کہ وہ خاموش رہیں اور اس بارے میں بات نہ کریں۔

ستیا پال ملک کا کہنا تھا کہ وہ اس کے بعد فوری طور پر سمجھ گئے تھے کہ اس کا مقصد پاکستان پر الزام لگانا اور حکومت اور بی جے پی کو انتخابی فائدہ پہنچانا ہے''۔ستیا پال نے انٹرویو میں کہا کہ ' سی آرپی ایف' کے قافلے کی حفاظت کے لئے غیر معمولی سنگین نوعیت کی غفلت سے متعلق امور کی نشاندہی پہ وزیر اعظم مودی نے انہیںخاموش رہنے اور یہ باتیں کسی کو نہ بتانے کو کہا۔سیکورٹی ایڈوائزر اجت ڈوول نے بھی بات کرنے پہ انہیں چپ رہنے کی ہدایت کی۔ستیا پال ملک نے بتایا کہ میں نے محسوس کر لیا کہ پلوامہ واقعہ کی ساری ذمہ داری پاکستان پر ڈالی جائے گی اس لئے اس معاملے میں خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔ ستیا پال نے کرن تھاپر کے اس سوال کہ یہ ایک طرح سے حکومت کی ایک چالاک پالیسی تھی جس کا مقصد پاکستان پر الزام لگانا تھا؟ تو ستیا پال نے جواب میں کہا کہ بالکل۔

پلوامہ میں' سی آر پی ایف' کے قافلے پر حملے کا ایسا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا کہ جو بھارتی ایجنسیوں نے خود کرایا تا کہ اس طرح کے واقعات کو پاکستان کے خلاف سفارتی اور سیاسی سطح پہ استعمال کیا جا سکے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے جعلی مقابلے، جن میں کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کرنے کے بعد فائرنگ سے قتل کرنے کے بعد اعلان کیا جا تا ہے کہ یہ فوج سے مسلح لڑائی میں ہلاک ہوئے ہیں،اسی طرح بھارتی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں اجتماعی قتل عام کے ایسے متعدد واقعات میں ملوث ہیں جس کا مقصد کشمیریوں کی آزادی کی مزاحمتی تحریک اور پاکستان کے خلاف سیاسی اور سفارتی مفادات حاصل کرنا ہوتا ہے۔

ایسا ہی ایک بڑا واقعہ چھٹی سنگھ پورہ کا ہے جس میں بھارتی فوجیوں نے امریکہ کے صدر بل کلنٹن کے دورہ بھارت سے تین دن پہلے 20 مارچ2000 کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے گائوں چھٹی سنگھ پورہ میں35سکھو ں کو قطار میں کھڑا کر کے فائرنگ سے ہلاک کر دیا تھا۔عینی شاہدین کے مطابق چھٹی سنگھ پورہ کے دو گوردواروں میں سکھ اپنا مذہبی تہوار منانے کے لئے اکٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران بھارتی فوجی گاڑیاں گائوں میں داخل ہوئیں اور بھارتی فوج کی وردیوںمیں ملبوس افراد نے موقع پہ موجود سکھوں کو قطار میں کھڑا کر کے فائرنگ سے ہلاک کر دیا۔عینی شاہدین نے صحافیوں کو یہ بھی بتایا کہ قتل عام کے بعد فوجیوں نے بھارت کے حق میں نعرے بھی لگائے۔سکھوں کے قتل عام کے اس واقعہ کے فوری بعد بھارت نے اس واقعہ کے حوالے سے پاکستان کے خلاف شدت سے پروپیگنڈہ مہم شروع کر دی۔

امریکہ کی سابق سفارت کار اور 1997 سے 2001 تک وزیر خارجہ کے عہدے پہ متعین رہنے والی میڈلین البرائٹ کی کتاب '' مائیٹی اینڈ دی آلمائٹ: ریفلیکشنز آن امریکہ، گاڈ اینڈ ورلڈ افیئرز (2006)'' کے تعارف میں ہلیری کلنٹن نے لکھا کہ چھٹی سنگھ پورہ کا قتل عام ہندو عسکریت پسندوں نے کیا ۔بھارتی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل کے ایس گل کے مطابق بھارتی فوج کے چند افسران جو جعلی مقابلوں میں ملوث رہے، وہ معمول کی چیکنگ کے لئے چھٹی سنگھ پورہ جاتے رہے تھے اور سکھوں کو مکمل معلومات کے حصول کے بعد ہی قطار میں کھڑا کر کے ہلاک کیا گیا۔

بھارتی حکومت کی طرف سے فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے کشمیریوں کی تحریک آزادی اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کے لئے مقبوضہ کشمیر میں کی جانے والی متعدد سازشوں میں جولائی1995میں مقبوضہ کشمیر میں چھ مغربی سیاحوں کے اغوا کا واقعہ ہے جسے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ایک فرضی تنظیم الفاران کے نام سے اغوا کرایا۔امریکی روزنامہ ' 'نیو یارک ٹائمز'' کے 13اپریل2012 کے شمارے میںہیتھر ٹمونز کی شائع رپورٹ میں بھارتی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی اس مکروہ سازش کو بے نقاب کیا گیا جس کا مقصد کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کو دہشت گردی کے طور پر پیش کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر پروپیگنڈہ مہم چلانا تھا۔ہیتھر ٹمونز اس رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ 1995میں کشمیروادی میں چھ مغربی سیاحوں کو اغوا کرنا ہندوستانی حکام کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ تھا تا کہ کشمیر میں پاکستان کی حمایت یافتہ مزاحمتی تحریک کو دہشت گردی کے طور پر پیش کرتے ہوئے دنیا کو پاکستان کے خلاف سخت روئیہ اپنانے کی جانب راغب کیا جا سکے۔

اس رپورٹ میں'' دی میڈو'' نامی کتاب کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جو ایڈرین لیوی اور کیتھی سکاٹ کلارک کی طویل تحقیق کے بعد لکھی گئی۔انہوں نے مغربی سیاحوں کے اغوا کے واقعہ کے بعد جنوبی ایشیا میں کئی سالوں تک تحقیق کرنے کے بعد یہ کتاب تحریر اور مرتب کی۔اس میں سینکڑوں انٹرویو، جرائد، سرکاری فائلوں اور نقول کو بھی شامل کیا گیا 500صفحات پہ مشتمل اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ مغربی صحافیوں کو چھڑانے کی کوششوں میںبھارتی فوج کے اعلی افسران اور انٹیلی جنس سروسز میں کچھ سینئر شخصیات ایک بڑی رکاوٹ تھے۔کتاب نئی دہلی حکام کو اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ایڈرین لیوی اور کیتھی سکاٹ کلارک کو حکومت کشمیر کے سیکورٹی ایڈوائزر کے ساتھ کام کرنے والے ایک پولیس سیکورٹی اہلکار الطاف احمد نے بتایا کہ مغربی صحافیوں کے آپریشن میں تمام امور نئی دہلی سے کئے جا رہے تھے اور کشمیر میں موجود حکام صرف آلہ کار کے طورپر استعمال ہو رہے تھے۔کتاب میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ جرمن ڈرک ہیسرٹ کے اغوا کے بارے میں اطلاع دینے والی خاتون کی بھارتی فوج کے افسر نے عصمت دری کی اور فوج نے پولیس کو تلاشی کی کاروائی سے روکے رکھا۔ اس کے علاوہ اغوا کاروں کے چنگل سے بھاگ نکلنے والے سیاح نے فوج کو کہا کہ وہ اس جگہ کی نشاندہی کر سکتا ہے کہ جہاں اغوا کرنے والے اور مغربی سیاح موجود ہیں لیکن بھارتی فوج نے کوئی کاروائی کرنے کے بجائے اس سیاح کو فوری طور پر ملک سے نکال دیا۔

کتاب کی رپورٹ کے مطابق، کرسمس کے موقع پر، 1995 میں، چار بقیہ یرغمالیوں کو مٹی گاوران کے نچلے گائوں کے پیچھے بھاری، گہری برف میں لے جایا گیا، گولی مار کر دفن کر دیا گیا، قتل کے ایک عینی شاہد نے کہا۔ کتاب کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ ان کے لیے صرف ایک ہی انجام تھا اور ہم سب جانتے تھے۔ انہوں نے کہا، کوئی بھی فورسز کی یونیفارم اور سپیشل ٹاسک فورس کی جیپوں کو دیکھ کر یرغمالیوں کی رہائی اور ملی بھگت کی شکایت کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔انسداد دہشت گردی کے ماہرین کو فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کی طرف سے کشمیر بھیجا گیا۔ اس ٹیم میں شامل جان ایف برنز نے مئی 1996 میں کشمیر میں لکھا کہ''کوئی بھی اس بات کا یقین نہیں کر سکتا کہ اغوا کار، جو خود کو الفاران کہتے ہیں، حقیقی باغی ہیں یا، جیسا کہ بہت سے معروف کشمیری گوریلا کہتے ہیں، ہندوستانی حمایت یافتہ باغی ہیں جو پوری تحریک کو بدنام کرنے کے لیے نکلے ہیں''۔

ان واقعات اور صورتحال سے یہ خطرات ظاہر ہوتے ہیں کہ بھارتی حکومت جی 20سربراہ اجلاس سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کا کوئی ایسا واقعہ کروا سکتی ہے کہ جس کا الزام پاکستان پہ عائید کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر سے متعلق عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ مقبوضہ کشمیرکے سابق گورنر ستیا پال ملک نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی بتایا کہ مقبوضہ جموں وکشمیرسے متعلق بھارتی حکومت کے5اگست2019کے اقدام سے پہلے ہی ایسے سخت ترین اقدامات کر لئے گئے تھے کہ جس سے مقبوضہ کشمیرمیں یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ '' کوئی کتا بھونک سکے یا کوئی چڑیا چہچہا سکے''۔

اطہر مسعود وانی 03335176429

'
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 612002 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More