پوائنٹس جمع کریں اور طیارہ جیتیں٬ پیپسی کی وہ غلطی جس سے بات طیارہ انعام میں دینے تک پہنچ گئی

image
 
یہ سنہ 1995 تھا لیکن 1970 کی دہائی میں شروع ہونے والی ’وار آف ٹیلز‘ ابھی تک جاری تھی۔
 
کوکا کولا اور پیپسی کولا کے درمیان تلخ دشمنی اسی لمحے سے شروع ہو گئی تھی جب 1902 میں کوکا کولا کمپنی کے دس سال بعد پیپسی کولا کمپنی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
 
اگرچہ کوکا کولا کا مارکیٹ میں غلبہ ہوتا تھا لیکن پیپسی نے مارکیٹ میں جگہ بنانے کے لیے قیمتوں میں کمی اور دیگر حربے استعمال کیے تھے۔
 
سنہ 1975 میں پیپسی نے ’پیپسی چیلنج‘ کے نام سے ایک مارکیٹنگ مہم کا آغاز کیا جس کا مقصد اپنے حریف کو براہ راست نشانہ بنانا تھا۔
 
اس دوران اس نے بہت سے اشتہارات تیار کیے اور دو دہائیوں بعد اس نے ’پیپسی سٹف‘ کے نام سے ایک اشتہاری مہم شروع کی جس کی ٹیگ لائن تھی ’پیپسی پیو اور چیزیں حاصل کرو۔‘
 
اگر صارفین پیپسی کی بوتلوں کے ڈھکن اپنے پاس رکھتے تو انھیں پوائنٹس ملتے اور اس کے بدلے میں وہ ٹی شرٹس، ٹوپیاں، جینز، لیدر جیکٹس، ہینڈ بیگس اور ماؤنٹین بائیکس حاصل کر سکتے تھے۔
 
یہ سافٹ ڈرنک بنانے والی کمپنیوں کے درمیان مقابلے کی سب سے کامیاب مہم ثابت ہوئی لیکن اس مہم میں ایک غلطی تھی جو جلد ہی کمپنی کے لیے ایک بڑی مشکل بن کر آئی۔
 
image
 
لڑاکا طیارہ
اس مہم کی تشہیر کے لیے دکانوں میں سپر ماڈل ’سنڈی کرافورڈ‘ کی بڑی تصاویر کا سہارا لیا گیا تھا تاہم یہ تصاویر اس ’پیپسی نسل‘ کو اپنے جانب نہیں کھینچتی تھیں جن پر کمپنی غلبہ حاصل کرنا چاہتی تھی۔
 
اس مہم کو مزید مؤثر بنانے کے لیے اس کی تشہیر ٹی وی اور سنیما گھروں میں بھی فلموں کے دوران کی گئی۔
 
اس مہم کے تحت بنائے گئے ایک اشتہار میں ایک بچے کو سکول جانے کے لیے تیار ہوتے دکھایا گیا۔
 
اس اشتہار میں اس بچے کو چند وہ چیزیں پہنے ہوئے دکھایا گیا جو پیپسی اپنی بوتلوں کے ڈھکن یا کینز کے بدلے دیتی تھی اور ان چیزوں کے ساتھ ساتھ اشتہار میں انھیں حاصل کرنے کے پوائنٹس بھی بتائے گئے تھے۔ مثلاً ٹی شرٹ کے لیے 75 پیپسی پوائنٹ، جیکٹ کے لیے 1450 پیپسی پوائنٹ وغیرہ۔
 
اس اشتہار میں لکھا گیا تھا کہ ’آپ جتنی زیادہ پیپسی پیئیں گے آپ کو اتنی ہی زیادہ پیپسی مصنوعات حاصل کرنے کا موقع حاصل ہو گا۔
 
اس اشتہار میں تیار ہو کر بچہ گھر سے نکلتا ہے اور ایک لڑاکا طیارے میں سوار ہو کر سکول پہنچتا ہے۔
 
ٹی وی سکرین پر اس لڑاکا طیارے کو حاصل کرنے کے لیے 70 لاکھ پیپسی پوائنٹس لکھے آتے ہیں اور اس کے بعد اشتہار میں اگلا فقرہ پیپسی کے اشتہار کی کیچ لائن تھا۔
 
امریکہ میں کسی بھی وقت میں اس اشتہار میں وہ تنبیہ تحریر شامل نہیں تھی جو اکثر اخبارات کے اشتہارات میں شامل ہوتی ہے کہ یہ آخری آئٹم اس اشتہاری مہم کا حصہ نہیں۔
 
image
 
ایک پیپسی کی بوتل پر ایک پوائنٹ
ظاہر ہے کہ کمپنی میں کسی نے کاغذ قلم نکال کر ایک لڑاکا طیارے کے پیپسی پوائنٹس کی قیمت مختص کرنے کے لیے ریاضی کا سہارا نہیں لیا ہو گا۔
 
عموماً جب بات بڑے نمبرز کی ہوتی ہے تو ایک مخصوص میعاد کے بعد ’بہت زیادہ‘ کا لفظ استعمال کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
 
اس صورتحال میں ستر لاکھ اسی میعاد میں آتا تھا کیونکہ اگر آپ سوچیں تو یہ پوائنٹس حاصل کرنا کسی بھی مرچنڈائز کے لیے خاصا مشکل ہو سکتا ہے۔
 
ایک پیپسی کی بوتل پر آپ کو ایک پوائنٹ ملتا تھا اور اس طرح کین کے پیکجز میں آپ کو کم پوائنٹس ملا کرتے تھے۔ یعنی 24 کینز پر آپ کو چار پوائنٹس ملتے تھے۔
 
یعنی آپ کو ایک ٹی شرٹ جیتنے کے لیے بھی بہت زیادہ پیپسی پینی پڑتی تھی اور ایک ہیریئر طیارہ جیتنے کے لیے تو اس سے بھی زیادہ۔
 
سچ تو یہ ہے کہ جو افراد کمرشل بنا رہے تھے انھوں نے کبھی رک کر یہ نہیں سوچا ہو گا کہ اس کے لیے انھیں کتنی پیپسی پینی پڑے گی کیونکہ ان کے لیے تو یہ توجہ حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔
 
تاہم ایک شخص نے یہ جمع تفریق کر لی تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کے پاس یہ پوائنٹس حاصل کرنے کا بھی ایک طریقہ موجود تھا۔
 
image
 
جان لینرڈ
لینرڈ اس وقت ایک کالج کے طالب علم تھے جو مختلف طریقوں سے پیسے کمانے کی کوشش کرتے رہتے تھے تاہم ان کا پسندیدہ مشغلہ کوہ پیمائی تھا۔‘
 
وہ 20 برس کے تھے اور بچپن سے ہی انھوں نے اس مقصد کے لیے کئی ایسی نوکریاں کی تھیں۔ انھوں نے ایک ایسے اشتہار کے بارے میں سنا تھا جو آپ کو طیارہ جیتنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور جب انھوں نے یہ دیکھا تو انھوں نے اس میں کسی نتبیہ کی غیر موجودگی کو بھی بھانپ لیا تھا تو انھوں نے فوراً وہ جمع تفریق کر لی جو پیپسی نے نہیں کی تھی۔
 
انھوں نے ریاضی کا سہارا لیتے ہوئے یہ جان لیا تھا کہ انھیں ایک ہیریئر طیارہ جیتنے کے لیے کتنے پیپسی پوائنٹس کی ضرورت ہو گی۔ انھوں نے اس نمبر کو اس رقم سے لاکھوں بوتلوں کو سٹاک کرنے اور ان کے ڈھکن اتارنے کی قیمت تفریق کی تو معلوم ہوا کہ یہ آفر اب بھی بہترین تھی۔
 
یعنی آپ کو صرف چالیس لاکھ ڈالر میں ایک ایسا طیارہ خریدنے کا موقع مل رہا تھا، جو دو کروڑ 30 لاکھ ڈالر کا تھا۔
 
انھوں نے یہ منصوبہ لکھ پتی کاروباری شخصیت ٹاڈ ہافمین کو دیا جن سے انھوں نے ایک کوہ پیمائی کے دورے کے دوران دوستی کر لی تھی اور اس دوران ان کی رہنمائی کا کام کیا تھا۔
 
ہافمین عمر میں ان سے کئی برس بڑے تھے اور ان کا تجربہ بھی بہت زیادہ تھا۔ انھوں نے لینرڈ سے وہ اہم سوال پوچھے جن سے اس منصوبے کی پختگی کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔
 
ان میں سے ایک سوال اس منصوبے کے خاتمے کا سبب بنا۔ اس صورت میں کیا ہو گا کہ اگر وہ مطلوبہ لیبلز جمع کرنے کے قریب ہوں اور پروموشن ہی ختم ہو جائے۔
 
ایسے میں وہ ان لاکھوں بغیر لیبل بوتلوں کے ساتھ کیا کریں گے؟
 
image
 
پیپسی کا نیویارک میں قانونی کارروائی کا فیصلہ
یہاں سے مایوس ہونے کے بعد ایک دن پیپسی کیٹالاگ پڑھتے وقت لینرڈ کی نظر ایک ایسی چیز پر پڑی جس نے ان کے لیے ایک اور راہ کھول دی۔
 
انھیں معلوم ہوا کہ پیپسی پوائنٹس حاصل کرنے کا ایک اور طریقہ بھی ہے اور یہ کہ ایک پوائنٹ صرف 10 سینٹ میں خریدا جا سکتا ہے، یعنی طیارہ جیتنے کے لیے جو 70 لاکھ پوائنٹس درکار تھے، وہ صرف سات لاکھ ڈالرز میں حاصل کیے جا سکتے تھے۔
 
انھوں نے جب یہ بات ہافمین کو بتائی تو انھوں نے لینرڈ کو فوراً اس رقم کا چیک دے دیا۔ یوں ایک ایسے مکالمے کا آغاز ہوا جسے ایک سلوموشن ٹیبل ٹینس میچ سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔
 
پیپسی کی جانب سے اس بارے میں پہلا ردِ عمل یہ سامنے آیا کہ ’بہت خوب! یہ ہے آپ کا چیک اور اس کے ساتھ ہم آپ کو دے رہے ہیں کہ کچھ گفٹ سرٹیفیکیٹ۔‘
 
لینرڈ اور ہافمین نے ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر ہمیں اس حوالے سے 10 دن کے اندر پیپسی پوائنٹس کی ٹرانسفر کے بارے میں نہ بتایا گیا تو ہمارے پاس پیپسی کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچے گا۔‘
 
تاہم پیپسی نے الٹا ان کے خلاف ہی نیویارک میں قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ اگر قانونی کارروائی ہو بھی تو ایسی جگہ پر جہاں کاروباروں کے بارے میں قوانین نرم ہوں۔
 
اس حوالے سے حتمی رولنگ میں یہ کہا گیا تھا کہ پیپسی نے عدالت سے ’ایک ایسا فیصلہ لکھنے کی درخواست کی تھی جس کے تحت یہ ثابت ہو سکے کہ وہ ایک ہیریئر جیٹ دینے کے ذمہ دار نہیں تھے۔‘
 
اس کیس کے ذریعے میڈیا پر ایک ایسی صورتحال کا آغاز ہوا جس نے لینرڈ کو حق پر اور پیپسی کا برا تصور دکھایا لیکن آخر میں لینرڈ کو ایک ایسے مفاد پرست لڑکے کے طور پر دکھایا گیا جو اپنے فائدے کے لیے ایک ملٹی نیشنل کمپنی کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔
 
image
 
لینرڈ بمقابلہ پپسی
یہ تنازع کئی سال تک جاری رہا۔ اس دوران لینرڈ نے پپسی کی جانب سے ایک ایسی آفر بھی ٹھکرائی جس کے تحت انھیں عدالت سے باہر کچھ معاوضے کے عوض معاملہ رفع دفع کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔
 
انھوں نے فلوریڈا میں ہافمین کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا تھا تاہم امریکہ لا سکولز میں آج بھی یہ مقدمہ لینرڈ بمقابلہ پیپسی کو کے طور پڑھایا جاتا ہے۔
 
ایک موقع پر مائیکل ایویناٹی بھی اس لڑائی کا حصہ بن گئے جو بعد میں سٹورمی ڈینیئلز کے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مقدمے میں وکیل کے طور پر مشہور ہوئے تاہم 2022 میں انھیں اپنے چار کلائنٹس جن میں ڈینیئلز بھی شامل ہیں، ان کے ساتھ فراڈ کرنے پر سزا دی گئی۔
 
تاہم ایویناٹی پیپسی کو پر ایک سابقہ مقدمے کے ذریعے دباؤ ڈالنا چاہتے تھے جس میں کمپنی نے فلپائن میں اپنے صارفین کو 10 لاکھ ڈالر کی انعامی رقم دینے کا وعدہ پورا نہیں کیا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ ایسا ایک کمپیوٹر کی غلطی کی وجہ سے ہوا تاہم ہافمین نے ایسا کرنے کے خلاف بات کی اور کہا کہ یہ حکمتِ بلیک میل کرنے جیسی ہے۔
 
آخرکار سنہ 1999 میں یہ ٹرائل پیپسی کی پسندیدہ ریاست نیویارک میں شروع ہوا۔
 
دی ٹرائل
لینرڈ اور ہافمین کے لیے نہ صرف پپسی کے وکلا کی فوج کے خلاف بلکہ ان کی انشورنس اور تشہیری کمپنیوں کے خلاف یہ مقدمہ جیتنا ایک بہت مشکل بات تھی۔
 
تاہم اگر یہ فیصلہ عام لوگوں کی جانب سے کیا جاتا تو ان کو برتری حاصل ہو سکتی تھی۔ بدقسمتی سے جج کمبا ووڈ نے جیوری ٹرائل کے امکان کو رد کر دیا۔ انھوں نے اس حوالے سے خود ہی فیصلہ دینے کا انتخاب کیا۔
 
اس حوالے سے ایک اور آپشن جس کے تحت لینرڈ کو فائدہ پہنچ سکتا تھا وہ ایک عدالتی پروسیجر تھا جسے ’ڈیپوزیشن‘ کہا جاتا ہے جس میں ایک پارٹی دوسری پارٹی یا گواہان سے حلف کے تحت زبانی سوالات پوچھتی ہے۔
 
لینرڈ کو معلوم تھا کہ یہی کمرشل کینیڈا میں بھی ریلیز کیا گیا تھا تاہم اس میں انھوں نے ’70 لاکھ پیپسی پوائنٹس میں ہیریئر جیٹ حاصل کریں‘ کی عبارت تلے تنبیہ لکھی تھی۔
 
اس کے علاوہ پیپسی نے اس کمرشل میں تبدیلی کرتے ہوئے پوائنٹس میں مزید زیرو جمع کر دیے تھے اور یوں یہ پوائنٹس 70 کروڑ کر دیے گئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ایک عبارت بھی لکھ دی گئی تھی کہ ’ہم مذاق کر رہے ہیں۔‘ جسے غلطی ماننے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
 
اگر وہ تشہیری کمپنی بی بی ڈی او کے افسران سے سوالات پوچھ سکتے، خاص کر ان فیصلوں کے بارے میں جو انھوں نے کیے، تو وہ اپنی پوزیشن کا دفاع کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔
 
تاہم جج ووڈ نے فیصلہ کیا کہ ان کے پاس اس بارے میں پہلے ہی تمام شواہد موجود ہیں اور انھیں ڈپوزیشن کی ضرورت نہیں۔ سماعت کے بعد بہت طویل انتظار کے بعد فیصلہ پیپسی کے حق میں آیا۔
 
جج ووڈ نے اس فیصلے میں لکھا کہ ’کسی ہوش مند شخص نے یہ فیصلہ اس اشتہار کو دیکھ کر یہ نہ سوچا ہوتا کہ کمپنی اپنے صارفین کو ہیریئر طیارہ دے سکتی ہے۔‘
 
اس طویل فیصلے میں جج نے یہ بھی لکھا کہ ’کوئی سکول اپنے طلبا کے لڑاکا طیارے کے لیے لینڈنگ رن وے فراہم نہیں کرتا یا اس ہلچل کا مداوا نہیں کریں گے جو اس طیارے کے باعث پیدا ہو گی۔‘
 
image
 
آخر کار ہوا کیا؟
جج ووڈ نے نہ صرف لینرڈ کا نوجوانی کا خواب ادھورا چھوڑ دیا بلکہ تمام افراد کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ پیپسی نے ایسی غلطی کیوں کی تاہم اینڈریو رینزی نے اس کا جواب نیٹفلکس کی ڈاکیومینٹری ’پیسپی، میرا طیارہ کہاں ہے‘ میں جاننے کی کوشش کی ہے۔
 
اس میں تشہیری کمپنی کی سابق کریئیٹو ڈائریکٹر مائیکل پیٹی نے انکشاف کیا کہ شروعات میں کمرشل پر ہیریئٹ طیارے کے لیے درکار پوائنٹس 70 کروڑ ہی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاہم جب یہ اشتہار پیپسی کو دکھایا گیا تو ایک ایگزیکٹو نے کہا کہ ان سے یہ نمبر پڑھا نہیں جا رہا۔
 
پیپسی کے دو ایگزیکٹو اس وقت وہاں موجود تھے انھوں نے اس بات سے اتفاق کیا لیکن کسی کو یہ یاد نہیں تھا کہ وہ افسر کون تھا جس نے اس بارے میں تبدیلی کا کہا تھا۔
 
پیٹی کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس وقت بتایا تھا کہ نمبر کا سمجھ آنا ضروری نہیں، بس یہ ضروری ہے کہ یہ 700 ملین ہو، یعنی بس یہ معلوم ہونا چاہیے کہ سات کے ہندسے کے ساتھ متعدد زیرو لگے ہوئے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ایسا ناممکن ہے اور یہ بات مذاق میں لکھی گئی ہے۔‘
 
تاہم وہ انھیں رضامند کرنے میں تیار نہ ہو سکیں۔
 
انھوں نے پہلے ایک زیرو نکالا لیکن تب بھی پڑھنے میں مشکل ہو رہی تھی۔ پھر ایک اور زیرو نکالا گیا، تب جا کر سب نے اتفاق کیا کہ اب یہ بہتر لگ رہا ہے۔
 
رینزی کا کہنا ہے کہ ’اس وقت انھیں اس بارے میں سوچنا چاہیے تھا کیونکہ یہ ان کی پروموشن تھی۔ اس کا ان کے لیگل نظام کے ذریعے جائزہ لیا گیا تھا تاکہ یہ پتا لگایا جا سکے کہ سب ٹھیک ہے۔‘
 
اور اگر ایسا کیا جاتا تو 1995 میں بنایا گیا یہ اشتہار مکمل طور پر بھلا دیا گیا ہوتا۔
 
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: