دبئی میں روزگار کے لئے مقیم شاکر نامی شخص کا 8سالہ
اکلوتابیٹااحمد2 اپریل بروز اتوار گھر کے قریب گرین بیلٹ پر کھیلنے گیا اور
واپس نہ آیا اسکے نانا اور گھر کے دیگر افراد نے عزیز واقارب سے مل کر تلاش
شروع کی لیکن نہ ملا تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن پولیس کو رپورٹ کی گئی اور بچے کی
تلاش میں مزید تیزی لائی گئی ، لواحقین کے مطابق سب انسپکٹر عرفان نے
انتہائی ذمہ داری ،تندہی اور جانفشانی کے ساتھ گھر گھر جا کر سکیورٹی کیمرے
چیک کئے اور بچے کو ہر جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کی بالاخر ایک کیمرے میں بچہ
گرین بیلٹ کے اس حصے کی طرف جاتا دکھائی دیا جہاں سے واپس نہ آیا ، کافی
کوشش کے بعد اس حصے میں گھا س سے ڈھانپا گیا ایک کھلا گٹر ملا جس میں دس فٹ
سے زیادہ گہری سیڑھی لگائی گئی اور ننھے فرشتے کی نعش کو نکالا گیا ، بچے
کی ہلاکت کی خبر سن کر اسکے گھر میں کہرام مچ گیا اسکی ماں پر غشی کے دورے
پڑنے لگے ، صدمے سے دوچار نانا اوردیگر اہل خانہ کی حالت اس قدر خراب ہے کہ
دیکھی نہیں جاتی نانا نے نئے سکول کے لئے کتابیں اور بیگ لے کر دیا تھا اور
اگلے ہی روز احمد کو اسکی پسند کے سکول جانا تھا لیکن قاتل محکموں کی
مجرمانہ غفلت اور بے حسی نے احمدسے کے سارے خواب چھین لئے اور اسکے والدین
کو زندگی بھر کے لئے ایسا زخم دیا ہے جو شاید کبھی بھر نہیں سکے گا ، محنت
مزدوری کر کے بیوی بچوں سے جدائی کی تکلیف برداشت کرنے والا شاکر گھر واپس
پہنچا تو اکلوتے بیٹے کی نعش اسکی منتظر تھی ،حادثات قتل وغارت اوردیگر
واقعات میں قیمتی جانوں کا ضیاع روزانہ کا معمول ہے ، ہمیں اپنی پروفیشنل
زندگی میں آئے روز ایسے مناظر دیکھنا پڑتے ہیں جن میں لاشیں پڑی ہوتی ہیں
اور لواحقین اپنے پیاروں کے بچھڑ جانے پر روتے کرلاتے اور بین کرتے ہیں ،
ایک طرح سے تو ہمیں عادت ہو جانی چاہئے لیکن اپنے نواسے کو اسکے باپ کی غیر
موجودگی میں بیٹے کی طرح پالنے والا جاوید جب واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے
میرے سامنے پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا تو مجھے لگا جیسے میرا کلیجہ کٹ جائے
گا ، احمد کی ماں کو مسلسل انجیکشن دے کر سلانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن
وہ کبھی سرکاری محکموں کی جھوٹی اور جعلی کارکردگی کا پول کھو ل دینے والی
اس گرین بیلٹ پر واقع گٹر کے پاس جا کر چیخنے لگتی ہے تو کبھی بیٹے کا نام
لیتے لیتے ہوش ہو جاتی ہے احمد کا والد اپنے اکلوتے بیٹے کی جدائی میں پتھر
ہو کر رہ گیا ہے یہ لوگ ایک طرف تو پولیس کی جانب سے تعاون کرنے اور بھاگ
دوڑ پر سی پی او ایاز سلیم ، ایس پی صاحبان اور تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن پولیس
خاص طور پر سب انسپکٹر عرفان کے شکر گزار ہیں جنہوں نے بچے کی تلا ش کے لئے
ان تھک اور مخلصانہ محنت کی سی پی او بچے کی تلاش کے دوران خود بھی لواحقین
سے رابطے میں رہے بلکہ موقع پر بھی پہنچے لیکن دوسری جانب واسا کے چند
ماتحت افسرا ن اا ور سپر وائز کو محض معطل کر دینے کو ناکافی سمجھتے ہیں ،
یہ لوگ پی ایچ اے کی مجرمانہ حرکت کو بھی واقعہ کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں
جس کے نتیجے میں گھاس میں چھپے ہو ئے کھلے میں ہول کو بچہ دیکھ نہ سکا اور
اس میں گر کر جاں بحق ہو گیا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ماتحتوں پر نزلہ
گرانے کی بجائے سب سے پہلے واسا اور پی ایچ کے سربراہوں کو معطل کرکے انکے
خلاف قانونی کارروائی کی جاتی اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ اس گٹر کے بارے میں
کئی بار واساحکام کو تحریری درخواستیں بھی دی گئیں لیکن روایتی سستی اوربے
حسی کی وجہ سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیاگوجرانوالہ میں درجنوں ایسے واقعات
رونما ہو چکے ہیں جن میں کئی افراد گٹروں میں گر کر اپنی جانیں گنو ابیٹھے
چار دن کی خبروں کے بعد لوگ ہر واقعہ کو بھول جاتے ہیں اور اسکے بعد پھر
کوئی نیا واقعہ رونما ہو جاتا ہے بچے کی گمشدگی کے بعد پولیس کا جو ذمہ
دارانہ کردار سامنے آیا ہے وہ میرے لئے تو حیران کن ہے لیکن بہر حال قابل
تعریف ہے اور اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ہر محکمے میں مجرمانہ زہنیت رکھنے
والوں کے ساتھ ساتھ اچھے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں ، احمد کے لواحقین نے
بتایا کہ ہمارے بچے کے جاں بحق ہونے کے بعد اگلے ہی روز شہر بھر میں آپریشن
کر کے گٹروں پر ڈھکن رکھوائے گئے ہیں ، کیا یہ عمل اس ننھی قیمتی جان کے
ضیاع سے پہلے نہیں کیا جا سکتا تھا ، مزید دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ
صدمے سے دوچار اس گھرانے کی ڈھارس بندھانے اور انہیں انصاف دلانے کے لئے
کوئی قابل ذکر حکومتی شخصیت انکے گھر نہیں آئی ، احمد کے والد اور نانا کو
یقین ہے کہ واسا کے معطل کئے گئے افسران بھی چند روز بحال کر دیئے جائیں گے
، وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کو چاہئے کہ وہ
معصوم احمد کی ہلاکت کے ذمہ داران کا تعین کرنے کے لئے اعلیٰ سطحی تحقیقات
کرائیں اور موت کا کنواں بنے گٹروں میں عوام کی جانوں کے ضیاع کا سلسلہ
روکیں ، اگر حکومتی سطح پر بھی روایتی بے حسی اور گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے
کی روایت قائم رکھی گئی تو پھر روز محشر ان سب کے گریبان ہوں گے اور ننھا
احمد چلا چلا کر ان سے پوچھے گا کہ میرا جرم کیا تھا ؟
|