آج کل ہر جگہ یہی بحث جاری ہے کہ الیکشن ہونگے کہ
نہیں۔ایک عام آدمی کی حیثیت سے میں تو اتنا فہم نہیں رکھتا کہ کوئی بات
حتمی کہہ سکوں مگر سب کی سنتا ہوں اور سننے کے بعد بھی کوئی فیصلہ نہیں کر
سکتا۔ جو پہلی تھوڑی بہت سوچ ہوتی ہے وہ بھی اس بے ہنگم شور میں بالکل ماؤف
ہو جاتی ہے۔د ونوں طرف سے آنے والی آوازیں بڑی زور دار ہیں اور آوازیں ہی
نہیں آواز لگانے والے بھی بہت زوردار ہیں ۔ ایک کی بات سنو تو دوسرا ناراض
ہو جاتا ہے اور دوسرے کی بات سنیں تو پہلے کے ماتھے پر بل نظر آنے لگتے
ہیں۔ا یسے میں عزت بچانی سب سے ضروری ہے سو چپ سادھے بیٹھاہوں۔اس ملک کے
بڑے بڑے انصاف کے ادارے بھی حرکت ہیں کہ شاید اس ملک کی حالت میں بہتری لا
سکیں، مگر ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود لوگوں میں وسوسوں کا جو غبار ہے
وہ چھٹنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ مہنگائی نے انسانوں کا جینا دوبھر کیا ہوا
ہے۔ بجلی یا گیس کا ہر آنے والا بل پورے گھر کا بجٹ تباہ کر دیتا ہے ۔عام
لوگ جو پہلے ہی تیزی سے بھوک اور مفلسی کی طرف گامزن ہیں ، ان کی بھوک اور
مفلسی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک گاؤں میں ایک شخص کی بیٹی گھر سے بھاگ گئی۔ محلے کے لوگوں کو پتہ چلا
تو وہ اس سے باپ کے پاس افسوس کرنے آئے۔ باتوں باتوں میں اس لڑکی کا باپ
کہنے لگا، میری بیٹی بھاگ گئی یہ تو ٹھیک ہے مگر وہ تھی بہت پہنچی ہوئی
چیز۔ اسے دو دن پہلے ہی پتہ تھا کہ گھر میں یہ سانحہ ہو جانا ہے۔دو دن پہلے
مجھے بتا رہی تھی کہ اگلے دو دن بعد ہمارے گھر میں ایک بندہ کم ہو جائے
گا۔دیکھیں کیا کمال ہے کہ اسے سب پتہ چل جاتا تھا کہ کل کیا ہو گا۔ہماری
سیاست میں بھی کچھ بہت پہنچی ہوئی چیزیں ہیں، انہیں پتہ ہوتا ہے کہ کل کیا
ہو گا اور ببانگ دہل اس کا اعلان بھی کر دیتے ہیں۔ اب یہ غیب کا علم انہیں
کیسے ہو جاتا ہے، میری سمجھ سے بالا ہے ۔ہاں کچھ سیانے لوگ کہتے ہیں کہ ان
پہنچے ہوئے لوگوں کے پاس چمک کی طاقت ہے۔ جو شخص ان کی چمک کی زد میں آ
جاتا ہے اس کے مستقل کے بارے انہیں سب معلوم ہوتا ہے۔ بلکہ چمک کی طاقت ہر
ایک کو ایسا مجبور جن بنا دیتی ہے کہ جو ہاتھ باندھ کر پوچھتا ہے ،’’حکم
میرے آقا‘‘۔ افسوس کہ یہ چمک والے عامل اس ملک کی سیاست میں انتہائی فعال
ہیں اور اس ملک کی تقدیر سے کھیلنے پر پوری طرح قادر ہیں۔
مہنگائی کیا گل کھلا رہی ہے، مجھے اس کے نتائج دیکھنے کا عملی تجربہ ہوا۔
پھلوں اور سبزیوں کے حوالے سے لاہور کی سب سے بڑی اور اصلی منڈی بادامی باغ
کے علاقے میں ہے۔ لیکن لوگوں کی آسانی اور لاہور کی پھیلتی ہوئی آبادی کی
سہولت کے لئے حکومت نے لاہور میں کئی مقامات پرکچھ اور منڈیاں بھی بنائی
ہیں۔مقصد یہ تھا کہ علاقے کے پرچون فروش اپنے گھروں کے نزدیک ان منڈیوں سے
ہول سیل میں پھل اور سبزیاں حاصل کرکے اپنے ٹرانسپورٹ اور دیگر اخراجات
بچائیں اور لوگوں کو کم ریٹ پر پھل اور سبزیاں فراہم کر سکیں۔مگر حکومت کی
پچھلے کئی سالوں کی کوشش کے باوجود یہ منڈیاں ہول سیل کے نقطہ نظر سے وہ
مقام حاصل نہیں کر سکیں۔ یہ منڈیاں آج بس منڈی نما تو ہیں مگر ہول سیل کی
حقیقی منڈیاں نہیں ۔ یہ چھوٹی منڈیاں بادامی باغ منڈی کی طرح پوری طرح ہول
سیل کا کام تو نہیں کرتیں مگر یہاں پر بیٹھے ہوئے پرچون فروشوں سے پھل اور
سبزیاں بازار کی عام دکانوں کی نسبت قدرے بہتر قیمت پر مل جاتی ہیں۔ایک ہی
جگہ بہت سارے پرچون فروش بیٹھنے سے ان میں قیمت اور معیار کا مقابلہ ہوتا
ہے ۔ چنانچہ وہاں چیزیں نسبتاً سستی اور بہت سی انواع و اقسام کی میسر ہوتی
ہیں میرے جیسا آدمی جو مضافات میں رہتا اور جسے روز سبزی اور پھل خریدنا
دوبھر لگتا ہے اسے ہفتے بھر کی سبزی اور پھل ایسی چھوٹی منڈی سے خریدنا
بہتر لگتا ہے۔ بازار سے بہتر ریٹ اور زیادہ ورائٹی کے سبب یہ چھوٹی منڈیاں
میرے جیسے اور میری کلاس کے لوگوں کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں۔
میں روٹین میں گھر کے لئے پھل اور سبزیاں خریدنے قریبی منڈی میں موجود
تھا۔پھلوں اورسبزیوں کی قیمتیں سوچ سے بھی زیادہ تھیں۔ کیا خریدا جائے اور
کیا نہ خریدا جائے قیمتیں حوصلہ تباہ کر رہی تھیں۔ امرود جو پچھلے سالوں
میں پندرہ بیس روپے کلو ہوتا تھا۔ اب دو سو روپے کلو تھا اور وہ بھی
انتہائی بری کوالٹی کا۔کیلا جو اتنا مریل تھا کہ کسی موٹی سی انگلی کی طرح
نظر آتا تھا ڈھائی سو روپے درجن تھا اور وہ کیلا جسے کیلا کہا جا سکتا ہے
وہ کم از کم پانچ سو روپے فی درجن میں دستیاب تھا۔انار سات سو روپے کلو،
خربوزہ دو سو روپے کلو،سیب پانچ سو روپے کلو۔ آدمی کیاخریدے ،ان حالات میں
ونڈو شاپنگ ہی ہو سکتی ہے۔سبزیاں اپنے ریٹ کے حساب سے پھلوں کو بھی مات
کرتی ہیں۔ پھل کے بغیر تو آپ گزارہ کر سکتے ہیں مگر سبزیاں تو ہر گھر کی
بنیادی ضرورت ہیں۔بینگن جسے عام طور پر گاؤں کے لوگ جانوروں کی خوراک کے
طور پر بھی استعمال کرتے ہیں سب سے سستی سبزی تھی جس کا ریٹ سو روپے کے لگ
بھگ تھا۔ باقی کوئی سبزی ایسی نظر نہ آئی جس کا ریٹ دو سو روپے سے کم ہو۔
میں جس کی پنشن بڑی معقول ہے جس کے بیٹے بھی ٹھیک کماتے ہیں، بڑا سوچ سمجھ
کے محدود سی چیزیں خرید سکا۔ باقی زیادہ تر چیزیں اتنی مہنگی تھیں کہ انہیں
خریدنا سمجھ بھی نہیں آیا اور حوصلہ بھی نہیں پڑا۔
اس مہنگائی میں منڈی میں ایک بات بڑی تلخ اور افسوسناک نظر آئی۔ میں ایک
پھل کی دکان پر کھڑا تھا۔ منڈی میں پھل کی دکانیں زیادہ تر دکانداروں نے
ایک بڑے میز نما بنچ پر سجائی ہوتی ہیں۔میں ایسی ایک میز کے آگے کھڑا
دکاندار سے بات کر رہا تھا کہ درمیانی عمر کی دو عورتیں جنہوں نے بڑا
باوقار اور صاف ستھرا لباس پہنا ہوا تھا، میرے قریب آئیں اور مجھے تھوڑی
جگہ دینے کا کہا۔کیسی جگہ اور کیوں، میں تو میز کے ساتھ کھڑا تھا وہاں
کونسی جگہ تھی مجھے سمجھ نہیں آیا مگر عورتوں کے احترام میں تیزی سے میز سے
پرے ہٹ گیا۔ان عورتوں نے میز کے نیچے سے ایک ٹوکری نکالی ۔ وہ ٹوکری داغدار
سیبوں، پلپلے خربوزوں اور دوسرے گلے سڑے پھلوں سے بھری ہوئی تھی۔ ان عورتوں
نے ان میں سے چن چن کے قدرے بہتر پھل کہ جن کا کچھ حصہ کاٹ کر کھایا جا
سکے، اپنی اپنی ٹوکری میں ڈالااور ٹوکری واپس رکھ کر آگے چلی گیئں۔ مجھے
دکاندار نے بتایا کہ یہ نئی رسم اسی سال مہنگائی کی دی ہوئی ہے اورجوں جوں
مہنگائی بڑھ رہی ہے ان عورتوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ پہلے ہم یہ
پھل پرے زمین پر پھینک دیا کرتے تھے وہاں سے جھونپڑی والوں کے بچے اٹھا
لیتے تھے مگر اب ان مجبوروں کے احترام میں ہم نے اپنی دکانوں کی نیچے ایک
ٹوکری رکھ دی ہے،وہ پھل جس کا کچھ حصہ کھایا جا سکتا ہے مگر وہ بکنا مشکل
ہوتا ہے وہ ہم اس ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں تاکہ ایسی آنے والی عورتیں باعزت
انداز میں وہ گلا سڑا پھل جو کسی حد تک فروٹ چاٹ کے لئے ٹھیک ہوتا ہے ،
حاصل کر سکیں۔آپ تھوڑی دیر ٹھہریں، ہر پانچ دس منٹ بعد ایسی عورتیں آتی آپ
کو نظر آئیں گی۔ ٹوکری خالی ہو تو ہم دکاندار اپنے پھل میں سے بھی انہیں دے
کر مایوس واپس نہیں جانے دیتے، میں سوچ رہا تھا کہ مہنگائی اب اور کتنوں کو
بھکاری بنائے گی، کاش ہمارے سیاستدان یہ بات جان سکیں۔
تنویر صادق
|