سوچئے سوچئے اور سوچئے

انسان کی سب سے بہترین صفت تخلیق کار ہونا ہے کیونکہ یہ خدائی صفت ہے۔جب کسی نیک مقصد کو لے کر لکھا جائے تو ذہن و دل کے دریچے وا ہو جاتے ہیں اور کرنیں پھوٹ پھوٹ کر قلب کو جلا بخشتی ہیں۔کاوش رضائے الہی پاتی ہے اور نکھر نکھر کر نئے نئے زاویوں سے سامنے آتی ہے۔یہی میرے ساتھ ہوا۔ایوارڈ کہانی لکھنے بیٹھا تو لکھتا چلا گیا اور لکھتا رہوں گا۔کیونکہ بدعنوانی کا ہر پہلو توجہ چاہتا ہے۔ایوارڈ کہانی ون ٹو تھری فور پانچ سکس کی شاندار پذیرائی اور مقبولیت اس بات کا اعلان ہے کہ بندہ ناچیز کی یہ کاوش اﷲ کے حضور رنگ لائی ہے۔اس لیے کہ یہ ایک جدوجہد ہے جو میرے پورے صحافتی دور کی سب سے بڑی کاوش اورطویل سلسلہ ہے جو میں انتہائی پر کٹھن پرفتن دور میں دشمنوں کی تمام تر فتنہ انگیزیوں،شر انگیزیوں کے باوجود بیان کر رہا ہوں۔تب تک میں قلم اٹھاتا رہوں گا جب تک اس فتنہ بے سروپا کی تمام تر سازشوں اور فتنہ انگیزیوں کا مکمل خاتمہ نہیں ہو جاتا اور ان نااہلوں کی جگہ علم و ادب سے وابستہ اہل اور پروفیشنل لوگ نہیں لے لیتے۔میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میرا روزنامہ پاکستان اسلام آباد میں لکھاپہلا روٹین وائز آرٹیکل ''ایوارڈ کہانی''اس کی بنیاد بنے گااور حقائق کی مزید تلاش میں یہ سفر اتنی زیادہ طوالت اختیار کرلے گا کہ ایک کتاب بنتا جائے گا۔یہ کالمز میراصحافتی اثاثہ ہیں اس لئے کہ اس میں میں نے اصلی و نقلی ادیبوں کے کچھ نام نہاد اور خودساختہ خیرخواہوں کا مختلف طریقوں سے بھیانک اور شرمناک چہرہ بے نقاب کیا ہے جسے بہت پہلے سے بے نقاب کرنے کی اشد ضرورت تھی۔خیردیر آید درست آید،اﷲ نے بدعنوان عناصر کو بے نقاب کرنے کے لیے اگر مجھے چن لیا ہے تو میں سرخرو ہوگا۔۔إن شائاﷲ۔ آپ کے سامنے ایوارڈکہانی کی شکل میں ایک جہاد ہے کیونکہ دونمبر ادیبوں اور صحافیوں کا مافیا میرے خلاف اکٹھا ہو گیا ہے۔صرف میرے ہی نہیں۔ان شخصیات پر بھی ذاتی اور رکیک حملے کر رہا ہے جو میرا ساتھ دے رہے ہیں یا کسی طور میری حمایت کر رہے ہیں۔اس ایوارڈ کہانی میں بطور راقم الحروف میں نے پوری کوشش کی کہ ان تمام گھناونے کرداروں کے گھٹیا رازوں اور مفاداتی حربوں سے پردہ اٹھاؤں،ابھی تک حتی الوسع یہ کوشش پوری طرح نبھائی ہے۔میری یہ ایوارڈ کہانی ان سب بے شرمانہ کرداروں کی کہانی ہے جو ایسے انتہائی قبیح اور مکروہ کاموں میں کسی کھیل کی آڑ میں نت نئے طورطریقوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔شہرت کے لیے روز نیا تماشا رچا لیتے ہیں۔کبھی اپنے گریبانوں میں جھانکیں۔اپنا احتساب کریں تو میرے لکھے کہے کو تنہائی میں مانتے ضرور ہوں گے کہ ہم کہاں کے ادیب اور صحافی،بس بنے بیٹھے ہیں اور جھوٹی شہرت کے لیے یہ کھیل تماشے رچا رکھے ہیں۔میرا ان لکھے ایوارڈ کہانی کالم کا مقصد اور کچھ بھی نہ تھا کہ اہل علم و ادب افراد کی آنکھیں کھولنے کے ساتھ ساتھ صحافت کے ساتھ ہونے والے اس سنگین مذاق کو بھی سامنے لانا اور یہ بتانا تھا کہ کیسے کیسے کچھ نان پروفیشنل،غیرتربیت یافتہ افراد صحافت کی آڑ میں خودساختہ صحافت بازار لگائے تمام تر صحافتی رموزواقاف کی یکسر دھجیاں بکھیرے کیسے کیسے حقیقی صحافت کا گلا گھونٹے اصلی علم و دانش افراد کے حقوق کا قتل عام کر رہے ہیں۔صحافت کی جعلی منڈیاں لگائے کیسے کیسے سراب ایوارڈ ڈرامے رچائے ہوئے ہیں اور اصلی سرمایہ صحافت یعنی نامور مصنفوں کی آنکھوں میں مسلسل بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ دھول جھونکے ہوئے ہیں۔کمال مہارت کے ساتھ علم و ادب کے یہ بیوپاری کاروبار کے ساتھ مصنفوں کے پاک اور حساس جذبات کے ساتھ غیر محسوس انداز میں ہمدردی، تعاون اور خیر خواہی کی آڑ میں کھلواڑ کر رہے ہیں اور یہ ڈرامہ کتاب دو،ایوارڈ لو یا علمی و ادبی ایوارڈ کے ساتھ کچھ اس طرح فلمایا جا رہا ہے کہ قلمکار بھی اسے سمجھنے نہیں پا رہے ہیں کہ یہ ڈرامہ دراصل ہے کیا؟؟؟ پذیرائی یا فریب؟؟؟یہ کیسا ایوارڈ ہے کہ جو مصنف کی کتابیں لے کر ہی سمجھ آتا ہے۔کیا معاشرے کے معتبر صحافیوں یا ادیبوں کا لوگوں کو پتا نہیں۔اگر کتب لینی ہیں تو کتب جاتی کدھر ہیں۔کبھی کسی تقریب میں تقسیم کیں اور لائبیریریوں کو عطیہ کی ہیں۔ان کا ایوارڈ کتب کی قربانی مانگتا ہے۔بغیر کتابیں دیکھے اندھا ہو جاتا ہے؟؟؟۔یہ کیسا آفر ایوارڈ ہے جوبغیر تعاون کے کھسک جاتا ہے؟؟؟۔یہ کیسا ایوارڈ ہے جو صرف کتابیں دینے سے ہی ملتا ہے۔ رائٹرز کی قابلیت و اہلیت کی پرکھ اور جانچ کر نہیں دیا جا سکتا۔متعدد نے کتب شائع نہیں کرائی ہیں لیکن وہ معتبر صحافی اور ادیب ہیں۔کتابیں چھپوانے سے کوئی ادیب اور صحافی نہیں بن جاتا۔کتابیں تو لوگوں سے لکھوا کر بھی چھاپی جا رہی ہیں یا ادھر ادھر کا مواد پکڑا اور کتاب چھپوا لی۔پھر بھی اصلی اور دو نمبر ادیب کا پتا چل ہی جاتا ہے۔ان لوگوں نے تو سیرت کی کتابوں کو نہیں بخشا۔وہ بھی کسی سے لکھوا کر ادھر ادھر سے چرا کر چھپوالی ہیں؟؟؟میں تو بیشتر ایسے نامور مصنفوں کو جانتا ہوں کہ جن کا کام سدابہار،ان کا کام ہی ان کا اصل یوارڈ ہے جن میں موجودہ ادیبوں میں نمایاں نام اعجاز مہاروی،پروفیسر اختر حسین عزمی،صبا ممتاز بانو، سلمی اعوان،ثروت روبینہ،عین شین بٹ،سعدیہ قریشی،اعجاز خان،ارشد شریف،سردار اختر چوہدری،ندیم اختروغیرہ کا ہے اور بھی بے شمار نام ہیں جو میں لینا چاہتا ہوں مگر کالم کی طوالت کے باعث نہیں لے پا رہا ہوں۔کیا عجیب بات ہے کہ رائٹر لوگ اپنا اصلی علمی و ادبی کام یکسر نظرانداز کیے بیٹھے ہیں۔وہ اس مافیا کے امی, ابو،میاں بیوی،باپ بیٹا،اپنے ناموں سے اور سرورادب جیسے کسی کام کے نہ، جعلی، خودساختہ ایوارڈوں/میڈلوں /شیلڈز/ تعریفی اسناد کے پیچھے بھاگتے پھر رہے ہیں۔ایوارڈ تقریب میں پہنچنے کا میڈل سے زیادہ کرایہ لگ جاتا ہوگا۔سوچنے کی بات ہے کہ کیا آپ کا کام ان ایوارڈوں کا محتاج ہے کیا؟؟؟کیا گوشہ علم و ادب میں آپ کی کامیابی کا معیار آپ کی تحریریں اور کلام ہے کہ یہ ٹکا ٹوکری،کلو کے حساب سے بکتے ایوارڈ اور میڈلز۔۔۔۔۔۔۔بات میری،فیصلہ آپ کا۔آپ میری بات سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر اس تحریر میں ظاہر و پوشیدہ حقائق سے انکار نہیں کرسکتے کہ یہ سچائی خود بخود اپناراستہ بنا لے گی۔کتنے تعجب کی بات ہے کہ انتہائی قابل پروفیسر،لیکچرار،سکالر،ڈاکٹر،
ایم فل، پی ایچ ڈی ڈگری حامل شخصیات یوں فقط اک ایوارڈ کے لیے جعلسازوں کے نرغے میں پھنسے ہوئے ہیں اور احساس ذرا سا بھی نہیں ہے کہ کہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ایسے ایسے فراڈ لوگوں سے ایوارڈ لے رہے ہیں جو کسی بھی صحافتی فیلڈ میں کوئی گراں قدر خدمات کے حامل بھی نہ ہیں۔افسوس ہوتا ہے کہ اہل لوگ نااہلوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔بیمار ہوئے جس کے سبب،اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں کی نظر ہوئے پڑے ہیں۔ بھانت بھانت کا پانی پینے, تجربہ و مشاہدہ اور غور وفکر کی بنیادوں سے تخلیق اخذ کرنے والو یہ مقام و مرتبہ پانے کے لئے ساری زندگی اور توانائیاں خرچ کر دینے والے اصلی ہیرے ہیں آپ!یہ کیا ہے مگر کیوں تمہارے نام پر کچھ لوگ شہرت اور عزت کیاستھان پر جاچڑھے ہیں۔وہ اوپر ہیں اور تم نیچے۔تمہارا لکھا ذی شان ہے اور ان کا بے کار۔تمہارا سہارا لے کر وہ واہ واہ سمیٹ رہیہیں۔اصلی تخلیق کارپیچھے رہ گئے اور شعبدہ باز آگے آگئے۔؟؟؟اور یہ کیا کر رہے ہو؟؟؟ذرا سوچو کہ شاید ذہن و دل کے بند دریچے کھل جائیں جو ان کی چاپلوسی نے بند کر دئیے ہیں۔۔زندگی غورو فکر کا نام تبھی ہے جب حقیقت و اصلیت پر سوچاجائے جو ہمارافرض اور شمار عبادت بھی، توپھر دیر کس بات کی۔سوچئے سوچئے اور سوچئے کہ کبھی کبھی حکمت و دانائی پر مبنی سوچ کا ایک لمحہ بھی ہزار لمحوں پر بھاری ہوتا ہے۔تب ہم جان لیتے ہیں کہ ہم کیا ہیں اور ہمیں کیسے قد و قامت کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونا اور اپنا شمار معتبر ادبا میں کرانا ہے۔ان سے ایوارڈذ/میڈلز لے کر اپنی توقیر نہ گھٹائیں۔یہی سوچ آپ کو ان شعبدہ بازوں سے جدا کردے گی
 

A R Tariq
About the Author: A R Tariq Read More Articles by A R Tariq: 65 Articles with 54596 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.