گزشتہ سال کی بات ہے کہ مجھے سر کے پچھلے حصہ میں
ایک پھنسی نکل آئی ،جسے اپریشن کے ذریعہ نکالنا پڑا ،بنا ء بر ایں مجھے
اپنی طبیعت کے بر عکس اپنے خوبصورت بالوں کو بھی سر سے اتارنا پڑا ۔گنجا پن
صرف دولت والوں کے ساتھ سجتا ہے ، مجھ جیسے قلم مزدور کے ساتھ نہیں،اس لئے
میں ٹوپی سر پر رکھ کر گنجے پن کو چھپانے کی ناکام کو شش کرتا رہا ۔ لیکن
وقت کے ساتھ ساتھ بالوں کی فصل سر پر پھر سے لہلہانے لگی مگر اس دفعہ یہ
فصل سیاہ رنگ کی نہیں بلکہ بالکل چاندی جیسے سفید رنگ میں تھی ۔ میرے جوان
نما جسم پر اس طرح کی سفید فصل کسی کو اچھی لگی ،کسی کو بالکل پسند نہ آئی
۔کسی نے کہا ’’ چٹھے چاندی جیسے بالوں نے آپ کی شخصیت کوچار چاند لگا دیئے
ہیں ۔ تو کسی نے کہا سفید بالوں نے آپ کی پر کشش اور مقنا طیسی شخصیت کو
گہنا دیا ہے ۔جب میں آئینے کے سامنے جاتا تو میرا من بھی مجھے کہتا، ابھی
تو میں جوان ہوں ، ان بالوں نے مجھے خوا مخوا کا بوڑھا بنا دیا ہے ۔ جب
میرے من اور میرے دوستوں نے مجھے بوڑھا نہ ہونے کا احساس دلایا تو ایک دن
جب میں سی ایس ڈی میں گھر کے لئے اشیائے ضرورت خرید رہا تھا ‘ ایک شیلف میں
بالوں کو کالا کرنے کے کئی برانڈ نظر آئے ،غیر ارادی طور پر میرا ہاتھ ان
کی طرف بڑھا اور ایک پیکٹ لے ہی لیا اگلے دن ایک ہیئر ڈریسر کی خدمات حاصل
کر کے اپنے سر پر بڑھاپے کی نشانی یعنی سفید بالوں کا قلع قمع کر دیا ۔
یقین کیجئے کہ بوڑھے نہ ہونے کے احساس نے مجھے ابھی تک جوان کئے رکھا ہے۔
زندگی سے پیار ایک فطری جذبہ ہے ۔کوئی شخص بوڑھا ہونا چاہتا ہے نہ مرنا
چاہتا ہے ،ان دونوں باتوں سے انکار تو ممکن نہیں مگر میرے مشاہدے کے مطابق
ان دونوں صورتوں کو ایک خاص حد تک ٹالا جا سکتا ہے، پیچھے دھکیلا جا سکتا
ہے ۔ مثلا ایک شخص جب ساٹھ سال کی عمر کو پہنچتاہے ‘ملازمت سے ریٹائرڈ ہو
جاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو بوڑھا تصور کرنے لگتا ہے وہ جان بوجھ کر آہستہ
چلنا شروع کر دیتا ہے ،
اپنی یاداشت پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیتاہے،بوڑھا ہونے کی سوچ کی وجہ سے اسے
شوگر، دل کی تکلیف اور بلڈ پریشر جیسے بیماریاں لا حق ہو جاتی ہیں ۔ سر پر
سفید بال ، سفید داڑھی اور بوڑھے ہونے کا تصور اسے سچ مچ بہت سارے ایسے
مسائل کے سامنے لاکھڑا کر دیتا ہے جس سے وہ عمو ما خوف زدہ رہتا ہے ۔ اس کے
مقابلہ میں دوسرا شخص جو سمجھتا ہے کہ بڑھاپا تو کہیں 90سال کے بعد شروع
ہوتا ہے ۔وہ اپنی صحت اور فٹنس کا خیال رکھتا ہے ،جو ساٹھ سال کے بعد کی
زندگی کو سنہرا دور سمجھتا ہے کیونکہ عمر کے اس حصہ میں وہ بہت سارے ذمہ
داریوں سے فارغ ہو جاتا ہے اور اسے زندگی انجوائے کرنے کا بہترین دور
سمجھتا ہے ،اپنے آپ کو جوان سمجھتا ہے ۔اس کا یہ طرزِ عمل اور سوچ اس کے
مزاج میں مثبت تبدیلی لا کر بڑھاپے کو دیر سے لانے میں بہت اہم کردار ادا
کرتا ہے ۔ سٹڈی آف ایجینگ اینڈ ریٹائر منٹ سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ
عمر بڑھنے کے بارے میں جن لوگوں کے خیالات مثبت ہوتے ہیں ،وہ لمبی عمر پاتے
ہیں بہ نسبت ان لوگوں کے، جو منفی خیالات رکھتے ہیں ۔
اس کالم کے بہت سارے قارئین شاید مجھ سے اتفاق نہیں کرتے ہونگے اور وہ یہ
سمجھتے ہونگے کہ وقت کے ساتھ ساتھ عمر میں اضافہ اور بڑھاپا ایک قدرتی عمل
ہے اور بڑھاپے سے فرار ممکن نہیں ۔ہم میں سے اکثر لوگ اسے زندگی کی ایک
حقیقت سمجھتے ہیں اور زندگی کی جانب ہمارا رویہ یہی ہوتا ہے لیکن جینیات کے
ماہر ڈیوڈ سنکلیئر اور راقم السطور اس سے اتفاق نہیں کرتے ۔ایک طویل تحقیق
کے بعد یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ اگر ہم روزمرہ زندگی میں چند
سادہ سی عادتوں کو اور اپنی سوچ کو تبدیل کر لیں تو ہم بڑھاپے کو موخر کر
سکتے ہیں یعنی ہم زیادہ دیر سے بوڑھے ہوں گے جس سے نہ صرف یہ کہ ہم زیادہ
عرصہ زندہ رہ سکتے ہیں بلکہ زیادہ صحت مند زندگی بھی گزار سکتے ہیں ۔ |