آزاد کشمیر کی مخلوط حکومت میں کشمیر کاز کے تقاضوں کی تکمیل کا چیلنج
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
|
اطہرمسعود وانی
آزاد کشمیر میں سابق وزیر اعظم تنویر الیاس کی توہین عدالت کے جرم میں نااہلی کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کے دوران ' پی ٹی آئی' کے حصے بخرے ہوگئے۔سابق سپیکر چودھری انوار الحق کو وزیر اعظم بناتے ہوئے ایک ایسی مخلوط حکومت کی تشکیل کی گئی جس پہ قومی حکومت ہونے کا تاثر غالب ہے۔اپوزیشن رہنما چودھری لطیف اکبر کے سپیکر اسمبلی بنانے کے بعد آزاد کشمیر کے صدر کی تبدیلی کا عمل باقی رہ جائے گا۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے انتہائی نوعیت کے جارحانہ اقدامات کی تناظر میں اس بات کی اشد ضر ورت محسوس ہوتی ہے کہ آزاد کشمیر میں موجودہ قومی حکومت کے تشکیل میں آزاد کشمیر کے نئے صدرکا انتخاب مقبوضہ کشمیر کی صورتحال ا ور کشمیر کاز کے تناظر میں کیا جانا نہایت اہم ہے ا ور اس حوالے سے موز وں مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی ایسی شخصیت ہی ہو سکتی ہے جس کا عالمی سطح پہ کشمیر کاز کے حوالے سے نمایاں کام ہو۔
اطلاعات کے مطابق پیپلز پارٹی آزاد کشمیرکے صدر کی تبدیلی کے عمل میں متحرک ہے اور پیپلز پارٹی کی ہی کسی شخصیت کو صدربنانے کی کوشش کی اطلاعات ہیں۔ آزاد کشمیر میں حکومت کی تبدیلی کے تمام مراحل میں انتخابی حلقو ں کی سیاست کو مدنظر رکھا گیا ہے او ر اس طرح آزاد کشمیر کی ہر حکومت کی طرح موجودہ حکومت کے قیام کا میرٹ بھی مقامی نوعیت کے مفادات کے گرد ہی گھومتا ہے۔ اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ آزاد کشمیرکے نئے صدر کے تقرر کا فیصلہ مقامی سیاسی مفادات کے حوالے سے کرنے کے بجائے کشمیرکاز کے قومی مفاد میں کیا جائے۔ صدر کے عہدے پہ ایسی شخصیت کو لایا جائے جو آزاد کشمیرکی نالی ٹوٹی کی سیاست، قبیلائی منافرت اورآزاد کشمیرکی مقامی چپقلش کے امورسے بالاتر رہتے ہوئے خالصتا کشمیرکاز کے حوالے سے ہو۔
دوسری طرف مقبوضہ کشمیر بھارت کے انتہائی نوعیت کے جارحانہ انسانیت سوز مظالم پر مبنی اقدامات کے دور سے گزر رہا ہے۔بھارت کے مقبوضہ جموں و کشمیر سے متعلق 5اگست2019کے اقدام کے وقت مقبوضہ جموں و کشمیر میں متعین بھارتی گورنر ستیہ پال ملک نے انہی دنوں ایک انٹر ویو میں کہا ہے کہ '' بھارتی حکومت کے5اگست2019کے اقدام سے پہلے ہی ایسے سخت ترین اقدامات کر لئے گئے تھے کہ جس سے مقبوضہ کشمیرمیں یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ '' کوئی کتا بھونک سکے یا کوئی چڑیا چہچہا سکے''۔مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف بات کرنا تود ور، جس کسی پہ شک بھی گزرے اسے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت د وسال کے لئے بغیر کسی الزام عائید کئے جیل میں قید کر دیا جاتا ہے ا ور پھر اس د و سالہ معیاد میں اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے لئے بھارتی حکومت کے مختلف اقدامات تیزی سے زیر کار ہیں۔ زمینوں کی ضبطگی، بھارتی شہریوں کوزمینوں کی الاٹمنٹ، غیر ریاستی باشند وں کی مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کاری ا ور بڑی تعداد میںانہیں مقامی ڈ ومیسائل کی فراہمی،مزاحمتی تحریک میں ملوث افراد کے مکانات کی مستقل ضبطگی ا ور کشمیری رہنمائوں، کارکنوں کوجیلوں میں قید کرنے سمیت درجنوں دیگر ایسے اقدامات ہیں جو کشمیریوں کے خلاف استعمال کئے جا رہے ہیں۔ یہ بات بھی نمایاں ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیرمیںکشمیریوں کو معاشی طور پربدحال کرنے کے اقدامات بھی کررہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے متنازعہ قرار دی گئی ریاست جموں و کشمیر میں عالمی قوانین ،اصولوں ا ور معاہد وں کے منافی اقدامات کو عالمی برادری کی طرف سے بالواسطہ جائز قرار دلانے کی بھارتی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں جس میں مقبوضہ کشمیر میں جی20اجلاس کا اقدام بھی شامل ہے۔
یہاں اس کا ادراک کرنا بھی ضر وری ہے کہ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر سے متعلق اپنے اقدامات کے حوالے سے چند بڑی عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر پر قبضے کے معاملے میں پیش رفت کے خطرات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔اس تمام صورتحال کے تناظر میں یہ اس بات کی ضرورت میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کے کردار کو مکمل طور پر مقامی سیاسی مفادات میں محدود رکھنے کے بجائے کشمیر کاز سے منسلک کئے جانے کے حوالے سے بھی اقدامات کئے جائیں ۔ آزاد کشمیر میں صدر کے عہدے پہ مقبوضہ کشمیر کی ایسی شخصیت کو فائز کرنا اہم اقدام ہو سکتا ہے جس کا عالمی سطح پہ کشمیر کاز کے حوالے سے کام ہو۔یوں تو عالمی سطح پہ کشمیر کاز سے متعلق متعدد شخصیات کا نام لیا جا سکتا ہے تاہم ان تمام شخصیات میں کشمیر کاز کے حوالے سے نمایاں کام اور کردار ڈاکٹر سید نذیر گیلانی کا ہے۔
یقینا سلامتی کے قومی اداروں کو اس ضرورت کی اہمیت کا احساس ہوگا کہ آزاد کشمیر حکومت کو مکمل طور پر مقامی سیاسی مفادات میں بدستور محدود اور کشمیر کاز سے لاتعلقی کے چلن کو قائم رکھے جانے میں کیا کیا سنگین خطرات درپیش ہو سکتے ہیں اور مقبو ضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی عالمی سطح پہ کشمیر کاز کے حوالے سے سرگرم شخصیت کو آزاد کشمیر کے صدر کے عہدے پہ فائز کرتے ہو ئے ایک اہم مثبت پیش رفت کو ممکن کیا جا سکتا ہے۔ یہ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی اقدامات کی نتیجے میں صورتحال کی سنگینی اور اس کے ممکنہ مہلک اثرات کے خطرات کا ادراک کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے صدر کے عہدے پہ مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی ایسی شخصیت کے انتخاب کو یقینی بنائیں جو عالمی سطح پہ کشمیر کے حوالے سے نمایاں طور پہ متحرک ہو۔
اطہرمسعود وانی 03335176429 کی |