مِرزا تفصیل بیگ ہمارے دوست ہیں۔
معاملہ یہیں تک رہتا تو (اُن کے لیے) پریشانی کی کوئی بات نہ تھی۔ مسئلہ یہ
ہے کہ وہ ہمارے دوست ہونے کے ساتھ ساتھ انسان بھی ہیں! کوئی بھی بات لاکھ
سمجھاؤ، سمجھ لینے کا صرف ناٹک کرتے ہیں اور کرتے وہی ہیں جو اُنہیں کرنا
ہوتا ہے! کبھی کبھی تو جی میں آتا ہے کہ اُنہیں کسی سیاسی جماعت کا ترجمان
بنوادیں!
کل صبح مِرزا سے ملاقات ہوئی تو (وہ) خاصے پریشان دکھائی دیئے۔ ہم اُن کی
پریشانی خوب سمجھتے ہیں۔ وہ شام کو پرائم ٹائم سے رات دو بجے تک ٹی وی پر
ٹاک شوز دیکھتے رہتے ہیں۔ اگر کسی اینکر کے ویوئر شپ کم ہے فوراًسے رابطہ
کرے۔ کوئی اور دیکھے نہ دیکھے، مِرزا تو اُس کا پروگرام ضرور دیکھیں گے!
کئی ٹاک شوز ایسے ہیں جو مِرزا صرف اِس خیال سے دیکھ لیتے ہیں کہ اگر وہ
بھی نہ دیکھیں گے تو کون دیکھے گا!
مِرزا کو پریشان دیکھ کر ہم نے سوچا اب ایسی کون سی بات رہ گئی ہے جس پر
پریشان ہوا جائے؟ جب پریشانیاں حد سے بڑھ جاتی ہیں تو اِنسان کسی بھی قسم
کی تکلیف محسوس کرنے کی زحمت سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ غالب نے کہا تھا
مُشکلیں مُجھ پر پڑیں اِتنی کہ آساں ہوگئیں!
اور اِس سے ایک قدم آگے جاکر اصغر گونڈوی نے کہا تھا
اگر آسانیاں ہوں زندگی دُشوار ہو جائے!
شاید اِسی بات کو ہمارے حکمرانوں نے گِرہ میں باندھ لیا ہے۔ وہ نہیں چاہتے
کہ ہم کسی بھی قسم کی کوئی دُشواری محسوس کریں اِس لیے آسانیوں کو ختم کرتے
جاتے ہیں!
ہم نے مِرزا سے کہا کہ آپ کو پریشان دیکھ کر ہم اپنی پریشانی بھول جاتے ہیں
کیونکہ ہمیں بے ساختہ ہنسی آ جاتی ہے! ہماری بات سے مِرزا چڑگئے اور تیزی
سے ہم پر لپکے۔ ہم جُھکائی دیکر ایک طرف ہٹ گئے اور غور سے دیکھا تو اُن پر
کپکپی طاری تھی۔ یہ تو بہت حیرت انگیز بات تھی۔ مِرزا کا سُسرال قریشی
برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ مگر یہ خوں آشام حقیقت بھی اُنہیں کبھی خوف سے
دوچار نہ کرسکی۔ پھر اب ایسا کیا ہوگیا ہے جسے دیکھ کر اُن پر کپکپی طاری
ہو رہی ہے؟ ہم یہ سمجھے کہ شاید رات بھر ٹی وی پر طرح طرح کی فوٹیجز دیکھ
کر خوب ہنستے رہے ہیں۔ اور صبح جب وہ فوٹیجز سمجھ میں آئی ہیں تو اب سہم کر
خوفزدہ ہوچلے ہیں!
جب ہمارے اور مِرزا کے حواس قابل اعتبار حد تک بحال ہوگئے تو ہم نے پوچھا
کہ پسینے کیوں چُھوٹ رہے ہیں، سراسیمگی کیوں طاری ہے؟ مِرزا نے قدرے لاچاری
اور بیزاری سے کہا ”یار کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ ذہن پر بہت زور دیتا ہوں
تب بھی کِسی بات کا سِرا نہیں ملتا۔“
یہ سُن کر ہماری ہنسی چُھوٹ گئی۔ ہم نے کہا جناب! کیوں مذاق کرتے ہیں؟ آپ
اور ذہن؟ آپ کا کچھ سوچنا ذہن پر خود کش حملے سے کم نہیں! ہمارا بس اِتنا
کہنا تھا کہ مِرزا تو ہَتّھے سے اُکھڑنے لگے۔ جس طرح ہمارے ہاں کابینہ میں
وزراءآتے جاتے رہتے ہیں اُسی طرح مِرزا کے چہرے پر بھی ایک رنگ آنے اور
دوسرا جانے لگا! ہم نے کہا ”مِرزا! اگر آپ کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تو
اِس میں کون سی نئی بات ہے اور پریشان ہونے کی ضرورت کیا ہے؟ آپ کی سمجھ
میں کب کوئی بات آئی ہے؟ مثلاً....“ ہماری بات ادھوری رہ گئی۔ کوئی بھی
ایسا ویسا سوال سُن کر سیاستدان جس انداز سے ٹی وی اینکرز کی طرف دیکھتے
ہیں، بس کچھ ویسی ہی خشمگیں نظروں سے مِرزا نے ہماری طرف دیکھا اور ایک بار
پھر ہماری طرف بڑھے۔ ہم پل بھر کو سہم گئے۔ ہم مِرزا کے پُرانے دوست ہیں
اِس لیے جانتے ہیں کہ ایسے ”مواقعوں“ پر اُن سے تین چار فٹ کا فاصلہ رکھنا
ناگزیر ہوتا ہے! ہمیں سہما ہوا دیکھ کر مِرزا نے اپنے غُصّے پر نظر ثانی کی
اور کمال خلوص کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارا ہاتھ تھام لیا۔ اُنہیں شاید یاد
آگیا تھا کہ دو کروڑ کی آبادی والے شہر میں ایک ہم ہی تو ہیں جو اُن کی بات
سُنتے ہی نہیں، مان بھی لیتے ہیں! رشتے دار تو خیر خود بخود بنتے جاتے ہیں،
آج کل سچّے دوست کہاں ملتے ہیں؟
مِرزا نے اپنی داستان شروع کی ”آج کل رات بھر نیند نہیں آتی۔ جس طرح اِس
ملک سے امن و امان اور استحکام رُوٹھے ہوئے ہیں بالکل اُسی طرح پُرسُکون
نیند میری آنکھوں سے روٹھی ہوئی ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کون سے پیر سے
تعویذ لاؤں تو سُکون پاؤں۔“
ہم نے مشہور زمانہ خواب آور نُسخہ یاد دلایا کہ بستر پر لیٹ کر بھیڑیں گننا
شروع کردیا کیجیے، ذرا سی دیر میں نیند آ جایا کرے گی۔ مِرزا نے حیرت انگیز
طور پر مودب لہجہ اختیار کرتے ہوئے ہماری معلومات میں اضافہ کیا ”مُوسلا
دھار بارشوں کے بعد مُلک سیلاب کی زد میں ہے۔ دیہی علاقوں میں بیشتر مویشی
سیلابی ریلوں کی نذر ہوگئے ہیں۔ ذرا سی گنتی میں بچے کھچے مویشی بھی ختم ہو
جاتے ہیں!“
اب ہمیں صورت حال کی سنگینی کا احساس ہوا۔ جب مویشی ہی ختم ہوگئے تو اِنسان
کیا گن کر نِندیا رانی کو اپنے پاس بُلائے گا؟
مِرزا نے بیان جاری رکھا ”فجر کے وقت نیند آتی ہے تو عجیب و غریب خواب
دیکھتا ہوں۔“ یہ سُن کر ہم چونکے۔ چونکنا اِس بات پر نہیں تھا کہ وہ عجیب و
غریب خواب دیکھتے ہیں۔ مِرزا جیسے خود ہیں، ظاہر ہے ویسے ہی خواب دیکھیں
گے! ہم تو اِس بات پر حیران ہوئے کہ اُن کی یہ ہمت کہ خواب دیکھیں۔ خواب
دیکھنا اور اُن کی تعبیر کا سوچنا تو اب صرف سندھ کے وزیر داخلہ کا منصب
ہے! اور سچ تو یہ ہے کہ حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ اب منظور وسان صاحب
نے بھی خواب دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ کل تک وہ کسی نہ کسی طور اپنے خوابوں کی
تعبیر کا بندوبست کرلیا کرتے تھے۔ اب خواب کی تعبیر کا اہتمام کرنا بھی
جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا جارہا ہے!
ہم نے سوچا ذرا خوابوں کی نوعیت تو معلوم کریں۔ مِرزا نے بتایا ”جیسا شہر
ہے ویسے ہی خواب ہیں۔ نیند کی حالت میں بھی کراچی کے حالات ہی حواس پر سوار
رہتے ہیں۔ لڑائی، مار کٹائی، تشدد۔۔ اور کیا؟ کسی کو تشدد پر تُلا ہوا پاتا
ہوں اور کسی کو تشدد کا نشانہ بنتا ہوا دیکھتا ہوں۔“
ہم نے عرض کیا کہ خواب میں دوسروں پر تشدد ہوتا ہوا دیکھتے ہیں تو پریشان
ہونے کی ضرورت کیا ہے؟
مِرزا بُرا مان گئے۔ قدرے سرد لہجے میں بولے ”تم واقعی پاکستانی ہو۔ یعنی
پڑوس میں آگ بھی لگی ہو تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ اپنا گھر تو محفوظ
ہے!“
سچ یہ ہے کہ مِرزا کی بات سُن کر ہم تھوڑے سے شرمندہ ہوگئے۔ معذرت چاہتے
ہوئے ہم نے مِرزا سے کہا کہ اپنی بات جاری رکھیں۔ وہ کہنے لگے ”اب ایک ہفتے
سے حالت یہ ہے کہ روزانہ فجر کے وقت یہ خواب دیکھ رہا ہوں کہ کوئی چُھرے
لیکر مُجھ پر وار کرنا چاہتا ہے۔ بس عین وقت پر کسی نہ کسی طرح بچ نکلتا
ہوں، اور وہ بھی یوں کہ گھبراہٹ میں آنکھ کھل جاتی ہے!“
ہم نے وضاحت طلب کی کہ اچھی طرح دیکھ لیا ہے کہ چُھرے لیکر کون حملہ آور
ہوتا ہے۔ کہیں بھابی کے میکے والے تو نہیں ہوتے! مِرزا نے اطمینان سے جواب
دیا ”خواب میں جو لوگ مُجھ پر حملہ کرتے ہیں وہ سُسرال والے ہرگز نہیں
ہوسکتے۔ تمہاری بھابی کے میکے والے جَدّی پُشتی ہیں، رگ پَٹّھہ دیکھ کر
چُھرا گھماتے ہیں!“
ہم نے پوچھا جو لوگ خواب میں چُھرے لیکر حملہ آور ہوتے ہیں اُنہیں آپ جاگتی
آنکھوں سے دیکھ لیں تو شناخت کرلیں گے؟ مِرزا کا جواب تھا ”ویسے تو اِس قسم
کے ظالموں کو لوگ پہچان لینے پر بھی شناخت نہیں کرتے، مگر احتیاط کا عالم
یہ ہے کہ خواب میں بھی اُنہوں نے چہروں پر ڈھاٹے باندھے ہوتے ہیں!“
ہم نے اِستفسار کیا کہ کسی سیانے سے خواب کی تعبیر جاننے کی کوشش کی ہے۔
مِرزا کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے ایک بزرگ کے سامنے جب اپنا خواب بیان کیا
تو اُنہوں نے بتایا کہ خواب کی نوعیت یہ بتا رہی ہے کہ مُشکلات کے بھنور
میں پھنس کر بھی زندہ رہو گے، تم پر آنچ نہ آئے گی!
ہم نے یہ تعبیر سُن کر مِرزا کو مبارک باد دی کہ زندگی کے محفوظ رہنے کی
سَند تو مل بھی چکی۔ کیا چاہیے؟ اب کس بات پر پریشانی لاحق ہے؟
ہماری بات سُن کر مِرزا نے خاصی بے چارگی سے اپنی تشویش کا اصل سبب یوں
بیان کیا ”ابھی کل تک تو گھر سے باہر قدم رکھتے ڈر لگتا تھا۔ جان کِسے
پیاری نہیں ہوتی؟ چاروں طرف دیکھ کر چلنا پڑتا تھا کہ کہیں سے کوئی اندھی
گولی آکر رگِ جاں میں پیوست نہ ہو جائے۔ اب شہر کا حال یہ ہوگیا ہے کہ موت
کا خوف کب کا مَرچکا۔ اب تو مرنے والوں پر رشک آتا ہے کہ ایک بڑے گورکھ
دَھندے سے چُھوٹے! تازہ ترین خوف یہ ہے کہ اگر اِس شہر میں زندہ رہ گئے تو
کیا ہوگا؟“
مِرزا نے ہمیں بھی مُشکل میں ڈال دیا۔ مارکیٹ میں ”انٹروڈیوس“ ہونے والے
اِس نئے خوف کے بارے میں تو ہم نے سوچا ہی نہیں تھا! |