ریلوے کا محکمہ ہماری زندگی سے
کتنا مِلتا جُلتا ہے۔ دونوں میں رُوحانیت کا عنصر پختہ ہوتا جارہا ہے
کیونکہ کام دھندا چھوڑ کر دونوں ہی گوشہ نشینی اختیار کرتے جارہے ہیں!
ریلوے کے محکمے کو دیکھ کر پُرسُکون انداز سے جینے کا ہنر ہم بخوبی سیکھ
سکتے ہیں کیونکہ ٹرینوں نے اب فانی دُنیا کی عِلّتوں سے کنارہ کش ہوکر
مراقبہ شروع کردیا ہے! علامہ اقبال نے کہا تھا۔
سُکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثابت ہوا کہ آنے والے زمانوں اور بالخصوص پاکستان ریلوے کے مستقبل پر اُن
کی نظر نہیں تھی۔ علامہ نے پاکستان کا خواب ضرور دیکھا تھا، پاکستان ریلوے
کا خواب نہیں دیکھا تھا۔ اگر دیکھا ہوتا تو ”سُکوں محال ہے.... والا مصرع
ہرگز نہ کہتے!
بچپن سے بال ہٹ، راج ہٹ اور تریا ہٹ کا سُنتے آئے ہیں، یعنی یہ کہ ضِد اور
ہَٹ دھرمی بچوں، بادشاہوں اور عورتوں پر ختم ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو
ٹرینوں کو آپ کیا کہیں گے؟ وہ بھی اگر کہیں ٹھہر جائیں یا اڑ جائیں تو ٹس
سے مَس نہیں ہوتیں! سچ تو یہ ہے کہ جو ریلوے کے ہتّھے چڑھا وہ رُل گیا۔
گویا ریلوے نہ ہوا، ”رُل وے“ کا محکمہ ہوا!
اُردو شاعری میں جو چند کیفیات نمایاں طور پر بیان کی جاتی ہیں اُن میں
انتظار کی کیفیت سب سے نمایاں ہے۔ کلاسیکی شعراءخاصے پیش بیں تھے۔ اُنہیں
اندازہ تھا کہ کبھی ایسا بھی زمانہ آئے گا جب پاکستان کی ٹرینیں اِنسانوں
کو انتظار کی چکی میں پیسیں گی۔
جاں نثار اختر نے انتظار کے جاں گسل لمحات کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا
تھا۔
جیسے سِگنل پہ رُک گئی ہو ریل!
آپ سوچیں گے ٹرین سِگنل پہ تو اُس وقت رُکے جب وہ واشِنگ لائن سے باہر آنے
کی زحمت گوارا کرے! اگر اُردو کے شعراءکو ٹرین کا پے دے پے سفر کرایا جائے
تو اُن کے فن میں انتظار کی کیفیت زیادہ نکھر کر، نمایاں ہوکر سامنے آئے
گی۔ کوفت اور وحشت بھی شامل ہو جائے تو انتظار کی کیفیت دو آتشہ کیوں نہ
ہو!
ٹرینوں کا حال یہ ہوگیا ہے کہ اِنہیں چلتا دیکھ کر اب لوگوں کا اِس بات پر
یقین بڑھ جاتا ہے کہ اللہ جو چاہے کرسکتا ہے! ریل کی پٹریاں زندگی بھر ساتھ
ساتھ چلتی ہیں مگر مِلتیں نہیں، کچھ اِسی طرح ریلوے کے محکمے کی ملاقات بھی
حسن کارکردگی سے نہیں ہو پاتی!
ریلوے کا محکمہ اور اُس کے وزیر ایک دوسرے کے مماثل ہیں۔ دونوں کی کوئی بات
کسی کی سمجھ میں نہیں آتی! ٹرینوں کے سال خوردہ انجنوں کی طرح ریلوے کے
وزیر کی بھی سانس اُکھڑی اُکھڑی رہتی ہے! سچ تو یہ ہے کہ ٹرین تو ہم کسی نہ
کسی طرح پکڑ ہی لیتے ہیں، غلام احمد بلور کی کوئی بات ہماری پکڑ میں نہیں
آتی! میڈیا والے چودھری شجاعت اور نواب اسلم رئیسانی کی طرح غلام احمد بلور
سے بات کرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں۔ وہ کوئی بات کربیٹھیں تو سمجھنے میں دو
دن لگتے ہیں اور تب تک صورت حال بدل چکی ہوتی ہے! اگر کبھی اُن سے ٹرینوں
کے شیڈول کا اعلان کرادیا جائے تو مسافر برسوں پلیٹ فارمز کے چکر ہی کاٹتے
رہیں گے! ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ اب تک لوگ یہ بھی سمجھ نہیں پائے کہ
غلام احمد بلور کی خراب صحت کو ریلوے سے قیاس کریں یا وزیر موصوف کو دیکھ
کر ریلوے کی خراب حالت کا اندازہ لگائیں!
گزشتہ دنوں ریلوے نے ایک اور انوکھی روایت کو جنم دینے کی ابتداءکی۔ دو دو
ٹرینوں کو ایک ہی انجن سے روانہ کیا گیا۔ یہ دیکھ کر ہمیں اپنی جوانی کا
یعنی خاصا پرانا زمانہ یاد آگیا! ایک دور وہ بھی تھا جب کوئی فلم کئی سنیما
گھروں میں ریلیز کئے جانے پر پندرہ بیس منٹ کے وقفے سے اسٹارٹ کی جاتی تھی۔
سبب اس کا یہ تھا کہ کہیں ایک ریل ختم ہوتی تھی تو سنیما کا کارندہ موٹر
سائیکل پر لاد کر وہ ریل دوسرے سنیما تک پہنچاتا تھا اور تب وہاں فلم
اسٹارٹ ہو پاتی تھی! کبھی کبھی یہ بھی ہوتا تھا کہ ریلیں آگے پیچھے ہونے پر
کہانی میں عجیب و غریب ٹوئسٹ پیدا ہو جایا کرتے تھے! ایک ریل میں موت سے
ہمکنار ہونے والا اداکار اگلی ریل میں چلتا پھرتا دکھائی دیتا تھا اور فلم
بین سوچتے رہ جاتے تھے کہ رومانی فلم اچانک ہارر مووی میں کیسے تبدیل
ہوگئی! چند ریلوں کے آگے پیچھے ہونے سے کہانی ایسا عجیب و غریب رنگ اختیار
کرتی تھی کہ فلم بین عش عش کر اُٹھتے تھے اور فلم کی کاسٹ، رائٹر اور
ڈائریکٹر کو داد دیتے نہ تھکتے تھے!
اب آپ سوچیے کہ اگر دو ٹرینیں ایک انجن سے روانہ کی جائیں اور ایک ٹرین کو
راستے میں چھوڑ کر انجن دوسری ٹرین کے ساتھ چلتا بنے تو کیسی فلم معرض وجود
میں آئے گی! جو لاڑکانہ جانے کے لیے نکلے گا کوئٹہ پہنچ کر دم لے گا!
نکلے تھے کہاں جانے کیلئے، پہنچے ہیں کہاں؟ معلوم نہیں
اب اپنے بھٹکتے قدموں کو منزل کا نشاں معلوم نہیں
ایک صاحب شکایت کر رہے تھے کہ وہ جب ٹرین کے ذریعے بیٹے کی بارات لیکر لڑکی
والوں کے گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ چوتھی کی رسم ادا کی جارہی ہے! اِس
نوعیت کی بوالعجبی سیاست دانوں میں تو عام تھی۔ افسوس کہ سیاسی دُنیا کے
لطائف اب عام آدمی کی زندگی میں بھی در آئے ہیں!
مرزا غالب نے ویرانی کے ذکر میں بھی اپنے گھر کو اولیت بخشی تھی۔
دَشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا!
یعنی دشت کی ویرانی دیکھ کر اُنہیں گھر کی ویرانی یاد آئی تھی جو اُن کے
خیال میں شدید تر تھی۔ اگر غالب اکیسویں صدی کے پاکستان میں ہوتے اور کسی
ریلوے پلیٹ فارم کودیکھ لیتے تو اپنے گھر کی ویرانی بھول بھال جاتے!
ویرانوں میں تو پھر بھی دو چار اُلّو رونق میلہ لگانے کی کوشش میں مصروف
دکھائی دیتے ہیں، ریلوے پلیٹ فارمز کا حال اِس بھی بُرا ہوچلا ہے!
اگر کبھی ٹرین کی آمد کا یقین ہو تو پلیٹ فارمز پر لوگ گھنٹوں انتظار کرتے
رہتے ہیں۔ اور پھر ٹرینوں کا شیڈول بنانے والوں کو حضرتِ داغ کی زبان میں
کوستے ہیں۔
غضب کیا تِرے وعدے پہ اعتبار کیا!
ہماری ناقص عقل یہ تجویز پیش کرتی ہے کہ ہر ریلوے پلیٹ فارم کو سوشل کلب
میں تبدیل کردیا جائے! ٹرینوں کی بے وقتی کے باعث اور ریلوے حکام کی نا
اہلی سے اگر ہزاروں افراد پلیٹ فارم پر جمع ہو ہی جائیں تو اِس موقع سے
فائدہ اٹھاتے ہوئے کیوں نہ اُنہیں آپس میں مِل بیٹھیں اور ایک دوسرے کے
بارے میں واقف ہو لیں!
اگر کوئی بارات روانہ ہو رہی ہو تو دس پندرہ گھنٹے تک پریشان ہونے سے بہتر
ہے کہ مایوں وغیرہ کی رسم پلیٹ فارم ہی پر ادا کی جائے تاکہ ڈیکوریشن کا
خرچہ بچے!
تجارتی کمپنیاں اپنی مشہوری کے لیے اِن پلیٹ فارمز کو بخوبی استعمال کرسکتی
ہیں۔ جو سیاست دان لاکھ کوشش کے باوجود جلسے کے نام پر ڈیڑھ دو سو سے زائد
”جاں نِثار“ جمع نہیں کر پاتے وہ ریلوے پلیٹ فارمز کو جلسہ گاہ کے طور پر
استعمال کرسکتے ہیں! اِس صورت میں ریلوے کے محکمے کو اِضافی آمدنی ہوسکتی
ہے اور سیاست دانوں کی ”پُرلطائف“ تقاریر سُن کر مسافروں کے لیے انتظار کی
کوفت سے بچنا آسان ہوسکتا ہے! آج کل جس قدر آسانی ملے، غنیمت ہے! |