مجھے بچوں کے رونے کی آواز پسند ہے٬ سپر نرس کہلانے والی خدیجہ بی بی نے 10 ہزار بچوں کی پیدائش کیسے ممکن بنائی

image
 
ہر کوئی بچوں کی ہنسی اور کلکاریاں سننا پسند کرتا ہے لیکن انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو کے وِلوپورم ضلع سے تعلق رکھنے والی خدیجہ بی بی کے لیے صرف ایک ہی چیز ہے جو وہ سننا چاہتی ہیں یعنی وہ اپنے نوزائیدہ بچے کی پہلے رونے کی آواز سننا چاہتی ہیں۔
 
خدیجہ بی بی گذشتہ 33 سالوں سے وِلوپورم اربن پرائمری ہیلتھ سنٹر میں میٹرنٹی نرس کے طور پر کام کر رہی ہیں اور اس مدت میں انھوں نے 10,000 سے زیادہ صحت مند ڈیلیوری کو کامیابی سے انجام کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
 
اپنے 33 سالہ کریئر میں خدیجہ بی بی نے اپنے پاس آنے والی ماؤں کو مناسب علاج فراہم کیا اور 10,000 سے زیادہ زچگیاں بغیر کسی پیدائش کے وقت موت کے سانحے کے انجام دیں۔
 
وِلوپورم کے ڈسٹرکٹ کلکٹر پلانی نے بی بی سی تمل کے ساتھ بات چیت میں اس بات کی تصدیق کی ہے۔
 
پانچ فٹ کے قد کے ساتھ سفید ساڑھی اور سرمئی رنگ کے بلاؤز میں ملبوس خدیجہ بی بی کے چھوٹے چہرے پر ان کی عینک خاصی نمایاں لگتی ہے۔ جبکہ ان کی چہرے پر امید کی کرن اس سے زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔
 
یہ سادہ سی نظر آنے والی خاتون وِلوپورم ضلع میں ہزاروں خواتین کو محفوظ ڈلیوری کرانے کے لیے خیراسی نرس کے نام سے جانی جاتی ہیں۔
 
1990 میں سات ماہ کی حاملہ خدیجہ بی بی نے ولوپورم ڈسٹرکٹ اربن پرائمری ہیلتھ سنٹر میں میٹرنٹی نرس کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ وہ 60 سال کی عمر میں اگلے ماہ اسی طبی صحت کے سینٹر سے ریٹائر ہو رہی ہیں۔
 
image
 
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب میں نے نوکری جوائن کی تو میں خود حاملہ تھی۔ لیکن میں نے بچے کو جنم دیا۔ میں اپنے بچے کی پیدائش کے دو ماہ بعد کام پر واپس آئی۔ میں نے نرسنگ کی تربیت مکمل کر لی تھی۔ تاہم، نوکری کے چند ہی دنوں میں، مجھے خود ہی بچے کو جنم دینے کا تجربہ ہوا جس نے میری مزید مدد کی۔‘
 
’میں نے محسوس کیا ہے کہ بہت سی ماؤں کے لیے درد زہ کے دوران بہترین دوا حوصلہ مند گفتگو اور یقین دہانی ہے۔ لہٰذا، میں نے ان تمام ماؤں کے ساتھ جو میرے پاس آئیں ان کے درد کو محسوس کرتے ہوئے کام کیا۔‘
 
ان کے ہاں پیدا ہونے والے دونوں بچے نارمل حالت میں پیدا ہوئے۔ خدیجہ بی بی کے اس سروس میں شامل ہونے سے پہلے اس بنیادی صحت کے مرکز میں دو ماؤں کی دورانِ زچگی موت ہو گئی تھی۔
 
اس لیے اس کی شدید خواہش تھی کہ ان کے پاس آنے والی کسی حاملہ عورت کی اس طرح موت نہ ہو اور ہر ایک کے ہاں ان کی ہی طرح صحت مندانہ طور پر ولادت ہو۔
 
وہ کہتی ہیں کہ ’اگرچہ میں نے 30 سال سے زائد عرصے تک بچے کی پیدائش دیکھ رکھی ہے، لیکن میری شدید خواہش ہے کہ ہر ڈیلیوری ماں اور بچے کے لیے محفوظ اور صحت مند ہو۔ اس لیے ہر دن کام پر میرا پہلا دن ہوتا ہے۔‘
 
وہ درد یا بے چینی محسوس کرنے والی حاملہ عورت کو دیکھتی ہیں اور ان کی جانچ کرتی ہیں اور یہ پتا لگانے کی کوشش کرتی ہیں کہ آیا صحت مند ڈیلیوری کا امکان ہے یا نہیں، اور اگر سرجری کی ضرورت ہو تو اسے فوری طور پر وِلوپورم ڈسٹرکٹ ہسپتال بھیج دیتی ہیں۔
 
وہ کہتی ہیں ’مجھے احساس ہو جاتا ہے۔ میں نے جو 10,000 سے زیادہ بچے کی پیدائش کرائی ہے وہ اس امید کے ساتھ کرائی ہے کہ صحت مند پیدائش کا امکان ہے۔ اگر مجھے ذرا بھی احساس ہو کہ صحت مند پیدائش نہیں ہونے والی ہے تو میں انھیں فوری طور پر بغیر کسی تاخیر کے آگے ریفر کر دیتی ہوں۔‘
 
image
 
ایک دن میں آٹھ بچوں کی پیدائش
خدیجہ بی بی کی والدہ زلیخا دیہی صحت کی نرس کے طور پر کام کرتی تھیں، اس لیے خدیجہ کو ابتدائی عمر سے ہی نرسنگ میں دلچسپی تھی۔ خدیجہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ 1990 کی دہائی میں بنیادی صحت کا مرکز ایک مصروف جگہ ہوتی تھی جہاں سات سات گاؤں سے حاملہ خواتین علاج کے لیے آتی تھیں۔
 
خدیجہ نے اپنے 30 سال سے زیادہ کے زچگی کی نرس کے طور پر کام کرنے کی مدت میں ایک ماہ میں زیادہ سے زیادہ 35 اور کم از کم پانچ ڈیلیوری دیکھی ہیں۔ بہر حال ملازمت کے دوران ان کے بہت سے یادگار تجربات تھے۔ ان میں سے ایک ایسا تھا کہ ایک دن میں آٹھ خواتین کے ہاں ولادت تھی۔ یہ مشاہدہ ان کے لیے ایک جذباتی تھا۔
 
انھوں نے بتایا کہ ’یہ 8 مارچ 2000 کا دن تھا۔ اور آٹھ مارچ یوم خواتین ہوتا ہے۔ بہتوں نے مبارکباد دی۔ لیکن میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ دن میری زندگی کا سب سے یادگار دن بن جائے گا۔‘
 
خدیجہ بی بی نے ایک قسم کے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا ’ہمیشہ کی طرح صبح آٹھ بجے ہسپتال پہنچی۔ جب میں پہنچی تو دو عورتیں درد سے تڑپ رہی تھیں۔ جیسے ہی ان میں سے ایک نے جنم دیا، دوسری نے چیخ ماری۔ اور اس دن لگاتار آٹھ ڈیلیوری ہوئی۔ میرے ساتھ صرف ایک کلینر تھا۔ اس پورے دن میں، میں نے ایک کے بعد ایک آٹھ خواتین کو جنم دیتے ہوئے دیکھا۔ آٹھ بچوں کے رونے کی آوازیں سنیں۔ اس دن ہمارا ہیلتھ سینٹر کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ لیکن میں خوش تھی کہ آٹھوں کا بچہ بحفاظت دنیا میں آيا۔‘
 
خدیجہ کو کامیابی اور اطمینان کا ایک بڑا احساس اس وقت ہوا جب آٹھ خاندانوں نے، آنسو بہاتی مائیں اپنے بچوں کو مطمئن دل کے ساتھ دودھ پلاتی ہوئی ان کا شکریہ ادا کر رہی تھیں۔
 
انھوں نے کہا ’جب میں نرس کی ٹریننگ کے لیے گئی تو بہت سے لوگوں نے میری والدہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ لیکن بہت سے رشتہ داروں نے جنھوں نے سنا کہ میں نے ایسے نازک وقت میں اچھی طرح کام کیا تو انھوں نے تعریف کی۔‘
 
اپنے کام کی نوعیت کی وجہ سے وہ صحت کے مرکز کے قریب ہی ایک مکان میں رہتی ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کا کہیں اور جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
 
وہ کہتی ہیں کہ ’کبھی کبھی نیند میں بھی مجھے بچے کی پیدائش کے وقت کی رونے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ شروع شروع میں تو میں بیدار ہو جاتی تھی۔ بچوں کا پیدائش کے بعد رونا فطری ہے، اور جب وہ روتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ بچہ صحیح طریقے سے سانس لے رہا ہے۔‘
 
’مجھے وہ رونا پسند ہے۔ ان گنت مائیں جو بچے کی پیدائش کے وقت روتی ہیں اور چیخیں مارتی ہیں اور بچے کی پیدائش کے وقت آنسوؤں سے مسکراتی ہیں اور روتی ہیں۔ یہ ایک سکون بخش تجربہ تھا۔ یہ ایک نعمت ہے کہ مجھے ملی اور یہی میرا کام بن گیا۔‘
 
50 جڑواں بچے
خدیجہ کے ماں ایک ہی بار میں جڑواں اور تین تین بچوں کی 50 سے زیادہ ولادت کو سنبھالنے کا تجربہ ہے۔ ان کے لیے وہ دن حیرت و استعجاب والا دن تھا جب انھوں نے ایک ہی ماں کے ہاں ایک بار تین بچوں کو جنم دلوایا۔
 
1990 کی دہائی کے اوائل میں بنیادی صحت کے مراکز کے پاس کوئی ایسی سکین مشین نہیں ہوا کرتی تھی جس سے رحم میں بچوں کی تعداد کو درست طریقے سے دیکھا جا سکے۔ اس لیے خدیجہ کا خیال تھا اس دن جو حاملہ عورت درد زہ کے ساتھ آئی تھی وہ جڑواں بچوں کو جنم دے گی۔
 
پہلے بچے کی پیدائش کے چند ہی منٹوں بعد اسے پھر سے درد ہونے لگا اور دوسرے بچے کی پیدائش ہوئی۔ دونوں بچوں کی صفائی کرتے ہوئے خدیجہ اس وقت گھبرا گئیں جب خاتون نے بتایا کہ انھیں پھر سے درد ہونے لگا ہے۔
 
انھوں نے کہا کہ دو بچوں کی پیدائش کے بعد اس خاتون کو دوسرے ہسپتال بھیجنا بھی مشکل تھا۔ خوف اور الجھن کے باوجود وہ بار بار عورت کے ہاتھ پکڑ کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرتیں۔
 
جوں ہی تیسرا بچہ باہر آیا تو پتا چل گیا کہ تین بچے پیدا ہوئے ہیں۔
 
image
 
صحت مند پیدائش کیسے ممکن ہے؟
خدیجہ کہتی ہیں کہ صحت مند ڈیلیوری کے دوران ماں کی ہمت اور ان کا حوصلہ بہت اہم ہوتا ہے۔
 
’درد بہت زیادہ ہو گا۔ لیکن اس کے لیے ان کے پاس ایسے شخص کا ہونا ضروری ہے جس پر درد میں مبتلا ماں کا بھروسہ ہو۔ ایک ڈلیوری میں، ایک عورت بچے کو جنم دینے کے بعد درد میں پڑی تھی اور اسے چھوٹے موٹے ٹانکے لگانے کی ضرورت تھی۔‘
 
اس نے کہا کہ ’اس کا سوتیلا باپ آ جائے تو ٹانکے لگائیں۔ اس کے پہنچنے کے بعد ہی خاتون ٹانکے لگوانے کے قابل ہوئی۔ آج کل، بہت سے مرد ولادت کے وقت اپنی بیوی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ یہ اس بات کی گواہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے۔‘
 
خدیجہ کو خواتین کی دو نسلوں کو جنم دلانے کا تجربہ بھی ہے۔ جب 21 سالہ وجے لکشمی پیدا ہوئی تھی تو خدیجہ ہی نے سب سے پہلے اسے اپنے ہاتھوں میں اٹھایا تھا۔ اب وجے لکشمی نے خدیجہ کی مدد سے گذشتہ سال نومبر میں ایک صحت مند بچے کو جنم دیا ہے۔
 
نوجوان ماں وجے لکشمی مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میری ماں سماتی کو اپنے حمل کے دوران بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ڈیلیوری روم میں، خدیجہ اکثر کہتی تھیں کہ وہ مجھے جنم دینے کے لیے کافی بہادر ہیں اور انھوں نے میری والدہ کے ساتھ شفقت سے بات کی اور انھیں امید دلائی۔ اسی لیے جب بہت سے پرائیویٹ ہسپتالوں نے سفارش کی تب بھی میں نے خدیجہ اماں کو ڈھونڈتے ہوئے ان کے پاس آئی۔ میں بہت خوش ہوں کہ ڈلیوری کامیاب رہی۔‘
 
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر پہلی ڈیلیوری سرجیکل ہے تو دوسری ڈیلیوری بھی سرجیکل ہوگی۔ لیکن خدیجہ نے بہت سی خواتین کو بغیر سرجری کے کامیاب دوسری ڈیلیوری کروانے میں مدد کی ہے۔
 
وہ کہتی ہیں کہ ’آج سرجری نے بہت سی جانیں بچائی ہیں۔ میری ماں نے مجھے بتایا کہ بہت سی خواتین بچے کی پیدائش کے دوران مر گئیں۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت سرجری بہت زیادہ ہو گئی ہے۔‘
 
خدیجہ بی بی سماج میں آنے والی تبدیلی کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ’پہلے سرجری سے لوگ بچتے تھے۔ آج کل لوگ بچے کی پیدائش سے ڈرتے ہیں۔ کچھ خاندانوں میں، والدین پہلے ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ ہماری بیٹی درد برداشت نہیں کرے گی اور اس کا آپریشن ہوگا۔ لیکن ایک صحت مند ڈیلیوری ہر ماں کا خواب ہوتا ہے۔‘
 
image
 
وزیر اعلیٰ کی طرف سے انعام دیا گیا
خدیجہ کی بیٹی جیابھارتی بنگلورو میں کمپیوٹر سافٹ ویئر انڈسٹری میں کام کرتی ہیں۔ بیٹا پونمانیشاشا دبئی میں مکینیکل فیلڈ میں کام کر رہا ہے۔ لیکن انھیں ولوپورم میں رہنا پسند ہے۔
 
خدیجہ کہتی ہیں کہ سات سال قبل جب ان کے شوہر سلواراج کی موت ہو گئی تو انھوں نے اپنے بیٹے اور بیٹی کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے اپنے کام پر توجہ دی۔
 
’تعلیم اور روزگار ہر عورت کے لیے ضروری ہے، اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس شعبے میں کام کریں جو اسے پسند ہو۔ یہ میرے خاندان کے تعاون کی وجہ سے تھا کہ میں نے یہ کام کیا۔ میں نے وہ کام کیا جو میرے دل کے قریب تھا۔‘
 
حال ہی میں تمل ناڈو کے وزیر اعلی سٹالن نے خدیجہ بی بی کو ان کی خدمات کے لیے ایوارڈ دیا ہے۔
 
خدیجہ کی بہو مونیشا نے کہا ’میری خالہ کئی سالوں سے بہت سی غریب ماؤں کے لیے شفقت اور ہمدردی کے لیے پہچانی جاتی ہیں۔ ہم نے سنا ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ وقت گزارنا چاہتی ہیں۔‘
 
مونیشا کہتی ہیں: ’انھوں نے اپنا کام ہمیشہ ذمہ داری کے ساتھ کیا ہے۔ وہ رات 1 بجے، یہاں تک کہ 3 بجے بھی بلائے جانے پر جانے کے لیے تیار رہتی تھیں۔ اب انھیں اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیلنا چاہیے اور ان کی ہنسی میں گھرا رہنا چاہیے۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: