ٹھنڈی ٹھنڈی ہؤایں چل رہی تھی۔بادلوں کی چاندی گلے روخسار
میں تبسم پیدا کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی تھی۔پہاڑوں کا سینا چیرتے ہوئے
جھرنوں کا شور برپا ہوا تھا۔
میں نے روٹی پر دو شیامی ٹکیاں رکھی اور جھرنے کے پانی میں پیر ڈوبیبےبیٹھی
اماں کو دے دی۔بڑھاپے کی چاندی اور جھرنے کی چاندی کے ملن کا خوبصورت
نظارہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں یہ منظر دیکھ کر ہیران تھی کہ چھوڑ جانے والے ساتھ کیسے موجود ہیں؟ جو
بھی ہو مگر یہ لمحے حسین تھے۔ جھر نے کےپانی نے ہمیں کب اپنی آغوش میں لے
لیا ؟میں اور میرا بھائی (جو عمر میں مجھ سے چار سال چھوٹا ہے) اپنے پیاروں
سے بچھڑ گئے۔ایک لکڑی کا تختہ پانی میں تیر رہا تھا،جس پر ابوزر کھڑا ہوا
تھا اسنے مجھے آواز لگائی "آپی تیر کر میرے پاس آ جائے"!
ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ لکڑی کے اس ٹکڑے نے بھی ساتھ چھوڑ دیا! ہم
دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا اور پانی کی تیز دھاروں کے سہارے سفر کیا۔
اجنبی راستے ، معلوم نہ تھا اگلا موڑ کیسا آیۓگا۔ایک سرنگ جیسا راستے سے ہم
گزر رہے تھے پانی کی تیزی کے ساتھ تیرتے ہوئے ہمارے ہاتھوں میں سے ہاتھ
پھسل گیا۔
ہم دونوں بھی بچھڑ گۓ۔ پانی کی کتاریں اب ساتھ لے جا رہی تھی ۔پانی میں تیر
کر ایک بستی میں پہنچی۔ پوری بستی کے گھر ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔اس طرح
کے مکان میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ اتنے چھوٹے کمرے تھے کہ گھر میں
اگر دس فرد بھی تھے تو سبکے لیے الگ کمرے بنائے جاتے۔
میں نے کچھ مکانوں میں دیکھا سب اپنے کمررں میں ہوتے جیسے قیدی ہوتے ہیں
میں چپکے سے ایک مکان کی چھت پر گی اور اس بستی سے نکلنے کے بارے میں سوچا
۔مجھے لگا اس بستی میں انسان نہیں درندے رہتے ہیں کیونکہ ہر مکان سے عجیب
سا شور سنائی دیتا ۔ میں اپنے بھیئیا کی تلاش میں پاگل سی ہو گئی میں اسے
ڈھونڈتی ڈھونڈتی ایک نہر پر پہنچ گئی نہر کے نالے میں مجھے اس کے کپڑے
ملے۔میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔نہر اس وقت سوکھی ہوئی تھی۔میں نے آوازیں
لگائی تو کچھ اجنبی لوگ ادھر سے سامنے آۓ۔ان کا حلیہ شارابی جیسا تھا۔میں
ان کو دیکھ کر بھاگنے لگی تو وہ سب بھی میرے پیچھے بھاگنے لگے۔
تھکان کی وجہ سے چلنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔لیکن جب زندگی یا عزت داؤ پر لگی
ہو تو رفتار دوگنی ہو ہی جاتی ہیں۔ میں نے پوری طاقت سے دوڑنا شروع کر
دیا،تمام پتھروں کی ٹھوکریں کھاتے ہوئےتھک گئ قریب ہی چھپر دیکھا تو میں نے
سوچا کچھ وقت وہاں آرام کر لو ۔جب میں نے اس چھپر میں جھانکا تو وہاں ہجوم
تھا،نابالغ بچیوں کا، جوان لڑکیوں کا، ان کی آنکھوں میں مایوسی اور لحجے
میں درد تھا ۔میرے دماغ میں کئ سوال تھے ۔ مگر میں نے ان سے کچھ نہ کہا۔
اس چھپر میں کھلے روشندان کی طرف سب کی نظریں تھی میں نے آگے جاکر دیکھا
ایک لڑکی مردوں کے سامنے ناچ رہی تھی۔ میں سارا ماجرا سمجھ گئ۔ ہمیں رب کی
بارگاہ میں دعا کرنی چاہئے میں نے ان سے کہا۔ دعا کراتے ہوئے میری آنکھوں
سے زاروں قتار آنسؤں بہنے لگے۔ الفاظ بھی ہمارے درد کو بیاں کرنے سے قاصر
تھے۔ حٹکیوں سے روتے ہوۓ میرے کانوں میں اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر کے الفاظ
سنایئ دیۓ ۔آنکھ کھلی تو میں بستر پر پڑی تھی۔ فجر کی آزان ہو رہی تھی۔کہتے
ہیں اس وقت کے خواب سچے ہوتے ہیں۔
ٹھنڈی ٹھنڈی ہؤایں چل رہی تھی۔بادلوں کی چاندی گلے روخسار میں تبسم پیدا
کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی تھی۔پہاڑوں کا سینا چیرتے ہوئے خوبصورت جھرنوں
کا شور برپا ہوا تھا۔
میں نے روٹی پر دو شیامی ٹکیاں رکھی اور جھرنے کے پانی میں پیر ڈوبیبےبیٹھی
اماں کو دے دی۔بڑھاپے کی چاندی اور جھرنے کی چاندی کے ملن کا خوبصورت
نظارہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں یہ منظر دیکھ کر ہیران تھی کہ چھوڑ جانے والے ساتھ کیسے موجود ہیں؟ جو
بھی ہو مگر یہ لمحے حسین تھے۔ جھر نے کےپانی نے ہمیں کب اپنی آغوش میں لے
لیا ؟میں اور میرا بھائی (جو عمر میں مجھ سے چار سال چھوٹا ہے) اپنے پیاروں
سے بچھڑ گئے۔ایک لکڑی کا تختہ پانی میں تیر رہا تھا،جس پر ابوزر کھڑا ہوا
تھا اسنے مجھے آواز لگائی "آپی تیر کر میرے پاس آ جائے"!
ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ لکڑی کے اس ٹکڑے نے بھی ساتھ چھوڑ دیا! ہم
دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا اور پانی کی تیز دھاروں کے سہارے سفر کیا۔
اجنبی راستے ، معلوم نہ تھا اگلا موڑ کیسا آیۓگا۔ایک سرنگ جیسا راستے سے ہم
گزر رہے تھے پانی کی تیزی کے ساتھ تیرتے ہوئے ہمارے ہاتھوں میں سے ہاتھ
پھسل گیا۔
ہم دونوں بھی بچھڑ گۓ۔ پانی کی کتاریں اب ساتھ لے جا رہی تھی ۔پانی میں تیر
کر ایک بستی میں پہنچی۔ پوری بستی کے گھر ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔اس طرح
کے مکان میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ اتنے چھوٹے کمرے تھے کہ گھر میں
اگر دس فرد بھی تھے تو سبکے لیے الگ کمرے بنائے جاتے۔
میں نے کچھ مکانوں میں دیکھا سب اپنے کمررں میں ہوتے جیسے قیدی ہوتے ہیں
میں چپکے سے ایک مکان کی چھت پر گی اور اس بستی سے نکلنے کے بارے میں سوچا
۔مجھے لگا اس بستی میں انسان نہیں درندے رہتے ہیں کیونکہ ہر مکان سے عجیب
سا شور سنائی دیتا ۔ میں اپنے بھیئیا کی تلاش میں پاگل سی ہو گئی میں اسے
ڈھونڈتی ڈھونڈتی ایک نہر پر پہنچ گئی نہر کے نالے میں مجھے اس کے کپڑے
ملے۔میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔نہر اس وقت سوکھی ہوئی تھی۔میں نے آوازیں
لگائی تو کچھ اجنبی لوگ ادھر سے سامنے آۓ۔ان کا حلیہ شارابی جیسا تھا۔میں
ان کو دیکھ کر بھاگنے لگی تو وہ سب بھی میرے پیچھے بھاگنے لگے۔
تھکان کی وجہ سے چلنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔لیکن جب زندگی یا عزت داؤ پر لگی
ہو تو رفتار دوگنی ہو ہی جاتی ہیں۔ میں نے پوری طاقت سے دوڑنا شروع کر
دیا،تمام پتھروں کی ٹھوکریں کھاتے ہوئےتھک گئ قریب ہی چھپر دیکھا تو میں نے
سوچا کچھ وقت وہاں آرام کر لو ۔جب میں نے اس چھپر میں جھانکا تو وہاں ہجوم
تھا،نابالغ بچیوں کا، جوان لڑکیوں کا، ان کی آنکھوں میں مایوسی اور لحجے
میں درد تھا ۔میرے دماغ میں کئ سوال تھے ۔ مگر میں نے ان سے کچھ نہ کہا۔
اس چھپر میں کھلے روشندان کی طرف سب کی نظریں تھی میں نے آگے جاکر دیکھا
ایک لڑکی مردوں کے سامنے ناچ رہی تھی۔ میں سارا ماجرا سمجھ گئ۔ ہمیں رب کی
بارگاہ میں دعا کرنی چاہئے میں نے ان سے کہا۔ دعا کراتے ہوئے میری آنکھوں
سے زاروں قتار آنسؤں بہنے لگے۔ الفاظ بھی ہمارے درد کو بیاں کرنے سے قاصر
تھے۔ حٹکیوں سے روتے ہوۓ میرے کانوں میں اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر کے الفاظ
سنایئ دیۓ ۔آنکھ کھلی تو میں بستر پر پڑی تھی۔ فجر کی آزان ہو رہی تھی۔کہتے
ہیں اس وقت کے خواب سچے ہوتے ہیں۔ |