تحریر: سدرہ شیخ
''ماں انتظار دی سولی چڑھ گئی اے،ماں انتظار کردی مرگئی اے۔۔۔''
۔کہانی اک بوڑھی ماں کی۔۔جس کے چار جوان بیٹے تھے اور ایک سے بڑھ کر ایک
لائق فائق سوائے ایک بیٹے کے ماں کی جان بھی اس نکمے نکھٹو بیٹے میں بستی
تھی بیٹے کو شوہر کی آخری نشانی سمجھ کر سینے سے لگائے رکھتی تھی ماں کا بس
نہیں چلتا کہ وہ بیٹے کو ہر وقت اپنی آنکھوں کے سامنے رکھ لیتی۔۔
ماں کی ممتا جتنا تڑپتی بیٹا اتنا ہی دور ہوتا گیا۔۔ لاڈ پیار میں بیٹا وہ
بن گیا جو پورے خاندان میں کوئی نہ تھا۔۔
سگریٹ نوشی کرنے والا جوا کھیلنے والا غلط دوستوں کی صحبت میں بیٹھنے والا۔۔
سب بیٹے پڑھ لکھ کر گاؤں سے رخصت ہوئے ماں کو ساتھ لے جانے کا اسرار کرتے
رہے مگر ماں اس بیٹے کے لیے وہیں رک گئی۔۔
وہ بیٹا بھی جو کئی کئی دن کئی کئی رات گھر چہرہ نہ دیکھاتا تھا ماں کو۔۔
ایک دن تو حد ہی کردی اس لاپرواہ بیٹے نے تین دن تک بھی گھر نہ آیا تو ماں
ڈھونڈتے ہوئے ایک جوئے کے اڈے تک جا پہنچی بیٹے کو نشے کی حالت میں پایا
اور غمزدہ ہوگئیں نشے میں دھت بیٹے کا چہرہ اٹھایا اور کہا ماں دی یاد نء
آندی تینو۔۔؟ ماں انتظار کردی رہندی آ تو بے خبر ایتھے سارا سارا دن گزار
دیندا۔۔ مینوں اینا تنگ نہ کر پترا۔۔
اک دن آوے گا میں چلی جاؤاں گی تے تو انتظار دی سولی چڑھ جاویں گا۔۔''
اس بیٹے کو کوئی فرق نہ پڑا۔۔ دن گزرے ہفتے گزرے مہینے بھی گزر گئی۔۔
اور اس گھر میں ایک قیامت برپا ہوئی انتظار کرنے والی ماں کی آنکھیں بند
ہونے لگی بیٹے کے دیدار کو کتنے ہفتے گزر گئے مگر کوئی خیر خبر بتانے والا
نہ تھا۔۔
کچھ لمحوں میں اس لاپرواہ کی ماں نے آخری سانسیں لی اور خالق حقیقی سے جا
ملی۔۔
گاؤں میں خبر پھیلی شہر تک بیٹوں تک پہنچی سب آ گئے مگر وہ بد بخت نہ
پہنچا۔۔
کچھ کچ دیر کرکے سب ہی جنازہ سے وقت لیتے رہے بھائی کو اس ماں کے بیٹے کو
ڈھونڈنے کو سارا گاؤں نکلا۔۔ مگر وہ کہیں نہ ملا۔۔۔
پھر وہ وقت بھی آن پہنچا کہ اس ماں کو دفنا دیا گیا۔۔
اور کچھ گھنٹے بعد وہ بیٹا گھر داخل ہوا۔۔ آج کچھ خاص بات تھی کہ وہ نشے
میں نہیں تھا
ماں کی جگہ سب کو گھر دیکھ کر وہ بیچین ہوا۔۔ ماں۔۔ ماں۔۔۔ ماں۔۔۔
وہ آواز بلند چلایا۔۔
قبرستان سے آتے بھائیوں نے اسے کہا ماں نء آئے گی ہن۔۔ ہن تو انتظار کر۔۔
وہ ننگے پاؤں بھاگا۔۔ قبرستان۔۔ ماں۔۔۔ ماں۔۔
کہتا اپنی ماں کی قبر ڈھونڈنے لگا ایک تازہ پھولوں کی خوشبو نے اسے پکارا
تھا جیسے۔۔ اس نئی قبر کے پاس گرتے ہی وہ مٹی کو کھودنے لگا۔۔
ماں۔۔۔
لوگوں نے اس کے ہاتھ پکڑے پاؤں پکڑے وہ بضد تھا ماں کا چہرہ دیکھنے کے لیے
وہ رویا تڑپا چلایا۔۔ مگر ایک نہ چلی۔۔
وہ لڑکا آج بھی اس قبرستان میں جب جاتا ہے تو ایسے ہی چلاتا ہ روتا ہے۔۔
اور لوگوں کو کہتا ہے ماں باپ کہ قدر کرو۔۔
(یہ ایک حقیقی کہانی ہے۔۔۔)
|