یہ انیسویں صدی کے شب و روز کی داستاں ہے جب سرمایہ دار
اپنی عیاریوں سے غریب کا خون چوس رہے تھے۔روس کے مزدوروں سے انیس انیس
گھنٹے کام لیا جاتا تھااورمعاوضہ اتنا کم دیا جاتا کہ ان کے لیے اپنے بیوی
بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانا دشوار تھا۔فصلوں کی صورت میں سونا اگلنے والے
ہاتھ اچھے کھانے کو ترستے تھے۔تن ڈھانپنے کے لیے اچھے کپڑوں کا حصول ایک
خواب بن چکا تھا۔وہ ہاتھ جو فیکٹریوں اور کارخانوں میں ہزاروں اور لاکھوں
میٹر کپڑا بنتے،ان کی عورتیں جسم چھپانے کو ترستی تھیں۔فیکٹری میں کسی
حادثے کی لپیٹ میں آ کر یا آگ میں جل کر راکھ ہونے پر باقی مزدوروں کی زبان
یہ کہہ کر خاموش کرا دی جاتی تھی کہ’’مزدوری کرتے وقت مر کھپ جاناہی کام کا
حصہ ہے‘‘ امریکہ بھی اس ظلم و بربریت کی داستان رقم کرنے میں کسی سے پیچھے
نہیں تھا۔ چونکہ اوقات کا ر کا کوئی تعین نہ تھا اس لیے امریکہ میں بھی
سولہ سولہ گھنٹے کام لیا جاتا تھا۔مزدور کو مشین چلانے والا ترقی یافتہ
جانور سمجھتے ہوے غلام تصور کیا جاتا تھا۔فطری بات ہے کہ انسان ایک حد تک
ہی ظلم سہتا ہے اور جب ظلم بڑھتا ہے تو پھر علمِ بغاوت بلند ہوتا ہے۔یکم
مئی 1886کوشکاگومیں مزدوروں کے معاشی حقوق کی تحریک کا آغاز ہوا جو سرمایہ
داروں کو ایک آنکھ نہ بھایا۔اس تحریک کو طاقت کے زور پر ختم کرنے کی کوشش
کی گئی۔ ہڑتال کرنے اور صدائے احتجاج بلند کرنے والوں پر گولیوں کی بوچھاڑ
اور بارود کی بارش کی گئی۔ خونِ ناحق سے سڑکیں اور دیواریں سرخ ہو
گئیں۔مزدوروں کے ہاتھوں میں موجود سفید جھنڈے سرخ رنگ میں تبدیل ہو
گئے۔مزدور اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر امر ہو گئے۔آج دنیا کے مختلف ممالک
کی طرح پاکستان میں بھی اس واقعہ کی یاد میں یہ دن منایا جا رہا ہے۔پاکستان
میں مزدور پالیسی کا آغاز
1972میں ہوا اور یکم مئی کو قانونی طور پر ’’لیبر ڈے‘‘ کا خطاب دے دیا گیا۔
پاکستان آج انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن کا ممبر ہے۔جس کا مقصدمزدوروں کو ان
کے معاشی حقوق دینا اور انہیں ان کے حقوق سے آگاہ کرنا ہے۔ آج کے دن ہر سال
کی طرح ہم یہ تاثر دینے کی کوشش کریں گے کہ آج کا دن محنت کشوں کا دن ہے،
دہقانوں کا دن ہے،معماروں کا دن ہے۔ فنکاروں کا دن ہے، مزدوروں کا دن
ہے،تقریبات ہوں گی، تقاریر ہوں گی، قرادادیں منظور ہوں گی مگر سوال یہ ہے
کہ کیا آج کا مزدور اپنے حال سے مطئمن ہے؟؟؟ کیا اسے اپنا اور اپنے بچوں کا
مستقبل محفوظ نظر آتا ہے؟؟؟ کیا آج کا مزدور بھی ویسے ہی استحصال کا شکار
نہیں ہے جو 1886میں تھا؟؟؟ کیا آج بھی ملوں،فیکٹریوں اور کارخانوں میں کم
اجرت دے کر زیادہ کام نہیں لیا جا رہا ہے؟؟؟ کیا آج بھی مراعات یافتہ طبقے
نے وسائل پر غاصبانہ قبضہ کر کے مزدور کے استحصال کا سلسلہ جاری نہیں رکھا
ہوا ہے؟؟؟ کیا آج کسی مزدور کا بچہ کسی اچھے تعلیمی ادارے میں تعلیم کے
زیور سے آراستہ ہو سکتا ہے؟؟؟کیا آج بھی مزدور در در کی ٹھوکریں کھانے پہ
مجبور نہیں ہے؟؟؟ حکومت نے مزدور کی جو کم از کم اجرت مقرر کی ہے کیا وہ اس
ہوشرباء مہنگائی میں اس اجرت سے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھ سکتا
ہے؟؟؟کیا آج بھی سرمایہ دار امیر سے امیر تر اور غریب غربت کی چکی میں پس
کر غریب تر نہیں ہو رہا ہے؟؟؟ کیا آج کا مزدور اپنے حقوق سے آگاہ ہے؟؟؟ کیا
آج کے مزدور کو اس کے پورے حقوق مل رہے ہیں؟؟؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ’’یومِ مئی‘‘ بھی باقی بہت سارے ایام کی طرح ایک
تقریب اور تہوار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔جس کا مقصد صرف گفتن۔نشستن،
برخاستن بن کر رہ گیا ہے۔ یکم مئی ہر سال کی طرح آتا ہے اور اپنے ساتھ کئی
سوالات لاتا ہے جو اگلے سال تک جواب طلب ہی رہتے ہیں۔کیا اسی کا نام یوم
مزدور ہے؟؟؟طے یہ پایا تھا کہ مزدور کے اوقات کار آٹھ گھنٹے ہوں گے مگر
پاکستان سمیت اکثر ممالک میں آج بھی مزدور اپنے اس حق سے محروم ہیں،پاکستان
ایک اسلامی فلاحی جمہوری ملک ہے ا گر اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو ہر
مزدور کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھے کیونکہ اسلام نے مزدور کے حقوق کی آواز کچھ
اس انداز میں بلند کی ہے۔ارشاد نبویﷺ ہے’’تمہارے مزدور یا ملازم تمہارے
بھائی ہیں۔ پس اﷲ نے تم میں سے جس کے ماتحت اس کے کسی بھائی کو کیا ہے تو
وہ اس کو ویسا ہی کھلائے جیسا وہ خود کھاتا ہے اور ویسا ہی اس کو پہنائے
جیسا وہ خود پہنتا ہے اور اس کو وہ کام کرنے کا نہ کہے جسے کرنے کی وہ طاقت
نہیں رکھتا اور اگر ایسا کام کرنے کا کہہ دے تو خود بھی اس کا ہاتھ بٹائے‘‘
دوسری جگہ ارشاد نبویﷺ ہوتا ہے کہ ’’مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے
سے پہلے ادا کی جائے‘‘ جبکہ اسلام میں مزدور کو بھی اپنی ذمہ داری سے آ گاہ
کیا گیا ہے ارشاد خداوندی ہے ’’بہتر مزدوروہ ہے جو طاقتور اور امین
ہو‘‘کوئی ملک یا کوئی قوم اس وقت تک کامیابی و کامرانی حاصل نہیں کر سکتی
جب تک اس کا مزدور طبقہ مطمئن نہیں ہو گا۔
|