10 مئی 2023 کوایک صدی سے قائم 1935 میں بنائے گئے ریڈیو
پاکستان پشاورکی عمارت کوآگ لگا کر جلا کرنقصان پہنچایا گیا، پی ٹی آئی
چیئر مین عمران کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والوں نے ریڈیو پشاور کی
عمارت میں تباہی مچائی،احتجاج کو جمہوری معاشرہ میں اپنی آواز دوسروں تک
پہچانے کیلئے لوگوں کا بنیادی حق سمجھا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو درپیش
مسائل متعلقہ لوگوں کی کانوں تک آسانی کے ساتھ پہنچا سکیں لیکن کسی بھی
احتجاج کی آڑ میں املاک خاص طورپر قومی املاک اور قومی ورثہ جات کی تباہی
افسوس ناک ہوتا ہے ، پی ٹی آئی چیئر مین عمران کی گرفتار ی کے بعد پی ٹی
آئی کے کارکنوں نے ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع کیا جس
میں جو کچھ سامنے آیا جلا یا گیا ،تباہ کیا گیا ۔ 9 مئی کا دن پاکستان کی
سیاسی تاریخ میں کئی حوالوں سے یاد رکھا جائے گا جس طرح پاک فوج کے ترجمان
ادارہ آئی ایس پی آر نے بھی کہا ہے کہ اس دن جہاں کور کمانڈر لاہور کے گھر
میں تباہ مچائی گئی وہاں ملک کے دیگر علاقوں میں بھی قومی املاک کو شدید
نقصان پہنچایا گیا لیکن ان سب واقعات میں ریڈیو پاکستان پشاور کے اسٹیشن
میں مچائی جانے والی تباہی سب سے زیادہ افسوسناک ہے ،واقعات کے مطابق
پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران کی عدالت میں رینجرز کے ہاتھوں
گرفتاری کے بعد مسلح کارکنوں نے ریڈیو پاکستان پشاور کی تاریخی عمارت پر
حملہ کیا اور نیوز روم سمیت مختلف سیکشنوں میں تباہی مچائی، مظاہرہ کرنے
والوں نے ریڈیو پشاور کی گاڑیوں کو آگ لگائی اور سرکاری سامان لوٹ کر لے
گئے۔ ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان طاہر حسن نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ
سینکڑوں کی تعداد میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ریڈیو پاکستان پشاور کی
عمارت پر اچانک دھاوا بول دیا، مظاہرین ریڈیو پاکستان کے گیٹ توڑ کر اندر
داخل ہوئے اور نیوز روم سمیت مختلف سیکشنوں میں کئی گھنٹوں تک تباہی مچاتے
رہے،انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے شرپسندوں نے ریڈیو پاکستان پر 9 مئی کو
بھی حملہ کیا تھا اور 10 مئی کو دوبارہ حملہ کرتے ہوئے توڑ پھوڑ کی، سٹاف
پر تشدد کیا اور آگ لگائی۔ انہوں نے کہا کہ شرپسند عناصر نے چاغی یادگار
اور ریڈیو آڈیٹوریم کو بھی آگ لگا کر تباہ کیا، مختلف سیکشنوں میں آتشزنی
سے ریکارڈ اور دیگر سامان بھی جل کر خاکستر ہو گیا ہے۔
قارئین کی معلومات کیلئے واضح کرتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت
کوئی عام عمارت نہیں بلکہ یہ ایک تاریخی عمارت ہے جس میں پہلا ٹرانس میٹر
دوسری عالمی جنگ سے پہلے ریڈیو کے موجد مارکونی نے خود نصب کروایا تھا اور
چونکہ برصغیر میں اس وقت ریڈیو سیٹ دستیاب نہیں تھے جس کی وجہ سے مارکونی
نے 30 ریڈیو سیٹ بھی تحفہ میں دئے تھے ،ریڈیو پشاور اسٹیشن کے قیام کی
تفصیل کچھ یوں ہے کہ 1931 میں برصغیر کے شمال مغربی سرحدی صوبے سے تعلق
رکھنے والے سیاستدان صاحبزادہ عبدالقیوم جب گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے
برطانیہ گئے تھے اس موقع پر ان کی ملاقات ریڈیو کے موجد گوئلو مارکونی سے
ہوئی تھی اور خان قیوم نے اس ملاقات میں مارکونی سے اپنے علاقے میں ایک
ریڈیو اسٹیشن نصب کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جسے مارکونی نے تسلیم
کرکے ریڈیو پاکستان کی موجود عمارت میں پانچ کلو واٹ کا پہلا ٹرانس میٹر
نصب کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ریڈیو پشاور برصغیر پاک وہند میں قائم ہونے
والا پہلا ریڈیو اسٹیشن ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ ٹرانس میٹر نصب کرنے
کیلئے مارکونی خود پشاور آئے تھے تاہم کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ
مارکونی خود نہیں آئے تھے بلکہ مارکونی کے کمپنی کے اہلکاروں نے یہ ٹرانس
میٹر پشاور لاکر نصب کیا تھا حقیقت جو بھی ہو لیکن بات ہورہی ہے اس عمارت
کی تاریخی حیثیت کی جو ایک مسلمہ حقیقت ہے ، قیام پاکستان کے وقت ریڈیو کی
دو ہی عمارات پاکستان میں موجود تھیں یعنی ریڈیو پاکستان پشاور اور
ریڈیوپاکستان لاہور کی عمارت جو اپنی ایک الگ تاریخی حیثیت کے حامل ہیں۔
بحیثیت صحافی ریڈیو سے ہماری بھی کچھ وابستگی ہے، راقم اس وقت بھی
پختونخوار یڈیو سوات ایف ایم98 کی نشریات میں صبح کے وقت کرنٹ افیئر کے
پروگرام کی روزانہ کی بنیاد پر میزبانی کرتے ہیں اور ریڈیو پروگراموں کے
ذریعے لوگوں تک ہر روز نئی نئی معلومات فراہم کرتے ہیں کیونکہ ریڈیوکا یہی
رشتہ ہے لوگوں سے اور اسی مناسبت سے ریڈیو پاکستان سے بھی ہمارا ایک رشتہ
ہے اور یہی وجہ ہے کہ ریڈیو پشاور کی عمارت میں توڑ پھوڑ پر ہمارا دل بھی
دُکھی ہے ۔
میری طرح اور بھی بہت سارے صحافی دوست ہیں جو کسی نہ کسی صورت اب بھی ریڈیو
پاکستان پشاور سے وابستہ ہیں ان کے جذبات بھی مجھ سے مختلف نہیں اور وہ اس
بات پر رنجید ہ ہیں کہ اس سارے معاملے میں ریڈیو پشاور کی عمارت سمیت دیگر
املاک کی تباہی سے احتجاج کرنے والوں کی کون سی منشاء پوری ہوئی ،بدقسمتی
سے ہم جب بھی نجی محفلوں میں بیٹھتے ہیں تو ہر معاملے میں یورپ کی مثال
دیتے ہیں کہ وہاں اس طرح نہیں ہوتا اور وہا اُس طرح نہیں ہوتا میرا سوال یہ
ہے کہ کیا مہذب معاشروں میں احتجاج کے دوران قومی املاک کو نقصان پہنچانے
کی روش دیگر کس معاشرے میں دیکھا جاسکتا ہے سوائے پاکستان کے ؟۔
ریڈیو پاکستان پشاور پر حملہ میں مظاہرین نے کئی طرح کے نقصانات کئے ہیں جس
پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے،ڈائریکٹر جنرل طاہر حسن کے مطابق ریڈیو
پاکستان کی عمارت میں کھڑی گاڑیوں کو آگ لگاکر تباہ کیا گیا ،احتجا ج کرنے
والے لوٹ مار کرتے ہوئے سرکاری سامان ساتھ لے گئے جس میں کیمرے، مائیک اور
دیگر دفتری ساز و سامان اور آلات شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شرپسندوں کو
روکنے کی پوری کوشش کئی گئی لیکن انہوں نے عملے کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا
جس میں خواتین سمیت عملے کے کئی ارکان تشدد کی وجہ سے شدید زخمی بھی ہوئے۔
واقعہ پر جتنابھی افسوس کیا جائے کم ہے ، ہماری درخواست ہے کہ سیاسی
جماعتیں اس حوالے سے اپنے کارکنوں کی تربیت کریں بے شک وہ احتجاج کرتے رہیں
جسے وہ اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن اس احتجاج کی آڑ میں قومی املاک کی تباہی
سے گریز کیا جائے کیونکہ کبھی کبھی اس میں پشاور ریڈیو جیسی تاریخی ورثہ
جات بھی تباہ ہوجاتی ہیں جو کسی صورت اچھی بات نہیں۔
|