ارشادِ ربانی ہے:’’دیکھو ہم نے کس طرح بعض کو بعض پر
فضیلت بخشی ہے۔ اور آخرت درجوں میں (دنیا سے) بہت برتر اور برتری میں کہیں
بڑھ کر ہے‘‘۔آخرت کی دنیا پر برتری تو مسلمہ لیکن یہاں جہانِ فانی میں
درجہ بندی کا ذکر بھی ہے۔ کائنات ہستی کا حسن اس تنوع میں ہےکہ یہاں کوئی
حسن و جمال میں برتر ہے تو کسی کو صحت و تندرستی کے معاملے میں برتری حاصل
ہے۔ کسی کے مزاج میں قناعت پسندی ہے تو کوئی آرزومند ہے۔ اخلاق و عادات
میں کو ئی نرم خو تو کوئی سخت گیر ہے۔ آرام طلبی کے ساتھ سخت کوشی بھی
موجود ہے۔ انسان کے اندرون میں ان بے شماررنگوں کے علاوہ بیرونی عوامل اس
کا حسن بڑھاتے ہیں مثلاً کوئی امیر کبیر ہے تو کوئی غربت و افلاس میں مبتلا
ہے اس کے باوجود ان کی خوشی و غم کا معاملہ مالی حیثیت سے بے نیاز ہے۔ مقام
و مرتبہ کے لحاظ سے فرق پایا جاتا ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ چند لوگوں
کو اونچے عہدوں و منصب سے نواز تا ہے جبکہ بہت سارے لوگ معمولی درجات پر
فائز کیے جاتے ہیں۔ اس فرق کے باوجود ہر کس و ناکس آزمائش سے گزررہاہے ۔
فرمانِ قرآنی ہے :’’وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا‘‘۔ یعنی ان
تمام تفریق و امتیاز کے باوجود نیابت کا درجہ سب کے لیے مشترک و یکساں ہے
آگے فرمایا( لیکن اس کے باوجود):’’ تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں
زیادہ بلند درجے دیئے‘‘۔ آگے اس کی وجہ یہ بتائی گئی:’’ تاکہ جو کچھ تم کو
دیا ہے اسی میں تمہاری آزمائش کرے‘‘۔ اس دنیا میں حاصل ہونے والی ہر نعمت
چونکہ ایک امتحان ہے اس لیے خبردار کیا گیا کہ :’’ بے شک تمہارا رب سزا
دینے میں بھی بہت تیز ہے ‘‘۔ اس حقیقت کا ادراک کبر و نخوت سے محفوظ رکھتا
ہے لیکن ساتھ ہی یہ یقین دہانی کہ :’’(وہ) بہت درگزر کرنے اور رحم فرمانے
والا بھی ہے‘‘ اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کےلیے قلبی سکون کا باعث بنتی
ہے۔قرآنِ کریم کے مطابق منصبِ نبوت بھی ایک آزمائش ہے۔ فرمانِ خدا وندی
ہے:’’اے محمدؐ، تم سے پہلے جو رسول بھی ہم نے بھیجے ہیں وہ سب بھی کھانا
کھانے والے اور بازاروں میں چلنے پھرنے والے لوگ ہی تھے دراصل ہم نے تم
لوگوں کو ایک دوسرے کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنا دیا ہے کیا تم صبر کرتے ہو؟
تمہارا رب سب کچھ دیکھتا ہے‘‘۔
منصب رسالت پر فائز ہونے والے کا امتحان تو قابلِ فہم ہے لیکن یہاں ان
لوگوں کی بھی آزمائش کا ذکر کیا ہے کہ جن کی طرف نبیوں کو مبعوث کیاجاتا
تھا۔ منکرین حق چونکہ انبیاء سے مافوق الفطرت چیزوں کی توقع کیا کرتے تھے
اس لیےانہیں نبیوں کھانے پینے اور بازاروں میں چلت بھرت پر تعجب ہوتا تھا۔
اس کے جواب میں ارشادِ ربانی ہے کہ:’’اور ہم نے ان لوگوں (نبیوں) کے لئے
بھی کوئی ایسا جسم نہیں بنایا تھا جو کھانا نہ کھاتا ہو اور وہ بھی ہمیشہ
رہنے والے نہیں تھے‘‘۔ اس لیے بیجا توقعات باندھنے والوں نے اپنے آپ کو
بلاوجہ کی آزمائش میں مبتلاء کرلیا حالانکہ انسانوں کے لیے نمونہ تو انہیں
میں سے ہونا چاہیے تھا۔ انبیائے کرام تو خیر معصوم عن الخطا یعنی خطاؤں سے
پاک ہوتے ہیں لیکن دیگر رہنماوں کا معاملہ اس سے مختلف ہوتا ہے۔ ان سے جب
کوئی بشری کمزوری سرزد ہوجا تی ہے تو بیجا توقعات کے سبب آسمان سر پر اٹھا
لیا جاتا ہے۔ یہی ایک کا دوسرے کے لیے آزمائش ہونا ہے۔ عہدہ و منصب چونکہ
قائدین و متبعین دونوں کے لیے آزمائش ہے اس لیے دین حنیف میں اس سے بچنے
کی تلقین کی گئی ۔ نبی کریم ﷺ نے فر مایا:’’ لوگوں میں بہتر تم ا سے پاؤ
گے جو اس ( سیادت و امارت) کوسخت نا پسند کر تا ہو‘‘۔
ایک مرتبہ حضرت ابو ذرغفاری ؓ نے کسی منصب کی درخواست کی تو نبی مکرمﷺ نے
فر مایا : ’’اے ابو ذر !تم کمزور ہو،اور یہ منا صب (بھاری) امانت ہیں۔ اور
یہ قیامت کے دن سخت رسوائی اور پشیمانی کا باعث ہوں گے‘‘۔ حضرت ابو موسی
اشعریؓ اپنےدو چچا زاد بھائیوں کے ساتھ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے
تو ان میں سے ایک نے کہا ! مجھے ان ملکوں میں سے جو اللہ عزوجل نے آپؐ کو
عطا کیے ہیں کسی ایک کی امارت عطا فرمائیں ۔دوسرے شخص نے بھی یہی کہا۔آپ ﷺ
نے فرمایا’’بخدا ہم یہ خدمت اس کو نہیں سونپتے جو اس کی درخواست کرے اور نہ
کسی ایسے شخص کودیتے ہیں جو اس کا حریص ہو ‘‘۔ نہایت شفیق و مہربان نبی
رحمت ﷺ نے اس انکار کی وجہ یہ بتائی کہ :’’امارت طلب مت کرواس لیے کہ اگر
مانگنے سے تمہیں امارت ملے تو تم اسی کے حوالے کر دیئے جاؤگے اور اگر بغیر
طلب کیے تمہیں امارت ملےتو خدا کی جانب سے تمہاری مدد کی جائےگی‘‘۔ سخت
ترین آزمائش کے باوجود قیادت و سیادت امت کی اہم ترین ضرورت ہے اسی لیے جن
پر اس کو تفویض کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے انہیں کتاب حق میں یہ ہدایت دی
گئی ہے کہ :’’ بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد
کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ
فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ
خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔ امانتداری کی بابت نبی کریم ﷺ کی یہ
تلقین ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے کہ :’’ جو تیرے ساتھ امانت داری کا برتاؤ
کرے تو اس کی امانت ادا کر اور جو تیرے ساتھ خیانت کرے تو اس سے خیانت مت
کر‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں خیانت سے بچنے اور امانتداری کی روش اختیار
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
|