۔ (تقریر)
معزز جج صاحب، قابل قدر اساتذہ کرام، مہمانان کرام،حاضرین جلسہ اور میرے ہم
مکتب طلبہ و طالبات۔۔۔۔
السلام وعلیکم ورحمۃ اﷲ و برکا تہٗ
آج میں آپ لوگوں کے سامنے عظمت رسول ﷺ قرآ ن پاک کی روشنی میں ‘‘ اس عنوان
پر تقریر کرنے کی جسارت کررہا ہوں ۔۔۔
معزز اور قابل قدر سامعین۔!!
آج میں اﷲ جل شانہٗ کی اس نعمت کبریٰ کا ذکر کرنے جا رہا ہوں کہ جو نہ ہوتے
تو یہ بحر و بر نہ ہوتے ، جو نہ ہوتے تو یہ شجر و حجر نہ ہوتے، جو نہ ہوتے
تو یہ شمس و قمر نہ ہوتے ،جو نہ ہوتے تو شام و سحر نہ ہوتے، جو نہ ہوتے تو
یہ جن و بشر نہ ہوتے، جو نہ ہوتے تو یہ کائنات ہی نہ ہوتی۔۔۔۔
ذرا غور کریں۔۔۔۔ کس ذات گرامی کا ذکر چل پڑا ہے۔۔۔کس رسول کا تذکرہ ہو رہا
ہے۔۔۔
جی ہاں سامعین۔۔۔وہی جو محسن انسانیت ہے۔۔۔وہی جو نور ہدایت ہے۔۔۔جس کا ثنا
خواں خود ربّ العالمین ہے۔۔۔
میں فِکر مند ہوں ۔۔۔کہ۔۔۔ سرور کائنات ،آقائے نامدار ،تاجدار ِ حرم،کالی
کملی والے ،سنہری جالی والے، حضور اقدس ﷺ کے کس کس گوشے پر کلام کروں؟؟؟
میں حیرت زدہ ہوں کہ جمال نبوت کے کون کون سے پہلو کو اُجاگر کروں؟؟؟
سیرتنبی ﷺ پر کلام کرنااور صفات رسولﷺ کو شمار کرانا ہمارے جیسے عام انسان
کی بساط سے باہر ہے۔۔۔۔
سامعین کرام۔۔۔!!
تو آیئے ۔۔۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اس نظر سے دیکھتے ہیں جس
سے اﷲ تعالیٰ قرآ ن پاک سے اپنے محبوب کو ہمیں دکھانا چاہتا ہے۔غور کریں
کیسی عجیب شان سے اﷲ رب العزت اپنے محبوب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا تعارف
ہمیں کرواتا ہے ۔۔۔
کبھی شہرِ ولادتِ مصطفیٰ (مکہ) کی قسم کھا کر،
(لا اقسم بھذالبلد۔۔ )
کبھی حضور اکرم کی عمر مبارک کی قسم کھا کر
(لعمرک۔۔ )
کبھی مقام قاب قوسین او ادنیٰ پر بٹھا کر
(ثم دنی فتدلی فکان قاب قوسین او ادنیٰ۔۔)
تو کبھی ذکرِ محبوب کو انتہائی بلندی دے کر
(ورفعنالک ذکرک۔۔ )
کبھی کائناتِ ارض و سما کی ہر کثرت عطا کرکے
(انا اعطینٰک الکوثر۔۔ )
کبھی حضور اکرم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دے کر
(یداﷲ فوق ایدیھم۔۔ )
کبھی حضور اکرم پر سبقت لیجانے کو خود پر سبقت لیجانا قرار دے کر
(لا تقدمو بین یدی اﷲ ورسولہ۔۔)
کبھی حضور اکرم کی اطاعت کو اپنی (اﷲ کی) اطاعت قرار دے کر،
(ومن یطع الرسول فقد اطاع اﷲ۔۔)
کبھی حضور اکرم کی رضا کو اپنی یعنی (اﷲ کی) رضا قرار دے کر،
(واﷲ ورسولہ احق ان یرضوہ۔۔ )
کبھی حضور اکرم کو دھوکہ دینے کو خود (اﷲ کو) دھوکہ دینا قرار دے کر
(یخدعون اﷲ والذین امنو۔۔)
کبھی حضور اکرم کو اذیت دینے کو خود اﷲ کو اذیت دینا قرار دے کر
(ومن یشاقق اﷲ ورسولہ۔۔۔۔ وفی المقام الآخر۔۔۔ والذین یوذون اﷲ ورسولہ۔۔ )
کبھی حضور اکرم کو روز قیامت، بعد از خدا سب سے اعلی مقام و منصب '' مقام
محمود '' کا وعدہ دینا
(عسیٰ ان یبعثک ربک مقام محمودا۔۔)
بلکہ اﷲ رب العزت تو حضور اکرم کو ہر وقت نگاہِ الہی میں رکھنے کی بات بھی
قرآن میں فرماتا ہے۔
اﷲ پاک نے فرمایا۔۔۔وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَإِنَکَّ بِأَعْیُنِنَا۔۔
(الطُّوْر، 52: 48)
جی ہاں سامعین کرام۔۔۔۔
اور پھر اﷲ تعالی نے اپنے محبوب کو مقامِ رفعت کی اس انتہا پر پہنچا دیا کہ
جس پر اور کوئی نبی، کوئی پیغمبر، کوئی رسول نہ پہنچا، نہ پہنچ پائے گا۔ وہ
مقام ہے۔ رضائے مصطفیٰ بذریعہ عطائے الہی۔۔
اﷲ رب العزت نے اپنے محبوب کریم سے خطاب فرماتے ہوئے وعدہ فرمایا
(ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ)
اے محبوب! عنقریب یقیناً آپکا رب آپکو اتنا عطا کرے گا حتیٰ کہ آپ راضی
ہوجائیں گے۔
اﷲ اکبر۔اﷲ اکبر
معزز سامعین محترم!
ذرا سوچنے کی بات ہے۔ ہم عام مسلمان ہی کیا۔ ساری دنیا، ساری کائنات، سارے
اولیا، سارے صالحین، سارے اتقیا و اصفیا، سارے انبیاء و رسولانِ مکرم
(علیھم السلام)، رضائے الہی کے متلاشی ہیں۔
اور خود اﷲ رب العزت اپنے محبوب کی رضا کے لیے اپنی عطائیں نچھاور فرمانے
کے وعدے فرما رہا ہے۔
سچ کہا کسی شاعر نے کہ۔۔
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد ﷺ
اور پھر علامہ اقبال نے بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے سمندرِ معرفت کو کوزے
میں سمیٹا ہے
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
مہمانان کرام،حاضرین جلسہ۔۔۔۔
اِس دعا کے ساتھ رُخصت چاہتا ہوں کہ
اﷲ ہمارے دلوں میں اپنے حبیب کریمﷺ کی سچی و پختہ محبت کا ایسا بیج بوئے جس
سے ایمان کامل کا پودا اُگے، پھر ہمیں اتباعِ مصطفیٰ کی دولت عطا کرے جس سے
ایمان کا پودا تناور شجر بن جائے۔ جس کے سایہ پرُبہار سے نہ صرف ہم خود
بلکہ اور لوگ بھی فیضیاب ہوں۔ پھر اس پر معرفتِ مقام ِ مصطفیٰﷺ کا ایسا پھل
لگے کہ ہمیں اﷲ رب العزت کی رضا نصیب ہوجائے۔آمین ثم آمین
|