آج بائیس مئی کو دن بھر میں حیاتیاتی تنوع کا عالمی دن
منایا جا رہا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ کرہ ارض کی ساری رونقیں حیاتیاتی تنوع
کے دم سے ہی ہیں اور اسی نے انسانیت کی ترقی کی بنیاد بھی فراہم کی ہے۔
حیاتیاتی تنوع کا تحفظ کرہ ارض کے تحفظ میں مدد گار ہے اور بنی نوع انسان
کی پائیدار ترقی کا ضامن ہے۔ حیاتیاتی تہذیب انسانی تہذیب کی ترقی کا
تاریخی رجحان ہے ۔فطرت کے وسیع ثمرات سے اُسی صورت میں مزید فائدہ اٹھایا
جا سکتا ہے جب انسان اس کا تحفظ کرے گا بصورت دیگر انسانی بقا کے لیے بھی
چیلنجز درپیش ہیں۔حقائق کے تناظر میں گزشتہ برس دسمبر 2022 میں چین کی
قیادت میں تاریخی کھون مینگ مونٹریال گلوبل بائیو ڈائیورسٹی فریم ورک
نےاگلی دہائی اور اس کے بعد عالمی حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لئے ایک نیا
خاکہ تیار کیا تھا، جسے بین الاقوامی برادری کی جانب سے وسیع پیمانے پر
سراہا گیا ہے۔اس فریم ورک کی تشکیل کے بعد آج 22 مئی2023 کو حیاتیاتی تنوع
کا پہلا بین الاقوامی دن منایا جا رہا ہے جس کا موضوع "معاہدے سے عمل تک:
حیاتیاتی تنوع کی دوبارہ تعمیر" ہے جس کا مقصد کھون مینگ مونٹریال گلوبل
بائیو ڈائیورسٹی فریم ورک کے نفاذ کو فروغ دینا ہے۔
ویسے بھی چین کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں کیا جاتا ہے جو حیاتیاتی تنوع
کے حوالے سے وافر وسائل کے حامل ہیں جبکہ چین حیاتیاتی تنوع کنونشن میں
شمولیت اختیار کرنے والے اولین ممالک میں شامل ہے۔ چین نے ماحولیاتی تہذیب
کے حوالے سے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں زبردست کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔چین
دوسرے ممالک کے ساتھ گرین ترقی کے تجربے کے فعال تبادلے سمیت مشترکہ طور پر
عالمی حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کو فروغ دے رہا ہے اور کرہ ارض پر" زندگی کی
کمیونٹی" کی تعمیر کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔چین کا موقف ہے کہ کرہ
ارض ہمارا مشترکہ گھر ہے ، انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کے لیے
دنیا کے تمام ممالک کو مل کر کام کرنا چاہیے اور ایک خوبصورت کرہ ارض کی
تعمیر کے لیے تیزی سے کام کرنا چاہیے۔یہ بات قابل زکر ہے کہ چین نے "بیلٹ
اینڈ روڈ" گرین انٹرنیشنل الائنس بھی تشکیل دیا ہے ۔ چین اس منصوبے کے
حوالے سے متعلقہ شراکت داروں کو ٹیکنالوجی ، سہولیات اور تربیت فراہم کر
رہا ہے تاکہ مشترکہ طور پر نایاب پودوں پر تحقیق کی جا سکے اور پودوں کے
تنوع کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔چین نے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں غیر
معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور دنیا بھی چین کے تجربے سے سیکھنے کی
خواہاں ہیں یہی وجہ ہے کہ"بیلٹ اینڈ روڈ" گرین انٹرنیشنل الائنس میں اس وقت
40 سے زائد ممالک شامل ہیں جبکہ اس کی سرگرمیاں حیاتیاتی تنوع اور
ماحولیاتی نظام ، ماحولیاتی معیار میں بہتری ، عالمی موسمیاتی تبدیلی کی
گورننس اور گرین منتقلی کا احاطہ کرتی ہیں۔
چین نے قومی پارکس کے قیام اور ماحولیاتی تحفظ کی سرخ لکیر جیسے اہم
اقدامات اپنائے ہیں ، حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی تحفظ کے نظام میں روز
بروز بہتری آتی جا رہی ہے ، ریگولیٹری میکانزم کو مسلسل مضبوط کیا گیا ہے
اور متعلقہ سرمایہ کاری میں مسلسل اضافہ کیا گیا ہے ، جس سے حیاتیاتی تنوع
کا تحفظ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے. اس کے علاوہ حیاتیاتی ماحول کے
معیار کو مسلسل بہتر بنانے اورحیاتیاتی تنوع کےتحفظ اور سبز ترقی کو آگے
بڑھانے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے۔انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ حیاتیاتی
تنوع کے تحفظ کے میدان میں چین کی نمایاں کامیابیوں کو عالمی سطح پر نہ صرف
سراہا گیا ہے بلکہ چین کے ماڈل کو قابل تقلید قرار دیا جاتا ہے۔اسی طرح چین
نے حیاتیاتی تنوع کی عالمی کوششوں کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کھون مینگ
بائیو ڈائیورسٹی فنڈ کے قیام کا اعلان بھی کیا ۔یہ فنڈ ترقی پذیر ممالک میں
حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔چین واضح کر چکا ہے کہ
وہ کاربن پیک اور کاربن نیوٹرل کے اہداف کو مکمل کرنے کے لیے مختلف اقدامات
کرے گا اور معاون پالیسیاں اپنائے گا۔ چین صنعتی ڈھانچے اور توانائی کے
ڈھانچے کی تبدیلی کو مزید فروغ دیتے ہوئے پائیدار وسائل کو مستقل ترقی دے
رہا ہے ۔ صحرائی اور میدانی علاقوں میں شمسی اورہوا سے بجلی پیدا کرنے والے
منصوبوں میں تیزی لا رہا ہے۔
چین کا موقف ہے کہ دنیا چیلنجز اور امکانات سے بھرپور دور میں جی رہی
ہے۔انسانیت کے مشترکہ مستقبل کی خاطر عالمی برادری کو اعلیٰ معیار کی
انسانی ترقی کا ایک نیا سفر شروع کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنا
چاہیے۔ اس ضمن میں انسانیت اور فطرت کے مابین ہم آہنگ تہذیب کی تعمیر کی
جائے ، عالمی پائیدار ترقی میں مدد کے لیے ماحول دوست تبدیلی لائی جائے۔
عوام کی فلاح و بہبود کو مرکزی حیثیت دیتے ہوئے سماجی انصاف کو فروغ دیا
جائے۔بین الاقوامی قانون پر مبنی ایک منصفانہ اور معقول بین الاقوامی
گورننس کا نظام قائم کیا جائے۔چین کا یہ عزم ہے کہ اتحاد کی بدولت ترقی کے
ثمرات اور عمدہ حیاتیاتی ماحول کو منصفانہ طور پر مختلف ممالک کے عوام تک
پہنچانے کی کوشش کی جائے اور دنیا کو ایسا گھر بنایا جائے جہاں تمام ممالک
مشترکہ ترقی کر سکیں گے ۔
|