ارشادِ ربانی ہے : ’’ بیشک دین اﷲ کے نزدیک اسلام ہی ہے
‘‘۔ تمام انبیائے کرام پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے دین اسلام نازل فرما
کربندوں کو اتباع کی تلقین فرمائی۔یہی دین قیامِ امن و امان کا ضامن ہے ۔
اہل ایمان کی اولین ذمہ داری ہے کہ اپنی انفرادی زندگی کو اس کے مطابق
ڈھالیں اورپھر اس کو غالب و نافذ کرنے کی جدوجہد کریں تاکہ عامتہ الناس بھی
سکون و اطمینان کی زندگی گزار سکیں ۔ فی الحال عالم انسانیت کی بدامنی کا
بنیادی سبب رب کائنات کے عطا کردہ دین حنیف کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں
ناقدری و روگردانی ہے۔ آگے اہل کتاب کا دین اسلام کے ساتھ رویہ بیان اور
اس کی یہ وجہ بیان کی گئی :’’ اور اہلِ کتاب نے علم آجانے کے بعدجو اختلاف
کیا وہ صرف باہمی حسد و عناد کے باعث تھا‘‘۔ ان کے اختلاف کا سبب باہمی
ضدوحسد کے سبب جانتے بوجھتے سرکشی تھی ۔ دین اسلام میں چونکہ ایک دوسرے پر
زیادتی کی گنجائش نہیں تھی اس لیےانہوں نے انحراف کا راستہ اختیار کیا۔
کتاب حق میں ایسے لوگوں کی تنبیہ اس طرح کی گئی کہ :’’ اور جو کوئی اﷲ کی
آیتوں کا انکار کرے تو بیشک اﷲ حساب میں جلدی فرمانے والا ہے‘‘۔
رب کائنات کی اس ہدایت سے ملت اسلامیہ یہ کہہ کر صرفِ نظر نہیں کرسکتی کہ
وہ تو اہل کتاب کامعاملہ ہے۔ ہمارا اس سے کوئی سروکار نہیں حالانکہ رسول
اللہ ﷺ نے پیشن گوئی فرمائی:"تم اپنے سے پہلوں کے میٹھے اور کڑوے ہر طریقے
کو اپنا لوگے "یہ امکان امت کو ہوشیار و چوکنا کرنے کے لیے کافی ہے۔ نبی
کریم ﷺ نے مزیدیہ وضاحت بھی فرمائی کہ :’’تم اپنے سے پہلے والوں کے طریقوں
کی بالشت دربالشت اور ہاتھ در ہاتھ پیروی کروگے، یہاں تک کہ وہ اگر گوہ کے
بل میں داخل ہوئے ہوں تو تم بھی اس میں داخل ہوگے، اس پر صحابہؓ نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول! کیاپہلے والوں سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں؟ تو آپ ﷺ نے
فرمایا: توپھر اور کون؟‘‘۔ ابن عباد ؓ کی روایت کے اخیر میں یہ بھی ہے کہ
’’ ان میں سے کسی نے اگر راستوں پر شہوت پوری کی ہے تو تم بھی
کروگے‘‘۔قرآن حکیم میں ایسے بدنصیب لوگوں کو یہ وعید سنائی گئی ہے
کہ:’’اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہوگا وہ اس سے ہرگز قبول
نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا‘‘۔
نظریاتی و تہذیبی یلغار کے اس دورِ پر فتن میں امت کو بہت زیادہ محتاط رہنے
کی ضرورت ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشادگرامی ہے: ’’قیامت کے دن اعمال پیش ہوں
گے۔نماز آکر کہے گی: اے پروردگار! میں نماز ہوں، تو اللہ تعالیٰ فرمائیں
گے: تو خیر پر ہے، پھر صدقہ آئےگا اور کہے گا: اے پروردگار! میں صدقہ ہوں،
تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو خیر پر ہے، روزہ آکر کہے گا :اے پروردگار!
میں روزہ ہوں، تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو خیر پرہے، پھر اسی طرح اعمال
آئیں گے ، تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: تو خیر پر ہے، بالآخر اسلام آئے
گا اور کہے گا :اے پروردگار! آپ سلام ہیں، اور میں اسلام ہوں، تو اللہ
تعالیٰ فرمائیں گے تو خیر پرہے، تیری ہی بنیاد پر میں آج مواخذہ اور عطا
کروں گا‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دین اسلام کی ساری عبادات اور اعمال
سراپا خیرو برکت ہیں لیکن پورے دین اسلام کی اتباع و نفاذ ہی فیصلہ کن ہوگی
۔ اس کے بعد آپ ﷺ نےوہی آیت تلاوت کی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، جو
اسلام کے علاوہ کوئی اور دین کا طالب ہوگا ،اُس سے اُس کے اُس دین کو قبول
نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں خسارے میں ہوگا ۔"
فرمانِ ربانی ہے:’’ اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آ جاؤ
اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ اہل ایمان کو خطاب
کرکے انہیں اسلام میں پورا داخل ہونے کی تلقین اس بات کا اشارہ ہے کہ
دانستہ و نادانستہ طور پر دین اسلام کبھی کبھار ہماری انفرادی اور اجتماعی
زندگی سے رخصت ہوجاتا ہے۔ اسلام سے اجتناب کا امتناع بتا رہا ہے کہ کسی بھی
شعبۂ حیات سے دین کی نکاسی کے بعد وہاں خلاء نہیں رہتا بلکہ شیطان کی
پیروی ہونے لگتی ہے۔ اس شیطان کی کہ جو ہمارا کھلا دشمن ہے۔ اس کے بعد والی
آیت میں مسلمانوں کو خبردار کیا گیا کہ :’’ جو صاف صاف ہدایات تمہارے پا س
آ چکی ہیں، اگر ان کو پا لینے کے بعد پھر تم نے لغز ش کھائی، تو خوب جان
رکھو کہ اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے‘‘۔اہل کتاب کے ایک رویہ کی
سرزنش یوں بھی کی گئی کہ :’’۰۰ کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو
اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو ‘‘ اور آگے اس کا انجام یہ بتایا گیا
کہ:’’پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ
دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی
طرف پھیر دیے جائیں؟ ۰۰‘‘۔امت بالعموم فی الحال اس دوہرے عذاب کا شکار ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نگہداشت و پناہ میں رکھے۔
|