میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
" احادیث کا ہماری زندگی پر اثر " کے عنوان سے اپنی تحریر کے آج چوتھے حصے
کو لیکر حاضر خدمت ہوں یعنی حصہ چہارم میرے یاروں ان احادیث کو ترجمہ اور
مختصر تفسیر کے ساتھ تحریر کرکے آپ تک پہنچانے کا سلسلہ میں نے صرف اللہ
تعالی کی رضا کے لیئے شروع کیاہے میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اگر ان احادیث کو
پڑھکر اگر کسی ایک انسان نے بھی اپنی زندگی میں تبدیلی پیدا کرلی تو میرا
مقصد پورا ہوجائے گا اسلیئے میں آپ لوگوں سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ ان
احادیث کو پڑھکر آگے بڑھائیں تاکہ آپ کے اور میرے دونوں کے لیئے یہ کام راہ
نجات کا ذریعہ بن جائے۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آج کی حدیث ہم نے معروف کتاب مسند احمد سے
لی ہے جس کا نمبر ہے 5483 فرمان سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم ترجمہ کہ "
بندہ اس وقت تک اللہ کے عذاب سے امن میں رہتا ہے جب تک اللہ تعالی سے
استغفار کرتا رہتا ہے " اب ہم اس کےراوی اور اس کی تفسیر پر نظر ڈالتے ہیں
تو ہمیں خودبخود اندازہ ہوجائے گا کہ ہماری زندگی ہر اس حدیث کے کیا اثرات
ہیں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ اس
حدیث کے راوی ہیں اب سب سے پہلے ہم توبہ و استغفار کا مطلب سمجھ لیتے ہیں
ندامت قلب کے ساتھ ہمیشہ کے لیئے گناہ سے رک جانا توبہ ہے اور پچھلے گناہوں
سے معافی مانگنا استغفار ہے "توبہ" اصل ہے جبکہ توبہ کی طرف جانے والا
راستہ "استغفار " ہے زمین سے لیکر آسمان تک گناہوں سے بھرے ہونے کے باوجود
للہ رب العزت کی بارگاہ میں سچے دل سے ظاہری اور باطنی طور پر رجوع کرنے کو
توبہ کہتے ہیں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ رب العزت نے قران مجید کی سورہ
الفرقان کی آیت نمبر 71 میں فرمایا ترجمہ کنزالایمان کہ " جو توبہ کرے اور
اچھا کام کرے تو بیشک وہ اللہ کی طرف رجوع لایا جیسی چاہیئے تھی " حضرت
عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ " گناہوں پر نادم ہونا ہی توبہ ہے " میرے پیران پیر روشن
ضمیر حضور سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ نے توبہ کا
مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ
" اتباع نفس سے اجتناب کرتے ہوئے اس میں یکسوئی اختیار کرلو اور پھر اپنا
آپ یعنی سب کچھ اللہ کے سپرد کردو اور دل کے دروازے پر اس طرح پہرا دو کہ
اس میں احکام الہی کے علاوہ کوئی شہ داخل نہ ہو صرف وہ شہ داخل کرو جس کا
حکم ہے اور کوئی ایسی شہ داخل نہ ہو جس کا حکم نہ ہو ( عبدالقادر جیلانی
فتوح الغیب :15 )۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں توبہ و استغفار کرنے کے چار فائدے ہمارے
علماء بیان کرتے ہیں 1۔ توبہ کرنے والے کو اللہ رب العزت پسند کرتا ہے 2۔
جو شخص استغفار کو لازم کرلے اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں اور پریشانیوں میں
آسانی اور ہر غم سے خلاصی عطا کرتا ہے نیز اسے وہاں سے روزی دیتا ہے جہاں
سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا 3 ۔ استغفار کی کثرت سے دلوں کا زنگ دور
ہوجاتا ہے 4 ۔ جب بندہ کے اللہ رب الکائنات کی بارگاہ میں استغفار کرتا ہے
تو اللہ پاک لکھنے والے فرشتوں کو اس کے گناہ بھلادیتا ہے اسی طرح اس کے
اعضاء یعنی ہاتھ پائوں کو بھی بھلادیتا ہے یہاں تک کہ جب بروز محشر جب وہ
اللہ پاک کے سامنے حاضر ہوگا تو اس کے گناہ کا کوئی گواہ نہیں ہوگا۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آپ اندازہ لگایئے کہ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " خدا کی قسم میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ
تعالی کی بارگاہ میں استغفار کرتا ہوں " اب اللہ رب العزت کے حیبب علیہ
وسلم اپنے رب کی بارگاہ میں جب استغفار کرتے ہوں جو گناہوں سے بلکل پاک اور
صاف ہوں تو پھر ہم گناہ گاروں کا کیا سوال ہے فی زمانہ ہم جس طرح گناہوں کے
دلدل میں دھنستے جارہے ہیں اس کے نجات کا واحد کا ذریعہ اپنے رب کی بارگاہ
میں اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کرنا ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت نوح علی نبینا علیہ السلام کی قوم
ایک لمبے عرصے تک آپ علیہ السلام کو جھٹلاتی رہی تو باری تعالی نے ان کے
لیئے بارش کو روک دیا چالیس سال تک کے لیئے ان کی عورتوں کو بانجھ کردیا ان
کے جانور ہلاک ہوگئے جب وہ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئے تو آپ علیہ
السلام نے فرمایا کہ تم اپنے رب کی بارگاہ میں کفروشرک کے گناہ کی معافی
مانگو اس کی ذات پر ایمان لے آئو اور استغفار کرو تاکہ اللہ تعالی تم پر
اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دے جب اس باری تعالی کے حضور توبہ و استغفار
کروگے تو وہ رب بڑا غفور ورحیم ہے معاف کرنے والا ہے وہ تم پر موسلہ دھار
بارش بھی برسائے گا تمہیں مال اور بیٹوں کی نعمت سے بھی مالا مال کردے گا
تمہارے لیئے باغات اور نہریں بھی بنادے گا اس کی واحدانیت پر اقرار کرکے
صرف اس کی عبادت کرو ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں معلوم یہ ہوا کہ نفس کے ہاتھوں یا شیطان
لعین کے بہکاوے میں آکر اگر ہم گناہ کربیٹھتے ہیں تو ہمیں جلد ہی اپنے رب
تعالی سے توبہ واستغفار کرلینا چاہیئے قران مجید میں کئی جگہوں پر توبہ
واستغفار کی تلقین کی گئی ہے جیسے سورہ النساء میں فرمان خداوندی ہے ترجمہ
کہ" جو کوئی برا کام کرے اور اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے مغفرت طلب
کرے تو وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا مہربان پائیں گے"
ابن ماجہ کی ایک حدیث کے مطابق حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے
روایت ہے کہ سرکار علیہ وسلم نے فرمایا کہ " جس نے استغفار کو اپنے لیئے
ضروری قرار دے دیا (مطلب عادت بنالی ) تو اللہ رب العزت اسے ہر غم اور
پریشانی سے نجات عطا کرے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا جہاں سے اس
کا گمان بھی نہیں ہوگا "۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس حدیث کو پڑھکر اور سمجھکر ہمیں اندازہ
ہوتا ہے کہ اس کا ہماری زندگی پر کتنا گہرہ اثر ہے کیوں کہ فی زمانہ ہم
لوگوں کی اکثریت مجھ سمیت صبح اٹھنے سے لیکر رات سونے تک کے وقت میں گناہوں
کا انبار لگادیتے ہیں لہذہ جتنا توبہ و استغفار کی ضرورت ہم جیسے گناہگاروں
کو ہے اتنی ضرورت کسی کو نہ ہو اس لیئے ہمیں چاہیئے کہ ہم جلد سے جلد اللہ
تعالی کی بارگاہ اقدس میں رجوع کرکے اپنے گناہوں سے استغفار کرلیں اور
ائندہ گناہ نہ کرنے کی درخواست کریں بیشک وہ بہت معاف کرنے والا مہربان ہے
۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں " ہماری زندگی پر احادیث کا اثر "کے عنوان
سے یہ میری چوتھی تحریر ہے انشاءاللہ اگلی تحریر میں ایک نئی حدیث کے ساتھ
حاضر خدمت ہوجائوں گا اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں احادیث پڑھنے اور
سمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے آمین آمین بجاء النبی
الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
|