|
|
پاکستانی حکومت کی طرف سے آڈیو لیکس کے لیے قائم کردہ
کمیشن نے کام شروع کر دیا ہے لیکن کئی حلقے اس بات پر بھی بحث کر رہے ہیں
کہ آڈیو ریکارڈنگز کس طرح اور کن ذرائع سے حاصل کی جاتی ہیں۔ |
|
واضح رہے کہ گزشتہ کچھ ہفتوں میں سابق چیف جسٹس ثاقب
نثار اور قانون دان خواجہ رحیم، ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب، چیف جسٹس عطا
عمر بندیال کی ساس اور دیگر افراد کی آڈیو لیکس منظر عام پر آئی ہیں، جس
پر حکومت نے ایک تین رکنی کمیشن تشکیل دیا ہے، جس کی سربراہی جسٹس قاضی
فائز عیسی کریں گے، جب کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق
اور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم اختر افغان اس کے دیگر دو اراکین
ہونگے۔ |
|
ریکارڈنگ کے ذرائع |
ماہرین کا کہنا ہے کہ موبائل یا ٹیلی فون کالز کو ریکارڈ
کرنے کے مختلف ذرائع ہو سکتے ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے ماہر ڈاکٹر فہد
ابدالی کا کہنا ہے کہ ٹیلی فون اور موبائل کی ریکارڈنگ آسان ہے جب کہ واٹس
اپ کی بہت مشکل ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عام ٹیلی فون کی تو ٹیلی
فون ایکسچینج کے ذریعے ریکارڈنگ کی جا سکتی ہے۔ جب کہ موبائل کمپنیوں کے
پاس یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ موبائل فون پر ہونے والی بات چیت ریکارڈ کر
سکیں۔‘‘ |
|
|
|
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر کا کہنا تھا کہ
حکومت موبائل کمپنی سے خود بھی اس طرح کی ریکارڈنگ محفوظ کرنے کا کہہ سکتی
ہے یا وہ اپنے بندے وہاں بٹھا سکتی ہے۔ اس ماہر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط
پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عموماً حکومتیں قومی سلامتی کا بہانہ بناکر موبائل
کمپنی سے یہ ڈیٹا لے سکتی ہیں یا اپنے بندے ماںیٹرنگ کے لیے بٹھا سکتی ہیں۔
کمپنیوں کو کیونکہ بزنس کرنا ہوتا ، تو وہ قومی سلامتی کے معاملے میں نا
نہیں کہہ سکتیں۔‘‘ |
|
واٹس اپ ریکارڈنگ |
ملک میں یہ چہ مگوئیاں بھی ہورہی ہیں کہ کیا انتہائی
محفوظ سمجھی جانے والی واٹس اپ کی کالز بھی ریکارڈ کی جا سکتی ہیں۔ فہد
ابدالی کا کہنا ہے کہ پگاسسس وہ واحد اسپائی ویئر ہے جس کو کسی موبائل یا
ڈیوائس پر لگا کر ٹیکسٹ پیغامات، پاس ورڈ اور دوسری معلومات تک رسائی حاصل
کی جا سکتی ہے۔ ''لیکن پاکستان کے پاس اس اسپائی ویئر تک رسائی نہیں ہے۔ تو
پاکستان میں اس کا استعمال نا ممکن ہے۔‘‘ |
|
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ ایک افسر نے نام نہ
ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں واٹس اپ کی کالز
اور ڈیٹا کے لیے صرف متعلقہ کمپنی سے مل کر ہی یا درخواست کر کے ہی اس طرح
کا ڈیٹا حاصل کیا جا سکتا ہے اور یقیناً یہ کمپنیاں کسی بھی حکومت کو اس
طرح کی اجازت، خصوصاً تیسری دنیا کے کسی ملک کو اجازت، نہیں دینگی۔‘‘ |
|
|
|
فہد ابدالی کا کہنا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ کسی کے موبائل
کو ہیک کرلیا جائے اور پھر واٹس اپ کی فون ریکارڈنگ یا دیگر ڈیٹا حاصل کیا
جائے۔ ''یہ ممکن ہے کہ بعض اوقات آپ انجانے میں کوئی ایسا لنک کلک کر لیں
یا کوئی ایسا میسیج کھولیں، جس کو کھولتے ہی ساتھ آپ کے موبائل یا ڈیوائس
پر کوئی ایسی اپلیکیشنز انسٹال ہوجائے، جس کی وجہ سے آپ کے ڈیٹا تک رسائی
ممکن ہو۔ ایسی صورت میں آپ کے موبائل میں گفتگو کے دوران اس اپلیکیشن کا
چلنا ضروری ہے۔‘‘ |
|
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ماہر کا کہنا ہے کہ اگر
کوئی شخص اپنا موبائل کسی دوسرے شخص کو دے، تو اس موبائل میں بھی ایسی
اپلیکیشنز انسٹال کی جا سکتی ہیں، جو ڈیٹا حاصل کرنے میں مدد کریں۔ |
|
ریکارڈنگ بالکل غیر
قانونی ہے |
پاکستان میں ٹیلی فون ریکارڈنگ کا سلسلہ کوئی نیا نہیں
ہے۔ نوے کی دہائی میں نون لیگ کے رہنما سیف الرحمان کی آڈیو منظر عام پر
آئی تھی۔ بالکل اس طرح ایک جج ملک قیوم کی وڈیو بھی پی پی پی کے رہنما
آصف علی زرداری کے حوالے سے منظر عام پر آئی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ
کچھ ممالک میں عدالتی اجازت کے بعد حکومت کے ادارے قومی سلامتی اور دوسرے
معاملات پر ریکارڈنگ کر سکتے ہیں۔ لیکن لاہور سے تعلق رکھنے والے قانونی
ماہر اظہر صدیق ایڈووکیٹ کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں ایسی کسی بھی ریکارڈنگ
کی قانونی طور پر اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' چاہے وہ
خواجہ رحیم یا ثاقب نثار یا کسی اور کی ٹیلی فون پر بات چیت ہو۔ اگر اس کو
ریکارڈ کیا گیا ہے، تو وہ بالکل غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔‘‘ |
|
Partner Content: DW Urdu |