افسانہ نگار: سدرہ شیخ، لاہور
''جس رشتے میں یقین نہ ہو جن آنکھوں میں اعتماد نہ ہو اور جس دل میں محبت
نہ ہو تم ایسے رشتے پر وقت ضائع کررہے ہو اشرف۔ وہ بیوی ہی جب تمہیں خوشیاں
نہیں دہ رہی تو فارغ کردو۔''
میں دوست کے مشورے پر دنگ رہ گیا اور اس سے زیادہ حیران مجھے اشرف کی اس
ہاں نے کیا
''میں بھی سوچ رہا ہوں فارغ کردوں۔۔ جب سے شادی کی زندگی عذاب بن گئی ہے''
چائے کا کپ رکھ کر میں نے ان دونوں کی چہروں کا بغور جائزہ لیا کہ کہیں
کوئی مذاح کا کوئی ایک تاثر مل جائے مگر مجال ہو جو ایسے ظاہر کیا ہو وہ
دونوں تو سنجیدگی سے مشورہ دہ اور لے رہے تھے ایک دوسرے سے کچھ دیر خاموش
رہنے کے بعد میں نے لب کھولے اور زبان پر جو آیا بول دیا مجھے فکر نہیں تھی
دوست کی ناراضگی کی۔۔
مجھے فکر تھی تو اسکا گھر ٹوٹنے کی۔۔
''احتشام سے پوچھ لو وہ بھی یہی کہے گا۔۔ وہ تو ایسی بد زبان عورتوں کو
پسند ہی نہیں کرتا''
''اور یہ کس نے کہا تم سے۔۔؟ میں کیونکر ایسی سوچ رکھوں گا۔؟ کیا میں نے
کبھی ایسا تذکرہ کیا تھا واجد۔۔؟''
احتشام کے لہجے میں تلخی آئی تو واجد نے بات ٹال دی
''اشرف میں جو کہتا ہوں۔۔''
''اشرف۔ جب نکاح کیا تھا ہم دوستوں کو ساتھ لیکر گیا تھا بیوی پسند کرنے کے
لیے۔؟
شادی کے تین سال کب کب ہم دوستوں سے مشورہ لیا تھا۔۔؟ کب کب بیوی کے قریب
گئے تھے ہم سے پوچھ کر۔؟''
''احتشام میں لحاظ کررہا ہوں۔۔''
اشرف نے وارننگ دیتے ہوئے بات کو کاٹ دیا تھا
''وہ تمہاری بیوی ہے عزت ہے۔۔ فارغ کردینے جیسا لفظ برداشت ہورہا مگر میری
بات نہیں۔۔؟ بات کو سمجھو عورت ذات کیا اتنی ہی فالتو ہے کہ کچھ برا لگ رہا
تو فارغ کردو۔؟''
''وہ بدزبان ہے احتشام۔ یہ کتنا برداشت کرے گا۔؟''
''یہ مرد ہے جتنا برداشت کرسکتا ہے اسے اتنا تو برداشت کرنا چاہیے نہ۔؟
اشرف اگر دوسری بیوی اس سے زیادہ بدلحاظ ہوئی تھی۔؟ اسی سفر کے مسافر بنے
رہ جاؤ گے۔۔
یا تو اپنی بیوی کے رنگ میں ڈھل جاؤ یا اسے ڈھال لو۔۔''
وہ بات مکمل کرکے وہاں سے چل دیا تھا آفس بیگ پکڑے وہ اس کیفے سے باہر نکل
آیا تھا۔۔
ان تین دوستوں کی عادت تھی ویک اینڈ پر وہ ایسے ہی ملتے تھے گپ شپ لگاتے
تھے
اتنے سالوں کی دوستی میں پہلی بار اس دوست نے ایسے اپنی ازدواجی زندگی کو
شئیر کیا جو احتشام کو بالکل پسند نہ آئی۔۔
وہ گاڑی میں بیٹھے گھر کی جانب موڑ چکا تھا۔۔ راستے میں اپنی پسندیدہ
پھولوں کی دکان پر رک کر اسے نے گجرے لئیے تھے جو ہر شام لیتا تھا وہ شادی
کو ایک سال سے زائد ہوگیا تھا پر اسکے یہ شوق مدھم نہیں پڑے تھے۔۔
احتشام گھر کی حدود میں جیسے داخل ہوا چہرے پر مسکان چھا گئی تھی والدہ کا
چہرہ دیکھ کر وہ وہیں ہال میں رک گیا تھا اپنے بیڈروم میں جانے کے بجائے۔۔۔
''ہمیں کب خوش خبری ملے گی احتشام اب تو حارث بھی آگے نکل گیا ہے تمہارے
بعد شادی ہوئی تھی۔۔''
''ہاہاہا امی جان میں نے کونسا شرچ رکھی تھی آپ جانتی ہیں نہ میں ان
معاملات میں معاشرے والی سوچ نہیں رکھتا۔۔میں نازنین پر کوئی پریشر بھی
نہیں ڈالنا چاہتا۔۔''
والدہ کچھ پل کے لیے خاموش ہوگئی پر بہن چپ نہ ہوئی۔۔
''احتشام بھائی۔۔ ہم جانتے ہیں بھابھی سے آپ کی شادی پسند کی ہے پر اب تو
رشتے دار بھی پوچھنے لگے ہیں۔۔میری ساس ہر دو دن بعد پوچھتی ہیں۔۔ اور آپ
جانتے ہیں جب لوگ باتیں بنانے پر آئیں تو لحاظ بھی نہیں کرتے''
''میں ابھی بات نہیں کرنا چاہتا۔۔''
میں وہاں سے اٹھ کر بیڈروم کی جانب چلا گیا۔۔ ہمیشہ کی طرح بیگم کو شیشے کے
آگے سجتے سنورتے ہی پایا۔۔ میں نے ہر شام کجرے لانے کے وعدے کو نبھایا اور
اس نے میرے لیے ہر روز تیار ہونے کے اپنے وعدے کو۔۔۔
یہ ہمارا رشتہ تھا۔۔ اور میں بہت خوش تھا اپنی زندگی میں۔۔ شروع شروع میں
گھر والوں کو میری پسند بالکل پسند نہیں تھی کیونکہ امی اپنی بھانجی سے
میری شادی بچپن میں تہہ کرچکی تھی۔۔
جب میں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو بہت لڑائی ہوئی تھی آج بھی یاد ہے جب
میں نے اپنی ضد منوا لی تھی امی سے۔۔
اب تو میری بیگم سب کے دلوں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہورہی ہیں۔ اب
زندگی میں کوئی پریشانی نہیں سوچ رہا ہوں اماں والی بات بیگم کو بتا کر اس
رضا مندی حاصل کروں۔۔
دروازہ آہستہ سے بند کرکے جیسے ہی بیڈروم میں داخل ہوا بیگم کا مسکراہٹ
بھرا شیشے میں سنورتے ہوئے صاف دکھائی دہ رہا تھا
''نازنین۔۔۔''
''گجروں کی خوشبو بتا دیتی ہے آپ آگئے۔۔ کبھی بھولتے کیوں نہیں ہیں آپ۔؟''
ہاتھ آگے بڑھا کر اس نے جیسے ہی گجرے مانگیں میں نے ہمیشہ کی طرح خود
پہنائے اسے
ایسا کیسے ممکن تھا میں ہماری شادی کے بعد کی اس روایت کو ترک کرتا۔؟
''تم نے کبھی سجنا سنورنا چھوڑا میرے لیے۔؟ تو میں کیسے بھول سکتا
ہوں۔۔؟؟''
''یہ ہمارے رشتے کی بنیاد ہیں میری محبت آپ کی عزت۔۔''
''ارے بیگم محبت میری طرف سے ہے۔۔''
کچھ دیر دن بھر کی باتیں کرنے کے بعد رات کے کھانے کے لیے نیچے چلے گئے۔۔
اور وہی ہوا جو بات میں کرنا چاہتا تھا وہ امی نے دہرا دی۔۔ اور نازنین اس
نے بہت احسن طریقے سے امی کی بات پر حامی بھری میری یہ بھی پریشانی ختم
ہوگئی کیونکہ میں اپنی بیوی پر کسی قسم کا پریشر نہیں ڈالنا چاہتا تھا کسی
بات کے لیے پابند نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔
''یہ کیسے ممکن ہے۔۔؟ آپ ایک بار پھر سے رپورٹ دیکھیں۔۔ میم پلیز۔۔''
لیڈی ڈاکٹر نے ترس بھری نگاہوں سے دیکھا
''دیکھیں احتشام بھائی۔۔ میں فیملی ڈاکٹر ہوں میں نے ایک بار نہیں دو بار
تصدیق کروائی ہے۔۔ ایم سوری۔۔۔''
میں وہ کاغذ جنہوں نے ہماری خوشیوں کا ہمارے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا وہ
لیکر کلینک سے باہر آگیا تھا۔۔
کچھ لمحوں کے لیے دماغ ایسے سن ہو گیا میرا کہ سمجھ نہ آئی کیا کروں کہاں
جاؤں کس سے اپنا دُکھ بیان کروں۔۔ ہم دونوں تو بچے کا انتظار ایسے کررہے
تھے لمحے صدیوں جیسے لگ رہے تھے ہمیں۔۔
اور اب یہ رپورٹ میں کیسے بتاؤں گا گھر میں سب اور نازنین۔۔ وہ وہ تو
برداشت نہیں کرپائے گی۔۔ میری بیگم بہت حساس ہے وہ کبھی برداشت نہیں کرپائے
گی۔۔۔
کچھ دیر وہیں ویران جگہ بیٹھنے کے بعد میں نے ایک فیصلہ کرلیا تھا ایک حتمی
فیصلہ
اور وہ رپورٹ پھاڑ کر پھینک دی تھی
میں سچ بتا دوں گا۔۔ جو ہوگا دیکھی جائے گی۔۔ نازنین کو تکلیف نہیں دینا
چاہتا وقتی جھوٹ کم سے کم تکلیف دہ گا۔۔
''امی میں۔۔۔ میں باپ نہیں بن سکتا۔۔ اﷲ نے مجھے محروم کردیا ہے۔۔''
''کیا نازنین۔۔؟''
''نہیں۔۔ بالکل نہیں۔۔ میں ہوں جس سے یہ نعمت چھین لی گئی امی میں ہوں جس
میں یہ کمی ہے۔۔''
امی مجھے اپنے گلے لگا کر رونے لگی اور نازنین وہ ہمدردی بھری نگاہوں سے
مجھے دیکھ رہی تھی ان نگاہوں میں دنیا جہاں کی تسلیاں تھی۔۔
اور اس رات کے بعد نازنین کی محبت میرے لیے اور بڑھ گئی وہ پہلے سے زیادہ
میرا خیال رکھنے لگی تھی پہلے سے زیادہ محبت بڑھ گئی تھی
میں خوش تھا بہت خوش۔۔ پر دل میں ڈر بھی تھا۔۔ یہ وہ سچ تھا جو پتہ چلنے کے
کچھ سال تک تو محبت جگا دیتے ہے اور بعد میں ضرورت محبت سے آگے ہوتی ہے
اب دل میں ڈر تھا کہیں نازنین کے دل میں حصول اولاد کی خواہش ہماری محبت کم
نہ کردے۔۔
زندگی میں میں بیخوف جیا کیونکہ میں جانتا تھا جس بات کا ڈر زیادہ ہو وہ سچ
ہوجاتی ہے۔۔
اور ایک دن ایسا ہی ہوا۔۔
مائیکے سے واپس آکر میری نازنین میری بیگم نے وہ چیز مانگ لی جس کا کبھی
بُرے خواب میں بھی نہ سوچا ہو
''طلاق۔۔علیحدگی۔۔جدائی۔۔ ''
''نازنین آرام سے بیٹھو اور میری بات سنو۔۔''
''نہیں احتشام۔۔ آج بھی باقی دنوں کی طرح آپ مجھے راضی کرلیں گے ساتھ رہنے
کے لیے۔۔ محبت سب کچھ نہیں ہوتی احتشام۔۔''
''میرے لیے سب کچھ رہی تمہاری محبت۔۔اور اگر محبت سب کچھ نہیں ہوتی تو یہ
میاں بیوی کا رشتہ تو ہے نہ۔۔؟ نازنین ساتھ رہیں گے تو۔۔''
ہاتھ جھٹک کر بیگم نے ایک بات واضح کردی تھی کہ میرے ہنستا بستا گھر بکھرنے
کے در پہ تھا
''نازنین بات سنو۔۔''
''میں جارہی ہوں احتشام امی ابو نے کہہ دیا ہے کہ میں خلا لے لوں۔۔ میں نے
بہت سوچنے کی کوشش کی مگر میں اولاد جیسی نعمت کو ٹھکرا نہیں سکتی۔۔ میں
ماں بننے کا سُکھ حاصل کرنا چاہتی ہوں پلیز۔۔۔''
اسکی آنکھیں بھر آئی تھیں اور میں جو سر جھکائے اپنے آنسو چھپا رہا تھا اس
سے۔۔
سچائی بہت تلخ تھی بہت زیادہ میں کیسے اسے سچ بتاؤں گا۔؟
میں کیسے اسے طلاق دہ دوں۔۔؟ میری دسترس سے نکلی تو اسے یہ دنیا اسکے رشتے
دار نوچ کھائیں گے
میں کبھی طلاق نہیں دوں گا۔۔ نازنین کو اپنے ساتھ رکھوں گا سر آنکھوں پہ
بٹھا کر
''میں تمہیں طلاق کبھی نہیں دوں گا۔۔سنا تم نے ہمارے خاندان میں طلاقیں
نہیں ہوتی
نازنین بیگم۔۔''
''آپ کو اتنے مطلب پرست ہوگئے ہیں احتشام۔۔؟ کہاں گیا وہ شخص جو میری
خوشیوں کا آگے رکھتا تھا۔۔؟ میں آگے بڑھنا چاہتی ہوں۔۔ اگر آپ نہیں دیں گے
تو میں کورٹ جاؤں گی۔۔اور۔۔۔''
''اور۔۔ تمہیں لگتا ہے ایسے طلاق مل جائے گی۔۔؟؟''
میں نے سرگوشی کی تھی۔ میں اسکی آنکھوں میں دیکھنا نہیں چاہتا تھا میں اگر
اسکی آنکھوں میں دیکھ لیتا تو سچ بتاتا دیتا اور وہ سہہ نہ پاتی۔۔
''اور میں طلاق کی وجہ بھی بتا دوں گی۔۔ پھر تو ملے گی نہ۔۔؟''
''کھانا گرم کرکے لاؤ نازنین فالتو کی بحث چھوڑ دو۔۔''
میں کپڑے لیکر باتھروم چلا گیا تھا میں جانتا تھا کہ وہ باتیں کررہی۔۔ کچھ
دیر میں ٹھیک ہوجائے گی۔۔
پر میں غلط تھا جب کمر ے میں واپس آیا وہ اپنا سوٹ کیس لیکر جاچکی تھی
''احتشام بیٹا۔۔۔''
''امی میں ٹھیک ہوں۔۔ کھانا کمرے میں بھجوا دیں گی۔؟''
''ہم۔۔ ہاں میرے بچے۔۔''
ماتھے پر پیار دے کر امی چلی گئی تھی۔۔ اس وقت مجھے ہمدردی نہیں چاہیے تھی
اس وقت مجھے ترس نہیں چاہیے تھا اس وقت مجھے وقت چاہیے تھا
یہ سوچنے کے لیے کہ بیگم کو واپس کیسے لاؤں۔۔۔''
''ایک ماہ بعد۔۔۔۔''
''احتشام یہ لاسٹ ہیرنگ ہے۔۔آج خلا ہوجائے گی۔۔''
''نہیں ہوگی۔۔ نازنین سے بات کرکے میں معاملہ سلجھا لوں گا۔۔۔''
وہ پر اعتماد تھا۔۔ نازنین جیسے ہی کورٹ روم کی طرف جاتی دیکھائی دی احتشام
نے اس کا راستہ روک لیا تھا
''میں بس پانچ منٹ بات کرنا چاہتا ہوں نازنین سے''
''دیکھیں احتشام بھائی۔۔ معاملے کو اور مت الجھائے ہم نہیں چاہتے بات
لڑائی۔۔''
''بھائی آپ اندر جائیں میں ابھی آتی ہوں۔۔۔''
نازنین احتشام کا ہاتھ پکڑے دوسری طرف لے گئی تھی اسے۔۔
''دیکھیں احتشام۔۔''
''نازنین میں نے تم سے بہت محبت کی ہے یہ ہماری پسند کی شادی تھی کیا اولاد
مجھ سے زیادہ عزیز ہوگئی ہے تمہیں۔۔؟ جس سے شادی کرو گی وہ اولاد تو دہ دے
گا پر میرے جیسے محبت دہ پائے گا۔۔؟''
احتشام کی بات سن کر اس نے بیساختہ اس چہرے کی طرف دیکھا تھا پر کیا محبت
کافی تھی۔؟
''احتشام محبت کافی نہیں ہوتی۔۔ میں نے پچھلے دو سالوں میں یہ بات دیکھ لی
ہے۔۔ ''
''پر میرے لیے محبت کافی تھی تم کافی تھی نازنین۔۔''
''ایم سوری۔۔''
وہ جیسے منہ پھیر کر جانے والی تھی میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا
''میں تمہیں ہرتکلیف ہر پریشانی سے دور رکھوں گا۔۔ نازنین تم نہیں جانتی سچ
کیا ہے۔۔
سچ تمہیں توڑ دے گا۔۔''
''اب یہ مت کہنا کہ کمی مجھ میں ہے رپورٹ میں میرا نام آیا۔۔
ہاہاہا احتشام میں نہیں رکنا چاہتی۔۔ ''
وہ میرے سامنے بیرخی دیکھائے چلی گئی تھی۔۔
اور اس دن میں نے اپنی بیوی ہی نہیں اپنی محبت کو بھی کھو دیا تھا۔۔
''احتشام۔۔احتشام۔۔''
بے سد کورٹ روم سے میں باہر آگیا تھا کچھ سمجھ نہیں آئی ہوا کیا۔۔ وہ جو
کچھ منٹ پہلے میری بیوی تھی اب میری بیوی نہ رہی۔۔
اسکی آواز سن کر میرے قدم نہ رکے پرجب پیچھے سے اس نے میرا ہاتھ پکڑا تو
میں نے بے ساختہ ہاتھ چھڑا لیا اس سے۔۔
''اب تم میری محرم نہیں رہی نازنین پھر سے مت چھونا مجھے۔۔''
''احتشام مجھے حق مہر نہیں چاہیے۔۔میں۔۔''
وہ بولتی جارہی تھی اور میں گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلا گیا تھا۔۔
''حق مہر نہیں چاہیے۔۔؟ میرے دل کا کیا اس محبت کا کیا۔؟ جب میری محبت کی
لاج نہیں رکھی تو میں حق مہر کیوں رکھوں اس کا۔۔؟''
''اب تو ایک سال ہوگیا ہے نازنین کی شادی کو احتشام۔۔ کیوں تم اکیلے زندگی
گزارنا چاہتے ہو۔؟ میری بھانجی سب جانتے ہوئے بھی شادی کو مان گئی ہے۔۔''
امی کی بات سن کر ششدر رہ گیا میں جس سے مجھے محبت تھی وہ میری کمی کو اپنا
نہ سکی اور وہ خالہ کی بیٹی جس سالوں سال نہیں دیکھا بات نہیں کی وہ کیسے
مان گئی۔؟
''امی میں نہیں تیار ابھی۔۔''
''تمہیں میری قسم احتشام ایک بار میری مان لو۔۔ مرنے سے سے پہلے میں پرسکون
تو ہوں گی کہ میرے جانے کے بعد میرا بیٹا تنہا نہیں۔۔''
''اﷲ نہ کرے امی کیسی باتیں کرتی ہیں۔۔''
امی کو کرسی پر بٹھا کر پانی کا گلاس دیا تھا اور انکا ہاتھ پکڑے ساتھ ہی
بیٹھ گیا تھا
میں جانتا تھا میں امی کی دی ہوئی قسم کو رد نہیں کرسکتا۔۔
''امی میں ایک بار آپ کی بھانجی سے ملنا چاہتا ہو ''
''کیا آپ کی بھانجی لگا رکھا نورلعین نام ہے اس کا۔۔''
''نورلعین۔۔''
''آپ کو کوئی ڈپریشن ہے جو ایسے چکر لگا رہے ہیں۔۔ جو بات کرنی ہے بلا
جھجھک کریں۔۔''
''دیکھیں نورلعین۔۔میں ڈپریشن میں نہیں ہوں زیادہ اورر سمارٹ نہ بنیں۔۔''
''اچھا آپ ایک سائیکاٹرسٹ سے کہہ رہے ہیں کہ جن چیزوں کا علاج وہ کرتی ہے
وہ آپ میں نہیں۔۔''
سائیکاٹرسٹ۔۔؟؟ میں حیران ہوگیا اور ایک دم سے اسے دیکھا جسے پچھلے پندرہ
منٹ سے درگزر کررہا تھا
اور اسے دیکھنے کہ بعد ایک ہی لفظ زبان پر آرہا تھا
''خوبصورت''
پر میں اسے کہنا نہیں چاہتا تھا۔۔ میں نے نظریں پھر سے جھکا لی تھی اور وہ
بات کہہ دی تھی جو میں کہنا چاہتا تھا
''میں ایک شرط پر آپ سے شادی کروں گا اگر آپ شادی کے بعد اولاد کی ڈیمانڈ
نہیں کریں گی۔۔''
''دیکھیں مسٹر احتشام۔۔ اﷲ کے فیصلوں کے آگے کسی کی نہیں چلتی اگر شادی کے
بعد اﷲ پاک نے ہمیں اولاد جیسی نعمت سے نوازا تو آپ اورمیں کون ہوتے ہیں
ٹھکرانے والے۔۔؟''
''پر میں باپ نہیں بن سکتا۔۔۔''
''ہاہاہا یا شؤر یہ بہانے کسی اور کو بتائیں مسٹر احتشام۔۔۔''
اور وہ ہنستے ہوئے کمرے سے چلی گئی تھی میں اسے دیکھتا رہ گیا۔۔
''سائیکاٹرسٹ۔۔؟ اور میری کزن۔۔؟ کبھی معلوم ہی نہیں ہوا۔۔ یا میں نے کبھی
دلچسپی لینے کی کوشش نہیں کی تھی۔
''کچھ سال بعد۔۔۔''
''بہن میری بچی کو اپنا لیں ہم سے غلطی ہوگئی ہے۔۔ میں ہاتھ جوڑ کر معافی
مانگی ہوں۔۔
میری بیٹی کو اپنا لیں پھر سے۔۔''
رونے کی آوازوں نے احتشام کے قدم روک دئیے تھے یہ آوازیں جانی پہچانی تھی
وہ لیونگ روم میں جیسے ہی داخل ہوا اس کی نظریں ماں کے ساتھ بیٹھی اس خاتون
پر گئی جو کبھی اسکے دل میں راج کرتی تھی جو کبھی اس گھر کی ملکہ تھی اور
اب ماں کے قدم پکڑے رو رہی تھی اوپنی والدہ کے ساتھ۔۔
''آنٹی مجھے معاف کردیں۔۔''
''بیٹا تمہاری تو شادی ہوگئی تھی۔۔''
احتشام نے گلہ صاف کرکے اپنی موجودگی کا احساس دلایا تھا
''احتشام۔۔ جو میں نے آپ کے ساتھ کیا وہ میرے ہوگیا۔۔ آپ سچ کہتے تھے آپ کی
دسترس سے نکلی تو لوگ نوچ کھائیں گے۔۔
میں رسواء زمانہ بن گئی ہوں۔۔۔ بس اب اور برداشت کرنے کی ہمت ہیں مجھے اپنا
لیں۔۔۔میں واپس آگئی ہوں آپ۔۔''
ابھی وہ روتے ہوئے ان قدموں کا فاصلہ بھی ختم کرنا چاہتی تھی جب میں کچھ
قدم پیچھے ہوگیا۔۔ اس دن طلاق کے بعد وہ میرے لیے اک نامحرم بن کررہی تھی
میرا تلخ ماضی
''بابا۔۔۔ دیکھیں بھائی مجھے چاکلیٹ نہیں دہ رہے''
وہ بچی روتے ہوئے روم میں داخل ہوئی جسے اپنی گود میں اٹھا کر چپ کروانے
کروانے لگا تھا
''ہم ابھی بھائی کی پٹائی کریں گے۔۔میری گڑیا۔۔''
''بابا اپنے حصے کی چاکلیٹ کھا چکی ہے آپ کی گڑیا۔۔۔کیوں ماما۔۔۔''
''ہاہاہاہا۔۔۔ احمد بیٹا بابا کے سامنے جواب نہیں دیتے بری بات ہے۔۔''
وہ ہنستے ہوئے بیٹے کے پیچھے پیچھے کمرے میں داخل ہوئی تھی پر احتشام کے
سامنے کھڑی اس عورت کو دیکھ کر نورلعین کی مسکراہٹ سنجیدگی میں تبدیل ہوگئی
''میٹ مائی وائف نورلعین۔۔''
نازنین کی آنکھیں بھر آئی پر اسکے آنسوؤں کا مجھ پر کوئی فرق نہی پڑ رہا
تھا اگر کچھ ٹینشن ہوئی تو اپنی بیوی نور کے غصے کی
''السلام وعلیکم۔۔۔''
نور جس حسن اخلاق سے نازنین اور اسکی والدہ سے ملی تھی پھر امی سے بات کرکے
وہ بچوں کو کمرے سے لے گئی تھی
''احتشام بیٹا۔۔ میری بچی کو اپنا لو ہمیں معاف کردو۔۔''
''میں شادی شدہ ہو ں آنٹی۔۔۔''
''بیٹا نازنین کو کوئی فرق نہیں پڑے گا دوسری شادی کو بھی تیار ہے بس میری
بچی کو اپنا لو۔۔''
اس وقت نازنین کو وہ کورٹ روم یاد آگیا تھا جب وہ اس شخص کو ٹھکرا رہی تھی
اور آج وہ اس کی رحمدلی پر تھی اسکی ایک ہاں پر
''مجھے مسئلہ ہے آنٹی۔۔ میں اپنی بیوی بچوں سے اتنی محبت کرتا ہوں کہ میں
دوسری عورت اور شادی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔۔''
بات جیسے ہی ختم کی تھی نور کولڈ ڈرنک کی ٹرے اٹھائے روم میں داخل ہوئی تھی
''احتشام آپ فریش ہوجائیں تب تک ڈنر بھی تیار ہوجائے گا۔۔''
ہاں میں سر ہلائے میں وہاں سے آگیا تھا اپنے بیڈروم میں جیسے ہی داخل ہوا
اپنے دونوں بچوں کو کھیلتے دیکھ دروازہ پر ہی کھڑا ہوگیا تھا۔۔
میں دوسروں کو کہتا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے بیوی کو فارغ کرنا کوئی حل
نہیں۔۔
اور اﷲ گواہ ہے آخر تک میں نے کوشش کی۔۔ اگر میں جانے والی محبت کے انتظار
میں رہتا اور موقع نہ دیتا زندگی کو تو کیا آج میرے نصیب میں یہ خوشیاں
ہوتی۔۔؟
محبت کرنے والی بیوی اور اپنے پیارے بچے۔۔؟ ایک مکمل گھر۔۔
سچ کہتے ہیں زندگی رکنے نہیں چلنے کا نام ہے اﷲ کے فیصلے بہترین فیصلے ہوتے
ہیں۔۔
میں خوش ہوں امی نے مجھے بہت خوشیاں دہ دی اپنی بھانجی کا رشتے میرے ساتھ
کروا کر۔۔
''احتشام۔۔ایسے کیا کھڑے ہیں۔۔؟ کیا میں نے کچھ غلط کردیا آپ کو وہاں سے
بھیج کر۔۔؟؟''
''نہیں۔۔ بہت اچھا کیا بیگم۔۔ ویسے بھی میرے پاس کچھ تھا نہیں کہنے کو۔۔''
''پر میرے پاس کہنے کو بہت کچھ مسٹر احتشام۔۔۔۔''
نور کی سرگوشی پر احتشام کی سنجیدگی خوبصورت مسکان میں تبدیل ہوگئی تھی
''کہیں وہ اظہارِ محبت تو نہیں بیگم آج تک آپ نے وہ تین الفاظ نہیں کہے
مجھے۔۔۔''
''کیا اظہارِ محبت ضروری ہے۔۔؟ وہ دیکھیں ہماری محبت۔۔''
قہقہ لگاتے ہوئے نور نے جیسے ہی وہ بات کہے میں رہ نہ سکا اسکے ماتھے پر
بوسہ دیا ہاں میں سر ہلایا
''ہمم اظہارِ محبت ضروری نہیں ہے۔۔ یہ لمحات ساتھ گزرے یہ پل کافی ہیں۔۔۔''
|