پہلے انہوں نے مفت میں 10 ہزار دیے لیکن پھر٬ پاکستان میں “ آن لائن قرض “ دینے والوں کے خطرناک دھوکے

image
 
پاکستان میں اسمارٹ فون کے استعمال میں غیر معمولی اضافے کے ساتھ ساتھ پرسنل فنانس ایپس استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد بھی دوگنی ہو گئی ہے۔ تاہم غیر قانونی قرض دینے والوں کی سرگرمیاں عوام کے لیے خطرے کا سبب ہیں۔
 
پاکستان میں اسمارٹ فون کے استعمال میں غیر معمولی اضافے کے ساتھ ساتھ پرسنل فنانس ایپس استعمال کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد میں دوگنا سے بھی زیادہ یعنی 19 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ تاہم غیر قانونی قرض دہندگان کی سرگرمیاں عوام کے لیے خطرے کا سبب ہیں۔
 
پاکستان کے ایک غیر منافع بخش ادارے کار انداز کی طرف سے رواں سال کے شروع میں کروائے گئے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں اسمارٹ فون کے صارفین کی تعداد میں تیزی سے اضافے کے ساتھ ہی 2022 ء میں لگائے گئے اندازوں سے پتا چلا ہے کہ پرسنل فنانس ایپس استعمال کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد میں دو ہزار بائیس سے پہلے کے دو سالوں کے مقابلے میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
 
پرسنل فنانس ایپس فوری، 'کولیٹرل فری کریڈٹ‘ کی پیشکش کرتے ہیں۔ اس کریڈٹ کا بینکوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اس لیے اس سرگرمی میں غیر قانونی قرض فراہم کرنے والے کو صارفین کے ڈیٹا کے غلط استعمال کا موقع مل جاتا ہے۔ اس ڈیٹا کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کچھ قرض دینے والے دھمکیوں اور بلیک میلنگ سمیت جارحانہ طریقوں سے قرضوں کی وصولی کے حربے تک استعمال کرتے ہیں۔
 
image
 
قرض فراہم کرنے والوں کے خلاف شکایات
پاکستانی میں سرمائے کی منڈی اور کمپنیوں کے کاروباری معاملات کے نگران ادارے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کو رواں سال مئی تک لائسنس یافتہ ڈیجیٹل قرض دینے والوں کے خلاف 1,415 اور بغیر لائسنس والے ڈیجیٹل قرض مہیا کرنے والوں کے خلاف 181 شکایات موصول ہوئیں جس کے بعد وفاقی پولیس نے ان ایپس کی بارے میں تحقیقات شروع کیں۔ ان شکایات میں گاہکوں کو بلیک میل کرنے جیسی شکایات سرفہرست تھیں۔
 
پاکستان میں قائم ایک غیر منافع بخش ادارے 'ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن‘ کی سر براہ اور پیشے کے لحاظ سے ایک وکیل نگہت داد کے مطابق اس نوعیت کے بہت سے کیسز کے رپورٹ نہ ہونے کا بھی قوی امکان پایا جاتا ہے۔ نگہت داد کا ادارہ آن لائن ڈیٹا کے غلط استعمال کو دستاویز کرتا ہے۔ ان میں آن لائن قرضے دینے والے پلیٹ فارمز کی نگرانی بھی شامل ہے۔
 
اس ادارے نے کچھ کیسز میں قرضوں کی ایپس کی ضرورت سے زیادہ شرح سود کی وصولی سے لے کر قرضوں کی جلد واپسی کے مطالبات، صارفین کے ذاتی رابطوں کا استعمال کرتے ہوئے بلیک میلنگ کے واقعات تک تمام سرگرمیوں کی دستاویزی شکل میں ترتیب دی گئی ہے۔
 
تاہم بہت سی ایپس میں اس کے منتظمین سے رابطے کی تفصیلات شامل نہیں ہوتیں، اس طرح متاثرہ صارفین کے لیے ازالے کا حصول ناممکن ہوتا ہے۔ نگہت کے بقول، ''ناقص ڈیجیٹل خواندگی نے لوگوں کو فوری حل کا وعدہ کرنے والی ایپس کے سامنے کمزور بنا دیا ہے۔‘‘
 
بھتہ خوری
 
image
 
لاہور کی رہائشی، ایک 26 سالہ خاتون جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ اسے انہیں اس دن پر پچھتاوا ہے، جس دن انہوں نے سوشل میڈیا براؤز کرتے ہوئے خود کو ایک قرض حاصل کرنے کے خواہش مند کے طور پر رجسٹرڈ کرایا تھا۔
 
ان خاتون نے قرض کے لیے اپلائی نہیں کیا لیکن ڈپازٹ وصول کیا۔ ان کے بینک اکاؤنٹ میں 10,000 روپے جمع ہو گئے۔ اس رقم کو اُنہوں نے فوری طور پر واپس کر دیا۔
 
 بعد کا قصہ بیان کرتے ہوئے وہ بتاتی ہیں، ''میری طرف سے کسی رقم کی وصولی کا سرے سے انکار کرتے ہوئے، انہوں نے پہلے مجھ سے مسلسل رابطہ رکھا اور پھر میرے دوستوں اور خاندان کے اراکین کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ میری رابطہ فہرست تک رسائی حاصل کر کے اور بالآخر دھمکیاں دینا اور بدسلوکی تک شروع کر دی۔‘‘
 
تنگ آکر اُور دھمکیوں کا سلسلہ رکوانے کے لیے اس متاثرہ خاتون نے 40 ہزار روپے ادا کیے لیکن کالوں کا سلسلہ جاری رہا اور اُس نے بلآخر تنگ آکر اس ایپ کے منتظمین کے خلاف حکام کو شکایت درج کرائی۔
 
قرض مہیا کرنے والوں کے لیے ہدایات
ایس ای سی پی کی طرف سے اب ڈیجیٹل قرض فراہم کرنے والوں کے لیے نئی ہدایات جاری کی گئی ہیں، جن کے تحت بینکوں کے علاوہ قرض تقسیم کرنے والی مالیاتی کمپنیوں (NBFCs) کو ڈیجیٹل چینلز کے ذریعے کریڈٹ ظاہر کرنا ہوگا۔ جس میں انہیں قرض کی اصل رقم، شرح سود، فیس، سروس چارجز اور قرض کی مدت صارفین کو آڈیو یا ویڈیو اور ای میلز اور ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں مہیا کرنا ہوں گی۔
 
 ان کے لیے قرض لینے والے کے رابطوں تک رسائی پر پابندی ہوگی۔ کمیشن کے ایک اعلیٰ افسر کے بیان کے مطابق، " قرض لینے والوں کی رضامندی کے باجود بھی مالیاتی کمپنیوں کے اس متعلقہ شخص کے موبائل فون میں موجود رابطوں کی فہرست یا تصاویر تک رسائی پر پابندی ہوگی۔‘‘
 
Partner Content: DW Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: