دین و شریعت کے دو بنیادی جزو
ہیں :
1۔ ظاہری احکام جو آگے چل کر فقہ کے نام سے مدون ہوئے۔
2۔ روحانی و باطنی احکام جو دوسری صدی ہجری میں زہد و رقائق اور تصوف و
طریقت کے نام سے معنون ہوئے۔
تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیۂ نفوس اور حدیث کی اصطلاح میں احسان کہتے
ہیں۔ تصوف کے اجزائے ترکیبی عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور
دورِ صحابہ میں عملاً موجود تھے کیونکہ یہ سب قرآن و سنت کی ابدی تعلیمات
کا حصہ ہیں۔ تصوف اِسلام کی روحانی اور باطنی کیفیات اور روحانی اقدار و
اطوار کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ دینِ اِسلام کی علمی، فکری، عملی، معاشرتی
اور تہذیبی و عمرانی و غیرہم تمام جہتوں میں اخلاص و احسان کا رنگ
دیکھناچاہتا ہے۔ یہ اِنسان کے جسم و رُوح اور اِس کے وجود کی تمام پرتوں پر
جاری و ساری ہے۔ تصوف کی تمام تر اصطلاحات قرآن و حدیث سے ماخوذ و مستنبط
ہیں۔ اِس حوالے سے ہماری کتاب ’’ حقیقتِ تصوف‘‘ کا مطالعہ فائدہ مند رہے گا۔
یہاں صرف اختصار سے چند نکات پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
ائمہ تصوف نے اپنے تمام معتقدات، تصورات اور معمولات کی بنیاد قرآن و سنت
کو ٹھہرایا ہے، حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
ایں راہ کسے باید کہ کتاب بر دست راست گرفتہ باشد و سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم بردستِ چپ، و در روشنائی ایں دو شمع مے رود، تانہ در مغاک
شبہت اُفتد نہ در ظلمت بدعت.
’’یہ راہ یعنی تصوف صرف وہی پا سکتا ہے جس کے دائیں ہاتھ میں قرآنِ حکیم
اور بائیں ہاتھ میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو اور وہ اِن دو
چراغوں کی روشنی میں راستہ طے کرے تاکہ نہ شک و شبہ کے گڑھوں میں گرے اور
نہ ہی بدعت کے اندھیروں میں پھنسے۔‘‘
فريد الدين عطار، تذکرة الأولياء : 9
سلسلہ عالیہ چشتیہ کے نامور شیخ حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی فرماتے ہیں :
مشربِ پیر۔ ۔ ۔ حجت نمی شود۔ دلیل از کتاب و حدیث مے باید۔
’’شیخ طریقت کا مسلک حجت نہیں ہے دلیل قرآن و حدیث سے ہونی چاہئے۔‘‘
عبد الحق، اخبار الاخيار : 81
تمام اکابر مشائخ و اولیاء کے نزدیک شیخِ طریقت ایسا ہونا چاہئے جو شریعت،
طریقت اور حقیقت کے احکام و آداب و شرائط کا عالم ہو کیونکہ اگر وہ عالم
ہوگا تو خود کسی ناجائز چیز کے بارے میں نہیں کہے گا۔
روحانیت قال سے نہیں حال سے عبارت ہے۔ یہ علمی نظریہ کا نام نہیں بلکہ عملی
تجربے کی چیز ہے اور یہ تجربہ بھی مادی نہیں سراسر باطنی ہے۔ روحانیت عقل و
خرد اور دید شُنید سے حاصل ہونے والی چیز نہیں۔ یہ احساس، وجدان اور قلب و
باطن کی راہ سے نصیب ہوتی ہے۔ یہ خارج سے نہیں، باطن سے پھوٹتی ہے۔ یہ
تقریر و ابلاغ کے حسی و مادی تاروں سے نہیں، گرمی انفاس کی پاکیزہ موجوں سے
پھیلتی ہے۔ یہ الفاظ کے قالب میں نہیں سماتی بلکہ احساس کی گہرائیوں میں
اُترتی ہے۔ روحانیت کہنے سننے کی چیز نہیں، سیکھنے اور برتنے کی چیز ہے۔ یہ
ایک حقیقت ہے جو اِنسان بطریقِ سلوک و تصوف پا لیتا ہے اور شکوک و شبہات سے
محفوظ و مامون ہو جاتا ہے۔ یہ تزکیہ نفس، تصفیہ باطن اور پاکیزگی نفس کا
الوہی منہاج اور وصول الی اللہ کا باطنی و پوشیدہ راستہ ہے۔
شریعت و طریقت کا باہمی ربط و تعلقیہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ دینِ
اسلام میں اصل شریعت ہے اور اِس کی فرع طریقت ہے۔ شریعت سرچشمہ و منبع ہے
اور طریقت اِس سے نکلا ہوا دریا ہے۔ طریقت کو شریعت سے جدا تصور کرنا غلط
ہے۔ شریعت پر طریقت کا دار و مدار ہے۔ شریعت ہی معیار ہے۔ طریقت میں جو فیض
ہے اور جو کچھ منکشف و مکشوف ہوتا ہے وہ شریعت ہی کے اِتباع کا صدقہ ہے۔ پس
جو شخص طریقت، معرفت، حقیقت، سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور
شریعت مطہرہ کو جھٹلائے، مخالفت کرے اور رد کرے وہ بے دین ہے۔ اس کا حقیقت
کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس طریقت میں شریعت کا پاس و لحاظ نہ ہو وہ بے
دینی ہے اور جس شریعت کے ساتھ طریقت و معرفت نہ ہو وہ بھی ناقص اور ادھوری
ہے۔ ظاہری اعمال کے ساتھ باطنی پاکیزگی کا حسین امتزاج ہی ہمارا نکتۂ
امتیاز ہے۔
اہل اللہ کے دستِ حق پرست پر بیعت کرنا مسنون و مستحب ہے لیکن اِسی پر
اکتفا کر لینا اور اوامر و نواہی کی پابندی نہ کرنا قطعاً درست نہیں۔
اصلاحِ باطن کے لئے بیعت کرنا مسنون ہے لیکن فرائض و واجبات اور سنن پر عمل
دین کی بنیادی ضرورت ہے۔ بیعت کے لئے ضروری نہیں کہ رسماً کسی کے ہاتھ میں
ہاتھ دیا جائے بلکہ بیعت کا اصل مقصد دین پر استقلال کے ساتھ کاربند رہنے
کا عہد ہے۔ شیخِ کامل کی معاونت اور رہنمائی سے نفس و شیطان کے خطرناک
حملوں کا مؤثر دفاع اور عبادت و ریاضت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی قربت و محبت
کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ یہ مقاصد اگر کسی اجتماعی نظم میں آکر حاصل ہو جائیں
تو باطن کی اصلاح کا یہ طریقہ بھی اختیار کرنا درست ہے۔ اس سے مقصود اصلاحِ
نفس اور تزکیہ باطن ہے جس کا حصول اُستاد سے حاصل ہو، باپ سے، شیخ سے یا
کسی اجتماعی نظم سے جملہ ذرائع درست ہیں، لیکن بیعت کو رسم و رواج یا عادت
بنا لینا مقصودِ طریقت نہیں۔ کسی بھی سلسلۂ طریقت کو اختیار کیا جاسکتا ہے
بشرطیکہ مندرجہ بالا مقاصد حاصل ہوں ورنہ تصوف و طریقت کے نام پر آج کل بے
شمار کاروباری قسم کے لوگ اپنی اپنی دکانیں کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسے
لوگوں سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔ بے عملی، بے ادبی اور حرصِ جاہ و مال سے
بچ کر ہی اصلاحِ نفس ممکن ہے۔
خانقاہی نظام اور عہدِ جدیددینِ اِسلام کی ترویج و اشاعت کا کارنامہ بیشتر
ممالک میں صوفیائے کرام ہی کی تبلیغی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ انہی کی مساعی
جمیلہ سے ہر سُو اِسلام پھیلتا چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں
اولیاء اللہ اور اربابِ طریقت کی والہانہ عقیدت و محبت اور اکرام و احترام
کا جذبہ بغائت درجہ موج زن ہے۔ خانقاہی نظام ایک ایسا ادارہ ہے جہاں اِنسان
کو مخلص، متقی، خدا ترس اور مخلوقِ خدا کا حقیقی اور سچا خیر خواہ بنانے کی
تربیت دی جاتی تھی اِس نے برصغیر پاک و ہند کی تہذیبی، سماجی، معاشرتی،
سیاسی، معاشی اور اخلاقی اقدار پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ یہ خانقاہی نظام
ایک عرصہ تک اپنی انہی معیاری بنیادوں پر اُستوار رہا جن پر اِسے قائم کیا
گیا تھا لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ تعلیم و تربیت کا یہ معیاری نظام رُو
بہ تنزل ہوتا چلا گیا۔
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ کوئی ادارہ اور نظام کتنا ہی مثالی کیوں نہ ہو
بتمام و کمال عروج پر قائم نہیں رہ سکتا۔ زمانہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں
کے ساتھ اُسے کچل کر رکھ دیتا ہے۔ یہی حال خانقاہی نظام کے ساتھ بھی ہوا۔
شریعت اور طریقت کے مابین تفریق، شطحیات و انحرافات، ترکِ دنیا، مجاز پرستی
کے ذریعے کئی خرافات اور سنت کے خلاف کئی اُمور ’’روحانیت‘‘ کے نام پر اِس
میں در آئے جس کے باعث اس میں پہلے جیسا اخلاص، تقویٰ، اطاعت، خوفِ خدا اور
بندگیء الٰہی کی روایت برقرار نہ رہی۔ لیکن اِس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت
تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ خود خانقاہوں کے اکابر شیوخِ طریقت نے اِن تمام
اُمور کا سختی کے ساتھ نوٹس لیا اور اِس کی اصلاح و تجدید کی کوششیں شروع
کر دیں۔ یہ مساعی جمیلہ جارحانہ کی بجائے خیر خواہانہ تھیں۔ تنقیح و تصریح
اور تجدید و احیاء کی مؤثر آواز بلند ہوتی رہنی چاہیے تاکہ اِس نظام کو
مثبت انداز کی تعمیری تنقید کے ذریعے خرافات سے پاک کیا جاتا رہے۔ لیکن چند
ایک خرابیوں اور خلافِ سنت اُمور کو آڑ بنا کر پورے نظام کو فاسد اور باطل
بنا دینا کہاں کی دانشمندی اور دین پروری ہے۔ یہ مسلمہ امر ہے کہ اِن خلافِ
شرع اُمور کو کبھی بھی مسلمہ اربابِ طریقت کی تائید اور تحسین حاصل نہیں
ہوئی۔ ہم بھی نظامِ خانقاہی کے احیاء کے بھرپور حامی ہونے کے ساتھ اس کی
اصلاح کے داعی اور منکرات کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ |