ارشادِ ربانی ہے:’’ اللہ وه ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو
پیدا کیا ہے اور آسمانوں سے بارش برسا کر اس کے ذریعے سے تمہاری روزی کے
لیے پھل نکالے ہیں اور کشتیوں کو تمہارے بس میں کردیا ہے کہ دریاؤں میں اس
کے حکم سے چلیں پھریں۔ اسی نے ندیاں اور نہریں تمہارے اختیار میں کردی
ہیں۔اسی نے تمہارے لیے سورج چاند کو مسخر کردیا ہے کہ برابر ہی چل رہے ہیں
اور رات دن کو بھی تمہارے کام میں لگا رکھا ہے‘‘۔حضرتِ انسان کو رب کا ئنات
نے یہ بیش بہا نعمتیں بن مانگے عطا فرمادیں۔ اس کے بعد فرمایا :’’ اور اس
نے تمہیں ہر وہ چیز عطا کر دی جو تم نے اس سے مانگی، اور اگر تم اللہ کی
نعمتوں کو شمار کرنا چاہو (تو) پورا شمار نہ کر سکو گے‘‘۔اللہ تبارک و
تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کا احاطہ کرنا ناممکن ہے اور انسانوں کی ہر جائز
مراد کسی نہ کسی انداز میں پوری کردی جاتی ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے ہم میں سے
اکثر لوگ نعمتوں کی محرومی پربجا طور پر روتے اور گڑ گڑاتے ہیں لیکن جب اسے
پھر سے نواز دیا جائے تو ناشکری کرنے لگتے ہیں ۔کتاب اللہ میں اس کی یہ وجہ
بتائی گئی ہے کہ :’’ ، بیشک انسان بڑا ہی ظالم بڑا ہی ناشکرگزار ہے‘‘۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں ، آسائشوں ، آسانیوں اور راحتوں کی
ناقدری ان سے محرومی کا سبب بن جاتی ہیں۔ ان محرومیوں سے نجات کا نسخۂ
کیمیا ان کی قدر دانی ہے۔ اس سے برعکس اللہ تبارک و تعالیٰ ناشکری کو سخت
ناپسند کرتا ہے اور وہ اس کی ناراضی کا سبب بنتا ہے ۔ فرمانِ خداوندی ہے :
’’پس تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو
اور میری ناشکری نہ کرو‘‘۔ شکر کے معنیٰ اللہ کی عطاکردہ قوتوں اور
توانائیوں کو اس کی اطاعت میں صرف کرنا ہے۔ خداداد صلاحیتوں کو اللہ کی
نافرمانی میں صرف کرناکفران نعمت ہے۔ ناشکری پر جہاں عذاب شدید کی وعید ہے
وہیں شکرگزاری میں مزید احسانات کی نوید بھی سنائی گئی ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کے
حوالے سے ارشادقرآنی ہے :’’یاد کرو جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا "اللہ کے
اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے اس نے تم کو فرعون والوں سے
چھڑایا جو تم کو سخت تکلیفیں دیتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کر ڈالتے تھے
اور تمہاری عورتوں کو زندہ بچا رکھتے تھے اس میں تمہارے رب کی طرف سے
تمہاری بڑی آزمائش تھی‘‘۔
امت مسلمہ دنیا کے مختلف ممالک میں اس طرح کی آزمائش سے دوچار ہوتی ہے
لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و احسان سے حالات بدلتے بھی ہیں ایسے میں
اہل ایمان کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ :’’ اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار
کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور
اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے" ۔ ہم میں سے کون ہے جو اللہ
کی سزا سے بچنا نہ چاہتا ہو اور مزید نعمتوں کا خواستگار نہ ہو لیکن اس کا
حقدار بننے کے لیے ہمیں اپنے آپ کو شکرگزاری کی صفت سے متصف کرنا ہوگا
تبھی اس وعدۂ حق کے ہم حقدار بن سکیں گے ۔ یوگی دور میں اعظم خان کا
اشتعال انگریز تقریر معاملے میں بری ہوجانا رب کائنات کا ایک عظیم احسان ہے
کیونکہ اس کے سبب انہیں اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار د یا گیا تھا۔ نچلی
عدالت نے جن شواہد کی بنیاد پر فیصلہ سنایا تھا انہیں ایم پی۔ ایم ایل اے
عدالت نے مسترد کر دیا۔ اس موقع پر لازم ہے کہ خالق ِ ارض و سما کا شکر بجا
لایا جائے جس نے نہایت نامساعد حالات میں اپنے اذنِ خاص سے یہ اہم کامیابی
عطا فرما کریہ پیغام مسرت دیا ہے کہ؎
کل جو تھا وہ آج نہیں جو آج ہے کل مٹ جائے گا
روکھی سوکھی جو مل جائے شکر کرو تو بہتر ہے
فرمانِ قرآنی ہے:’’ تم کو جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ ہی کی طرف سے ہے پھر
جب کوئی سخت وقت تم پر آتا ہے تو تم لوگ خود اپنی فریادیں لے کر اُسی کی
طرف دوڑتے ہو مگر جب اللہ اس وقت کو ٹال دیتا ہے تو یکا یک تم میں سے ایک
گروہ اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو (اس مہربانی کے شکریے میں) شریک کرنے لگتا
ہے‘‘۔ بدقسمتی سے اس رویہ کا مشاہدہ بارہا ہوتا ہے کہ اول تو امت اللہ کی
نعمتِ خاص کی قدر دانی نہیں کرتی اور اگر کرتی بھی ہے تو اسے اللہ تبارک و
تعالیٰ کی بخشش کے بجائے دوسری ہستیوں، حالات یا اپنی ذات سے منسوب کردیتی
ہے حالانکہ ایسے مواقع پر مومنانہ طرز عمل کا درس حضرت داؤد ؑ کے ایک قول
میں ملتا ہے۔ انہوں نے کہا ' اے رب! میں تیرا شکر کس طرح ادا کروں؟ جب کہ
شکر بجائے خود تیری طرف سے مجھ پر ایک نعمت ہے '۔ اس کے جواب اللہ تعالٰی
فرماتا ہے ' اے داؤد اب تو نے میرا شکر ادا کر دیا جب کہ تو نے اعتراف کر
لیا کہ یا اللہ میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہوں ' ۔ اس طرح کی
احسانمندی کا انعام یہ قرآنی بشارت ہے کہ:’’آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ
تمہیں خواہ مخواہ سزا دے اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر
چلو۔ اللہ بڑا قدر دان ہے اور سب کے حال سے واقف ہے‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ
ہم سب الٰہی نوازشوں کی قدردانی کرنے والا بنائے اورشکر واحسانمندی کی
توفیق عطا فرمائے۔
|