فرد اور معاشرے کیلئے سب سے اہم جو شعبے ہوتے ہیں وہ ہے
علم و دانش اور اقتصاد۔ یہ دونوں شعبے ایک دوسرے کے بغیر بیکارہیں۔ البتہ
اگر ان دونوں میں بھی سب سے اہم کو منتخب کیا جائے تو وہ علم و دانش ہوتا
ہے۔ علم و دانش ہی کے ذیل میں مذہب بھی آتا ہے اور دیگر تمام سماجی شعبہ
جات اور ان کی ذیلی شاخیں۔
لہذا سماجی تجربات سے ہم سیکھتے ہیں کہ اگر فرد یا معاشرے میں علم و دانش
جس کا سب سے واضح مظہر مذہب ہوتا ہے توانا اور حکمت آمیز نہیں ہے تو سماجی
ہرج و مرج پیدا کرتا ہے۔ خواہ وہ سیاسی ہو، اقتصادی ہو، ثقافتی و تہذیبی
ہو، وغیرہ۔ عائلی زندگی میں بھی علم و دانش مذہب سے جڑے بغیر تکبر اور خود
خواہی میں مبتلا کرتا ہے اور یہ امر بھی ظلم و سفاکیت کا باعث قرار پاتا
ہے۔ جدید دور کے مغربی معاشرے اس کی مثال ہیں۔ بعض جدید مغربی مفکرین
پاکستان کے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے " دھشت گردی، کرپشن، غربت، صنفی عدم
مساوات ، مذہبی انتہاپسندی" کو پاکستان کے اولین مسائل میں شمار کرتے ہیں۔
مگر بطور دیانت دار عالم کے ہم ان تمام مسائل کو جڑ نہیں بلکہ پھل قرار
دیتےہیں جس کے تناظر میں اصل مسائل وہ ہیں جن کا ہم نے ابتداء میں ذکر کیا
باقی تمام جزئی مسائل اصل مسائل کے پھل ہیں۔ قرآن مجید اور روایت کے مطالعے
سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر طرح کے سماجی مسائل کی ابتداء اقتصاد و معیشت
میں بددیانتی سے ہوتی ہے، اقتصادی نظام یا اقتصادی اصول جب حکمت و عدل سے
دور ہوتے ہیں تو ایک عام انسان اور سادہ سماج کیلئے ہر طرح کی مصیبت کے
دروازے کھل جاتےہیں۔ بے شک اقتصادی اصول طے کرنے والے عام لوگ نہیں ہوتے
بلکہ معاشرے کے اقتصادی اشرافیہ ہوتی ہے جن کے کنٹرول میں کرنسی، مارکیٹ
اور دیگر اقتصادی ادارے ہوتےہیں۔ اور یہیں سے اقتصادی اشرافیہ جب لالچ اور
ہوس میں مبتلا ہوجاتی ہے تو معاشرے کا ہر شعبہ متاثر ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے
پر اگر معاشرے میں روحانی اور حکیمانہ اشرافیہ ہے جو عدل و عدالت، انسان
دوستی، خدا پرستی، خلق دوستی وغیرہ کے عملی اصولوں پر یقین کرتی ہے تو
اقتصادی اشرافیہ اپنے پست مادی مفادات کے حصول میں رکاوٹ محسوس کرتی ہے۔
روحانی اشرافیہ پر عوام کا اعتماد کا معنیٰ یہ ہوتا ہے کہ عوام مادی دنیا
کو اہمیت نہیں دیتی بلکہ مذہبی اور روحانی تعلیمات کے تحت الہٰی غیبی
طاقتوں کو اپنی محنت اور کاوشوں کے ساتھ قرار دیتی ہے۔ ہر شہ کو خود کے
کنٹرول میں کرنے کی خواہاں نہیں ہوتی جیسے کہ اقتصادی اشرافیہ کے سیاسی ذہن
ہوتےہیں۔ بلکہ اپنی معاشی جدوجہد کے ساتھ خدا اور الہٰی طاقت کو اپنی
کامیابی کا اولین وسیلہ قرار دیتی ہے۔ تاریخی تجربات کی روشنی میں جو خود
قرآن کریم اور روایات سے بھی واضح ہے اور جدید دور کی تاریخ بھی اس امر کی
گواہ ہے کہ مذہب اور علم و دانش ہی ہے جو معاشروں کو اقتصادی پابندیوں اور
معاشی اشرافیہ کی پیدا کردہ مشکلات و مصائب کے مقابلے پر ہمت و حوصلہ دیتا
ہے نیز اقتصادی اشرافیہ سے مقابلے کرنے کی جراءت اور بے باکی بھی عطا کرتا
ہے۔ لہذا یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہر طرح کا ہرج و مرج دنیا پرستی سے شروع
ہوتا ہے اور ہر طرح کی فضیلت اور ترقی و سعادت علم و حکمت مذہب کی مرہون
منت ہوتی ہے۔ لہذا جب تک کوئی بھی فرد یا معاشرہ مذہبی تعلیمات و اقدار کو
اہمیت نہیں دے گا اس کی ہر طرح کی مادی ترقی پائیدار نہیں ہوتی۔ جب کہ مذہب
اور علم و دانش کی چھتری تلے جو بھی قدم اٹھایا جاتا ہے اگر اس میں جھول
بھی ہوتا ہے تو ایک وقت آتا ہے کہ ہمت و حوصلے سے کی جانے والی جدوجہد اپنے
ثمرات حاصل کرتی ہے اور یہ ترقی ہمیشہ رہنے والے اور پائیدار ہوتی
ہے۔اقتصادی اشرافیہ جب سیاست میں آتی ہے تو صرف ذاتی اقتصادی طاقت میں
اضافہ چاہتی ہے اور جب حکیمانہ، دانشورانہ مذہبی اشرافیہ سیاست و قیادت میں
قدم رکھتی ہے تو سماجی بہبود اور سماج کی دنیوی اور اخروی فلاح کے ساتھ آتی
ہے۔ البتہ بظاہر جہاں جہاں مذہبی افراد کرپشن اور بددیانتی میں ملوث پائے
جاتے ہیں اس کے پیچھے اقتصادی اشرافیہ کی مذہبی اشرافیہ کی معاشی کمزوریوں
سے فائدہ اٹھانا شامل ہوتا ہے اور اس مورد میں مذہبی افراد کے ایمان کی
گراوٹ بھی شامل ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر اور جوہری تناظر میں مذہبی دانش اور
حکمت ہر طرح کی سعادت، خوشبختی اور مسرت سے بھرپور ہوتی ہے۔ لہذا خالق کے
اصولو ں سے بغاوت نہ صرف ناپائیدار دنیا کا پیش خیمہ ہوتی ہے بلکہ آخرت بھی
افسوس و یاس کا مظہر بنتی ہے۔
|