محمد علی جناح ٭٭٭قسط دوم٭٭٭سیاست کا آغاز اور انگریز سرکار و گاندھی سے اِختلاف

پاکستا ن کے سربراہان ِمملکت

محمد علی جناح

گورنر جنرل قائد ِاعظم محمد علی جناح (1876 ء۔1948 ء)
تحقیق وتحریر:عارف جمیل

سیاست کا آغاز اور انگریز سرکار و گاندھی سے اِختلاف٭قسط دوم٭

دسمبر 1906ء میں کلکتہ میں آل انڈیا نیشنل کانگرس کا جو اجلاس منعقد ہوا اسکی صدارت گرینڈ اولڈ مین انڈیا دادا بھائی نوروجی نے کی۔ محمد علی جناح نے اُن سے لندن میں تعلقات کی بنا و مشورے سے کانگرس میں شمولیت اختیار کر لی۔ محمد علی جناح نے اس اجلاس میں تقریر بھی کی جس میں وقف الاولاد کی تاریخ پر قانونی نکات کے ساتھ مسلمانوں کی حمایت کی۔ اس دوران دسمبر1906ء میں نواب سلیم اللہ خان آف ڈھاکہ کے زیر ِسایہ ڈھاکہ میں مسلمانوں کی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد بھی رکھ دی گئی۔
2 نومبر 1908ء میں جب ہندوستان پر برطانوی تسلط کے پچاس سال پورے ہوئے تو شہنشاہ ہند ایڈورڈ ہفتم نے ایک سال کے عرصہ کے اندر ہندوستان کے آئین میں اصلاحات کرنے کا فیصلہ کیا۔ جن میں سے وائسرائے کی انتظامی کونسل کی بجائے ایک زیادہ وسیع ادارے کا وجود میں آنا تھا۔ اس ادارے کا نام امپریل لیجسلیٹو کونسل رکھا گیا۔ اس میں چونکہ مسلمانوں کی نمائندگی کا خیال رکھا گیا تھا لہذا محمد علی جناح نے اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کونسل کے انتخابات میں حصہ لیا اور 1909ء میں 33سال کی عمر میں بمبئی کے مسلمانوں کی طرف سے نئی مجلسِ قانون ساز کے بِلا مقابلہ ممبر منتخب ہو گئے۔ لہذا ان اصلاحات سے مسلمانوں کو تو ضرور فائدہ ہوا کیونکہ محمد علی جناح جیسے اعلیٰ کردار، خود اعتماد اور نڈر رہنماء کیلئے سیاسی ترقی کا راستہ آسان ہو گیا۔
محمد علی جناح کونسل کے پہلے اجلاس کلکتہ میں جب اپنی تقریر میں جنوبی افریقہ کے مظلوم ہندوستانیوں کے حق میں آواز اُٹھا رہے تھے، اُس وقت 41 سالہ موہن داس کرم چند گاندھی جنوبی افریقہ میں اُن مظلوموں کی قیادت کر رہے تھے۔ جواہر لال نہرو کیمبرج سے فارغ التحصیل ہو کر انرٹمپل میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ایک بچہ جو بعد میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے نام سے مشہور ہوا اُس وقت شہزادہ لوئی آف بیٹن برگ کے نام سے سکول کی ابتدائی جماعتوں میں ہی تھا۔
محمد علی جناح نے مولانا محمد علی جوہر اور سید وزیر حسن کے مشورے سے 10ِ اکتوبر 1913ء کو مسلم لیگ کی رُکنیت بھی قبول کر لی۔ اس طرح محمد علی جناح اُس وقت تک کونسل، مسلم لیگ، اور کانگرس کے باقاعدہ نمائندے بن چکے تھے اور اپنی حیثیت تینوں جگہ مضبوط کر لی تھی۔ اسکے بعد جب دسمبر 1913ء میں کانگرس کے جلسے میں شمولیت کیلئے کراچی آئے تو کراچی کے جلسے میں تقریر کے دوران کچھ جذباتی ہو گئے اور کہنے لگے کہ کراچی کے اس پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر بہت خوشی محسوس کر رہا ہوں کیونکہ اُنکی پیدائش اسی شہر میں ہوئی تھی اور آج اپنے کئی ایسے لڑکپن کے دوستوں سے ملے ہیں جنکے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔
محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی ممبر شپ حاصل کرنے کے بعد بڑی سرگرمی سے اپنا سیاسی کردار ادا کرنا شروع کر دیا تھا۔ شاید گوگھلے کے اس اظہار پر کہ محمد علی جناح ہندومسلم اتحاد کے پیامبر ہیں، محمد علی جناح کیلئے چیلنج کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ 15ِ دسمبر 1915ء میں مسلم لیگ اور کانگرس کا مشترکہ اجلاس بمبئی میں منعقد ہوا۔ جس میں محمد علی جناح نے ہندومسلم کے باہمی اتحاد و اشتراک کو مد ِنظر رکھتے ہوئے ایک قرارداد پیش کی جس کے تحت یہ تجویز کیا گیا کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے ممبروں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو مسائل کے حل، اشتراک اور تعاون کیلئے کام کرے۔ اس قرار داد کی تائید میں مولانا ابُو الکلام آزاد نے ایک مدلل اور موثر تقریر کی۔ اس طرح محمد علی جناح کی تجویز جلد ہی منظور کر لی گئی۔
اس سلسلے میں دونوں جماعتوں کا مشترکہ اجلاس 30، 31 دسمبر 1916ء میں لکھنؤمیں ہوا۔ جسکی کمیٹی نے ملک میں اصلاحات کی خاطر ایک مشترکہ سکیم کے تحت کام کرنے کا معاہدہ بھی کر لیا۔ جس سے" میثاق ِ لکھنؤ "کا نام دیا گیا۔ محمد علی جناح نے گوگھلے کی لاج تو رکھ لی، لیکن گوگھلے چونکہ اس معاہدہے سے پہلے انتقال کر چکے تھے لہذا محمد علی جناح کو اس بات کا دُکھ رہا کہ اُن کا سیاسی گُرو اپنی بات کو پُورا ہوتا نہیں دیکھ سکا۔ہندستان کے ان حالات کے دوران ایک اور تحریک "ہوم رُول لیگ" کی بنیاد ڈالی گئی جس کی بانی ایک انگریز خاتون مسز اینی بسنٹ تھیں جو کہ تھیاسوفسٹ اور مقرر تھیں۔اُس لیگ کا مقصد اہل ہند کو بِلا تاخیر حکومت ِہند میں خود مختاری دِلوانا تھا تاکہ وہ بھی ملک کے نظم و نسق میں برابر کے شریک ہو سکیں۔ محمد علی جناح کو اِنکا مقصد جاندار لگا۔لہذا اُنھوں نے 1917ء میں اس لیگ کی رُکنیت قبول کر لی۔
محمدعلی جناح باقاعدہ سیاست میں سرگرم ہو چکے تھے اور اُنہی دِنوں ہندوستان کی عوام کی خاطر لارڈ ولنگڈن کے خلاف جارحانہ رویہ اپنایا۔ اس پر اُنکے کردار و عمل کو بہت سراہا گیا اور محمد علی جناح کے اعزاز میں جناح ہال کے نام سے ایک ہال تعمیر کروایا(جسکا بعد میں نام جناح پیپلز میموریل ہال رکھا گیا)۔ جنوری 1919 ء میں مجلس ِقانون ساز میں رولٹ ایکٹ کا بل پیش کیا گیا، جو مارچ کے تیسرے ہفتے میں منظور کر لیا گیا۔ یہ ایکٹ ننگ ِانسانیت تھا۔ محمد علی جناح نے اس بل کے پیش ہونے پر شدید احتجاج کیا اور فوراً کونسل کی رُکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔
1920ء میں ترکی کی خلافت کو بچانے کیلئے ہندوستان میں مولانا محمد علی جوہر اور دوسرے مسلمان رہنماؤں نے تحریک خلافت کے نام سے کوششیں شروع کیں جس کی قیادت جلد ہی گاندھی کے ہاتھ آ گئی۔ جس سے گاندھی ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کیلئے بھی اہمیت اختیار کر گئے اور اُنکے کہنے پر تحریک عدم تعاون اور تحریک ہجرت پر عمل شروع کیا گیا۔ محمد علی جناح نے ہندوستان کے مسلمانوں کی رہنمائی کی خاطر اس تحریک کے بارے میں کوئی خاص رد ِعمل ظاہر نہ کیا۔کچھ ہی عرصے بعد تُرکی میں خلافت کے ساتھ وہاں ہی کہ ایک رہنماء کمال ااتا تُرک نے جو کیا اُسے محمد علی جناح کا اندازہ بالکُل صحیح ثابت ہوا۔
کمال اتاتُرک نے تُرکی میں خلافت ختم کر کے حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی۔ اس دوران محمد علی جناح نے اکتوبر 1920ء میں ہوم رُول لیگ سے استعفیٰ دے دیا اور پھر دسمبر1920ء میں اُنھوں نے کانگرس کے ناگپور والے اجلاس میں کانگرس کی آئندہ کی پالیسیوں اور گاندھی کی عدم تعاون کی تحریک سے اختلاف کرتے ہوئے کانگرس کی رُکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا۔ ستمبر 1923ء میں مرکزی انتخابات منعقد ہوئے تو محمد علی جناح انتخابات میں اپنے پُرانے حلقے سے ایک دفعہ پھر بلا مقابلہ منتخب ہو گئے۔ اس وقت تک کانگرس اور گاندھی سے اُنکے شدید اختلافات ہو چکے تھے۔
1923 ء تا 1925ء تک محمد علی جناح ریفرنٖڈم انکوئری کمیٹی کے ممبر بھی رہے اور 1925ء تا 1927ء تک محمد علی جناح سینڈہرسٹ کمیٹی کے ممبر بھی رہے۔دسمبر 1925ء میں جب وزیر ہند نے اعلان کیا تھا کہ آئینی اصلاحات کا جائزہ لینے کیلئے جلد از جلد ایک کمیشن مقرر کیا جائے گا تو اس کے تقریباً ایک سال بعد نومبر 1926ء میں محمد علی جناح مرکزی اسمبلی کے دوبارہ ممبر منتخب ہوئے اور مارچ 1927ء میں مسلمان رہنماؤں کی ایک کانفرنس کی صدارت کی جس میں اُنکی کی وجہ سے "تجاویز دہلی" منظور ہوئیں۔ ان تجاویز کی رُو سے مسلمانوں نے چند شرائط پر مشترکہ انتخاب منظور کر لیا۔ لیکن جارج سائمن کی سربراہی میں جو کمیشن مقرر کیا گیا تھا اُس میں ہندوستان کے کسی نمائندے کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی جس سے تجاویز دہلی کی اہمیت کم ہوتی نظر آ رہی تھی۔ اس پر محمد علی جناح نے حکومت برطانیہ سے احتجاج کیا اور سائمن کمیشن سے تعاون نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ سائمن کمیشن اپنا کام کر کے واپس چلا گیااور کانگرس نے دہلی تجاویز پر غور و خوص کرنے کے بعد نہرو رپورٹ پیش کر دی جس میں مسلمانوں کے کم از کم اور نہایت جائز مطالبات کو بھی مسترد کر دیاگیا۔
Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 308890 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More