ارشادِ ربانی : ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے
پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے‘‘۔
آفاق و انفس کی یہ بھی ایک نشانی ہے۔فرمان قرآنی ہے:’’ اور یہ (بھی) اس
کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کئے
تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ‘‘۔ ان دونوں مقامات پر جوڑے کی تخلیق کا مقصد
سکون کا حصول بتایا گیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ازواج میں سکون طمانیت
کی خاطر جو انتظام فرمایا ہے اس کی بابت ارشادِ قرآنی ہے:’’ اور اس نے
تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے
نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں‘‘۔ ازواج کے اندر رشتے کی بنیاد اگر
نکاح پر ہوتو وہ رحمت بن جاتی ہے اور اگر یہ تعلق محض شہوت رانی کی خاطر
بغیر نکاح کے قائم کیا جائے تو زحمت بن جاتا ہے۔ ایسے رشتوں کا سکون غارت
ہوجاتا ہے ۔ اس رشتے کا تقدس پامال کرکے انسان نہ صرف شتربے مہار بلکہ
خونخوار درندہ بن جاتا ہے ۔وہ احسن تقویم کے درجہ سے گر کر اسفل السافلین
کے زمرے میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد اس سے ایسی سفاکی کا مظاہرہ ہوتا ہے
جسے پڑھ کر روح کانپ جاتی ہے۔
پچھلے سال مئی میں دہلی کے اندر آفتاب نے شردھا کو قتل کردیا ۔ اس سال مئی
میں ساحل نے ساکشی کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان واقعات میں
چونکہ مقتول ہندو اور قاتل مسلمان ہے اس لیے اس کا چرچا بہت ہوا ورنہ اس
بیچ کئی مسلمان لڑکوں نے اپنے ہم مذہب لڑکی کو مارڈالا اور کئی ہندو لڑکوں
نے اپنے ہی دھرم کی ماننے والی لڑکی کو قتل کردیا لیکن وہ خبریں آئی گئی
ہوگئیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی ہندو لڑکا کسی مسلم لڑکی کو قتل کردیتا
ہے تو ملی میڈیا اس کو خوب اچھال کر اپنی بیٹیوں کو ہندو وں سے دور رکھنے
کی بیداری مہم میں جٹ جاتا ہے۔ یہی کام دوسرا فریق بھی کرتا ہے۔ وہ اس طرح
کے واقعات کو اچھال کر اپنی لڑکیوں کو مسلمانوں کے ساتھ تعلق کے برے انجام
سے خبردار کرنے لگتا ہے۔ دراصل یہ مسئلہ فرقہ وارانہ نہیں بلکہ جنسی بے راہ
روی کا ہے۔ کسی معاشرے میں اگر مردو خواتین کے درمیان بغیر نکاح کے تعلقات
عام ہوجائیں تو ازواج کے درمیان محبت کی جگہ نفرت کا زہر بھرجاتا اور اس
طرح کی درندگی کے مظاہر عام ہوجاتے ہیں ۔
شاہ آباد ڈیری قتل معاملے کے تناظر میں موجودہ معاشرے کی دگر گوں صورتحال
کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ساکشی اور ساحل نے بغیر شادی کے باہمی تعلقات
قائم کررکھے تھے ۔ ساکشی کا ایک پرانا دوست پروین تھا جو اس سے دوبارہ
تعلقات قائم کرنا چاہتا تھا ۔ ساکشی کے نئے دوست جھبرو نے ساحل کو دھمکی دی
تھی ۔ اس تفصیل کے بیان کا مقصد ساکشی کے قتل کا جواز فراہم کرنا نہیں بلکہ
یہ بتانا مقصود ہے کہ جنسی بے راہ روی کس قدر عام ہوچکی ہے۔ مغرب زدہ
معاشرہ زنا بالرضا کو برا نہیں سمجھتا ۔ ملکی قانون کی نظر میں بلا نکاح
تعلقات جائز ہیں۔ اس مادر پدر آزاد معاشرے میں جہاں دین دھرم ثانوی حیثیت
میں چلے گئے ہیں بلا نکاح تعلقات کی گنجائش تو ہے مگر نکاح کے راستے میں بے
شمار مشکلات کھڑی کردی گئی ہیں جبکہ نبی کریمﷺ نے نکاح کو آسان بنانے کی
ہدایت فرمائی تاکہ زنا مشکل ہوجائے۔ یہ بھی فرمایاکہ برکت کے لحاظ سے
بہترین نکاح وہ ہے، جس میں کم سے کم خرچ ہو۔فرمان ِ قرآنی ہے:’’آج تمہارے
لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال
ہے اور تمہارا کھانا اُن کے لیے اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں
خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے
کتاب دی گئی تھی، بشر طیکہ تم اُن کے مہر ادا کر کے نکاح میں اُن کے محافظ
بنو‘‘۔
ان ہدایات کے بعد اللہ کی کتاب خبردار کرتی ہے کہ :’’ آزاد شہوت رانی نہ
کرنے لگو ی،نہ چوری چھپے آشنائیاں کرو اور جس نے ایمان کی روش پر چلنے سے
انکار کیا تو اس کا سارا کارنامہ زندگی ضائع ہو جائے گا اور وہ آخرت میں
دیوالیہ ہوگا ‘‘۔ امت مسلمہ میں اگر اس الٰہی ہدایت کی روگردانی عام ہوجائے
وہ خیر امت کے درجہ سے گر جاتی ہے۔ اسے تو حکم دیا گیا ہے کہ :’’ اور زنا
کے قریب بھی نہ پھٹکو بلاشبہ وہ بڑی بے حیائی کاکام ہے، بڑا ہی بُرا راستہ
ہے‘‘۔ قرآن حکیم میں ان اہل ایمان کو آخرت میں کامیابی اور جنت کی بشارت
دی گئی ہے کہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا
ارشادگرامی ہے:’’میرے بعد میری امت کے مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ کوئی
فتنہ خطرناک نہیں ہوگا ‘‘۔ اس فتنے سے بچنے کی واحد سبیل شہوت رانی سے
اجتناباور نکاح کی ترغیب ہے۔اس طرح یہ فتنہ از خود دم توڑ دیتا ہے اورایمان
کی سلامتی کا راستہ کھل جاتاہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :" جس شخص نے شادی
کرلی اس نےنصف ایمان مکمل کرلیا لہذا اسے چاہئے کہ باقی آدھے میں اللہ
تعالٰی کا تقوی اختیار کرے "۔اس سے ازدواجی رشتے میں سکون و اطمینان حاصل
ہوگااور محبت و یگانگت بھی پیدا ہوگی ورنہ ساحل اور آفتاب جیسے لوگوں سے
دین رحمت کی بدنامی ہوتی رہے گی۔
|