جانور بھی اللہ کی مخلوق
(محمد یوسف برکاتی, Karachi)
|
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب اس پوری
کائنات کے نظام کو چلانے اور بنی نوع انسان کی آسانیوں کے لئے اللہ رب
الکائنات نے دریا سمندر پہاڑ مختلف قسم کے جانور پرندے حشرات الارض یعنی
کیڑے مکوڑے بنائے اور پیدا فرمائے اللہ رب العزت کی مخلوقات میں اگر
جانوروں پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کا ذکر کریں اور وہ بھی اسلامی اعتبار سے
تو ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ رب الکائنات کی طرف سے کی گئی ہر
تخلیق بنا مقصد کے ہرگز نہیں ہے ہمارے یہاں یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے
اور ہر انسان کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی موڑ پر کسی نہ کسی کیڑے کے تنگ کرنے
کی وجہ سے یہ بات کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ یار اللہ نے اسے کیوں پیدا کیا
ہوگا ؟ آیئے آج ہم جانوروں کی ہیدائش ، ان کا مقصد اور قران و حدیث میں ان
کے ذکر کے بارے میں پڑھیں گے جو ہم سب کے لیئے کسی دلچسپی سے کم نہیں یوگا
اور ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ اللہ رب الکائنات نے اس دنیا میں کوئی شہ بغیر
مقصد نہ بنائی نہ پیدا کی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک زمانہ تھا جسے تاریخ زمانئہ جاہلیت کے
نام سے یاد کرتی ہے جب جانوروں کو قتل کرکے اور کسی جگہ باندھ کر نشانہ لگا
کر ہلاک کردیا کرتے تھے اور کھا جاتے تھے لیکن سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ
وآلیہ وسلم نے ایسے جانور کے گوشت کو مردار کہا اور بعد ذبح کے سسٹم کو
رائج کرکے مسلمانوں کے لئے آسانیاں پیدا کردیں قران مجید فرقان حمید میں کم
و بیش دو سو آیت مبارکہ میں جانوروں کے حقوق ، فوائد اور ان سے متعلق حلال
و حرام کے شرعی احکام کا تذکرہ ملتا ہے کئی جانوروں کے ناموں کو قران نے
اپنے ناموں یعنی قرانی ناموں سے پکارہ ہے سب سے پہلے قران میں جن حشرات کا
ذکر آیا ہے وہ ملاحظہ کریں
1 ۔سورہ البقرہ کی آیت نمبر 26 میں مچھر کا ذکر آیا ہے جسے قران نے " بعوض
" کے نام سے یاد کیا ہے
2۔ سورہ الحج کی آیت نمبر 74 میں مکھی کا ذکر آیا ہے جسے قران نے " ذباب "
کے نام سے یاد کیا ہے
3 ۔ سورہ نحل کی آیت نمبر 28 میں شہد کی مکھی کا ذکر آیا ہے جسے قران نے "
نحل " کے نام سے یاد کیا ہے
4 ۔ سورہ عنکبوت کی آیت نمبر 41 میں مکڑی کا ذکر ملتا ہے جسے قران نے "
عنکبوت " کے نام سے یاد کیا یے
5 ۔ سورہ اعراف کی آیت نمبر 133 میں ٹڈی کا ذکر آیا ہے جسے قران نے جراد کے
نام یاد کیا ہے
6 ۔ سورہ نمل کی آیت نمبر 18 میں چیونٹی کا ذکر کیا ہے جسے قران نے "نمل"
کے نام سے یاد کیا ہے
7۔ سورہ قارعہ کی آیت نمبر 3 میں تتلی کا ذکر آیا ہے جسے قران نے فراش کے
نام سے یاد کیا یے
8 ۔ سورہ اعراف کی آیت نمبر 133 میں ہی جوں کو قران نے "قمل" اور ازدہا کو
"ثعبان" کے نام سے یاد کیا ہے
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قران مجید فرقان حمید میں اسی طرح جن پالتو
اور کچھ جنگلی جانوروں کا ذکر آیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
1۔ سورہ نحل کی آیت نمبر 8 میں گھوڑے ، خچر اور گدھے کا ذکر آیا ہے جسے
قران نے " بغال " "خیل" "حمیر" کے نام سے یاد کیا ہے
2۔ سورہ انعام کی آیت نمبر 143 اور 144 میں بکرا ، بھیڑ ،گائے اور اونٹ کا
ذکر آیا ہے جسے قران نے ابل ، بقرہ ،ضان اور معز کے نام سے یاد کیا ہے
3۔سورہ یوسف کی آیت نمبر 72 میں بھی اونٹ کا ذکر آیا ہے اور قران نے یہاں "
حمل و بعیر" کے نام سے یاد کیا ہے ۔
4۔ سورہ البقرہ کی آیت نمبر 67 سے آیت نمبر 70 تک میں گائے کا ذکر آیا یے
جسے قران نے بقرہ کے نام سے یاد کیا ہے ۔
5 ۔سورہ ھود کی آیت نمبر 69 میں ایک بچھڑا کا ذکر آیا ہے جسے قران نے "عجل"
کے نام سے یاد کیا ہے
6 ۔سورہ البقرہ کی آیت نمبر173 میں سور کا ذکر ہے جسے قران نے " خنزیر" کے
نام سے یاد کیا ہے اور اسی سورہ کی آیت نمبر 65 میں بندر کو قران نے "
قردہ" کے نام سے یاد کیا ہے۔
7 ۔ سورہ الجمعہ کی آیت نمبر 5 میں گدھے کا ذکر آیا ہے جسے قران نے " حمار"
کے نام سے یاد کیا یے
8 ۔ سورہ الاعراف کی آیت نمبر 177 میں کتے کا ذکر ہے جسے قران نے " کلب" کے
نام سے یاد کیا ہے
9۔ سورہ مدثر کی آیت نمبر 50 میں گدھے کو
" حمر" اور آیت نمبر 51 میں شیر کو "قسورہ" کے نام سے قران نے یاد کیا ہے ۔
10 ۔سورہ فیل کی آیت نمبر 1 میں ہاتھی کا ذکر ایا ہے جسے قران نے " فیل" کے
نام سے یاد کیا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دنیاوی زندگی میں انسانوں کی اسانی کے لئے
اور اللہ رب العزت کی نظر میں جانوروں کی اہمیت کا اندازہ تو آپ کو ہوگیا
ہوگا بلکہ آپ دیکھیں کہ خالق حقیقی نے اپنی مبارک کتاب قران مجید میں کئی
سورتوں کے نام جانوروں کے نام پر رکھے یعنی قران مجید کی سب سے بڑی سورہ
البقرہ یعنی گائے کے نام سے سورہ نحل یعنی شہد کی مکھی کے نام سے سورہ فیل
یعنی ہاتھی کے نام سے سورہ عنکبوت یعنی مکڑی کے نام سے سورہ نمل یعنی
چیونٹی کے نام سے یعنی انسانوں کے ساتھ ساتھ رب العزت نے جانوروں کے بھی
حقوق بنائے اور انسانوں کو حکم دیا کہ ان کا خیال رکھیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک حدیث کے مطابق حضرت انس بن مالک رضی
اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا کہ ترجمعہ " جو انسان بھی کھیتی لگائے یا پودا لگائے پھر کوئی
انسان ، پرندہ یا چوپایہ اس میں سے کھائے گا تو یہ اس کے لئے صدقہ ہوگا "
یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص فصل کاشت کرتا ہے اور اس کی غیر
موجودگی میں کوئی اس کی فصل سے مستفید ہوتا ہے تو یہ اس کے لئے اجر و ثواب
کا باعث ہوگا اس طرح اگر کوئی جانور پالتا ہے اور اس کے کھانے پینے اور رہن
سہن کا مکمل خیال رکھتا ہے تو اسے اس کا جو اجر و ثواب ملتا ہے اس کا اس کو
اندازہ بھی نہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جانوروں سے حسن سلوک اور اس کے عیوض اجر
وثواب کی خوشخبری کئی حدیثوں میں دی گئی ہے جیسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ ایک بدکار عورت کی بخشش صرف اس کئے کردیگئی کہ ایک دفعہ اس کا گزر ایک
ایسی جگہ سے ہوا جہاں ایک پانی کا کنواں تھا اور اس کے قریب ایک کتا پیاسا
کھڑا ہانپ رہا تھا قریب تھا کہ وہ پیاس کی شدت سے ہلاک ہوجاتا کنوے سے پانی
نکالنے کے لئے کچھ نہیں تھا اس عورت نے اپنا موزہ اپنی اوڑھنی سے باندھکر
کنوے سے پانی نکالا اور اس کتے کو پلایا تو اس میں زندگی کے آثار نمایاں
ہوگئے اس عورت کا یہ فعل اللہ تبارک تعالی کو اتنا پسند آیا کہ اللہ رب
العزت نے اس بدکار عورت کی بخشش کردی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا فرمان
عالیشان ہے کہ جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کا بہت بڑا اجر ہے جانوروں سے حسن
سلوک کے بارے میں بیشمار احادیث ہمیں ملتی ہیں گویا سنن ابودائود شریف میں
حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے آپ رضی اللہ تعالی
فرماتے ہیں کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ایک دفعہ ایک انصاری شخص کے
باغ میں داخل یوئے تو وہاں ایک اونٹ تھا اونٹ نے جیسے ہی آپ علیہ وسلم کو
دیکھا تو رونے لگا اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے صلی اللہ علیہ وآلیہ
وسلم اس کے پاس تشریف لےگئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اس کے
سر پر دست شفقت پھیرا تو وہ اونٹ خاموش ہوگیا آپ علیہ وسلم نے دریافت کیا
کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے ؟ اور یہ اونٹ کس کا ہے تو انصار کا ایک نوجوان
حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول اللہ یہ اونٹ میرا ہے اور میں ہی اس کا مالک
ہوں تو آپ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اس بےزبان جانور کے معاملے میں
اللہ سے نہیں ڈرتے جس کا اللہ تعالی نے تمہیں مالک بنایا ہے اس نے تمہاری
شکایت کی ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور اسے بھوکا رکھتے ہو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جس طرح جانوروں سے حسن سلوک کے بدلے
اجروثواب کا وعدہ ہے وہاں ان پر ظلم کرنے پر عذاب کی وعید بھی سنائی گئی یے
جیسے ایک عورت کو اس لئے اللہ تعالی نے عذاب میں مبتلہ کردیا کہ اس نے ایک
بلی پالی لیکن اس کا خیال بھی نہیں رکھتی تھی اور نہ وقت پر کھانا دیتی تھی
اور نہ اسے آزاد کرتی تھی وہ بلی زمین کے کیڑے کھا کر اپنا گزارا کرتی اور
یوں ایک دن وہ بھوکی پیاسی دنیا سے رخصت ہوگئی اس لئے صاف طور پر کہا گیا
کہ اللہ رب العزت کے نزدیک سب سے محبوب بندہ وہ ہے جو اس کی مخلوق کا خیال
کرے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قران مجید فرقان حمید کی سورہ نحل کی آیت
نمبر 5 سے 8 تک میں ارشاد باری تعالی ہے کہ ترجمعہ کنزالایمان
کہ " اور چوپائے(جانور ) پیدا کئے ان میں تمہارے لئے گرم لباس اور بہت سے
فائدے ہیں ان سے تم (غذا ) بھی کھاتے ہو اور تمیارے لئے ان میں زینت یے اور
انہیں شام کو تم واپس لاتے ہو جب چرنے کے لئے چھوڑتے ہو وہ جانور تمہارے
بوجھ اٹھاکر ایسے شہر تک لے جاتے جہاں تم بغیر اپنی جان کو مشقت میں ڈالے
نہیں پہنچ سکتے تھے تمہارا رب نہایت مہربان اور رحم والا ہے اس نے گھوڑے ،
خچر اور گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور تمہارے لئے زینت ہیں ابھی
مزید ایسی چیزیں پیدا کرے گا جو تم جانتے نہیں "۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ باری تعالی نے انسان کو اپنا نائب کہا
ہے اور اس کی باقی تمام مخلوقات کو اس نے اپنے نائب یعنی انسانوں کی سہولت
اور آسانیوں کے لئے بنائی اور پیدا کی ہیں اس لیئے ان سب کے حقوق بھی کا
بھی تعین کیا ہے اگر ہم اپنے دریائوں سمندروں جنگلوں کھیت کھلیانوں پہاڑوں
اور جانوروں کا خیال رکھیں گے ان کے جو حقوق مقرر ہیں وہ ادا کریں گے تو
ہما رے لئے سوائے ان سے فائدے کے کچھ بھی نہیں ہے کیوں کہ یہ سب اللہ رب
العزت کی مخلوقات ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ باری تعالی کی تمام مخلوقات کی طرح
جانور بھی ہماری زندگی کا بڑا اہم حصہ ہیں ان کا خیال رکھیں ان پر ظلم نہ
کریں نہ کرنے دیں دنیاوی زندگی میں اجروثواب کمانے کے کئی طریقے ہیں لیکن
یمیں نہیں معلوم کہ ہماری بخشش ہماری کس نیکی کی وجہ سے ہوجائے کیوں کہ وہ
نقطہ نواز ہے نہ جانے ہم گنہگاروں اور خطاکاروں کو کس گناہ کے سبب جہنم کا
دروازہ دکھادے اور نہ جانے اس بدکار عورت کی طرح کسی جانور ہر حسن سلوک کی
وجہ سے بخشش کرکے جنت میں داخل کردے یہ سب اس رب الکائنات کی مرضی ، منشاء
اور مصلحت پر منحصر ہے بس کوشش کریں کہ اس رب الکائنات کی تمام مخلوق کا
خیال رکھیں اور ان کے حقوق کا جیسے حکم ہے اس پر عمل کریں ۔
|
|