لیاقت علی خان(پہلے وزیر ِاعظم) ٭٭٭ قسط دوم٭٭٭شادیاں | مسلم لیگ کے اہم عہدوں پر تعیناتی

پاکستا ن کے سربراہان ِمملکت٭باب 2٭

لیاقت علی خان اور رعنا لیاقت علی خان

وزیر ِاعظم لیاقت علی خان (1895ء۔1951ء)
تحقیق وتحریر:عارف جمیل

شادیاں | مسلم لیگ کے اہم عہدوں پر تعیناتی٭ قسط دوم٭

لیاقت علی خان جب 1914ء میں ایف۔ اے میں تعلیم پا رہے تھے تو اُنکے والدین کو اپنے بیٹے کی شادی کرنے کا شوق پیدا ہو گیا اور پھر اسی سال اُنکی شادی اُنکے چچا نواب عمر دراز خان کی بیٹی جہانگیرہ بیگم سے کر دی۔ لیاقت علی خان اور جہانگیرہ بیگم کی عُمر میں اتنا فرق نہ تھا اور وہ بچپن میں ایک ساتھ ہی کھیلتے کُودتے رہے تھے۔ لہذا لیاقت علی خان کو اپنی بیوی سے والہانہ محبت تھی۔ لیاقت علی خان اپنی بیوی کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے اور اپنی بیوی کے ہی ہاتھ کا بنا ہوا پان کھاتے۔ اُنھیں کُرتے پہننے کا بہت شوق تھا اور جہانگیرہ بیگم سلائی کڑھائی سے مکمل واقفیت رکھتی تھیں اس لیئے اُنھوں نے اپنے خاوند کیلئے بہت سے کُرتے تیار کیئے تھے جو لیاقت علی خان اپنے ساتھ علیگڑھ لے گئے۔ 1919ء کے اوائل میں لیاقت علی خا ن کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جسکا نام ولایت علی خان رکھا گیا اور اس بچے کی دیکھ بھال کیلئے ایک جرمن خاتون رکھی گئی۔
لیاقت علی خان جن دِنوں ہندوستان کی سیاست میں نمایاں حیثیت اختیار کرتے جا رہے تھے، اُس دوران اُنکی نجی زندگی میں بھی تبدیلی آتی جا رہی تھی۔ اپنی پیاری بیوی جہانگیرہ بیگم کے ساتھ بارہ برس تک نہایت خوش و خرم زندگی بسر کرنے کے بعد نا معلوم وجوہات کی بنا پر اُن سے کچھ مدت کیلئے دُوری اختیار کر لی تھی۔تاہم اپنی بیوی کی ضروریاتِ زندگی مسلسل پوری کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ اُن سے خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا تھا۔ اس دوران 1928ء میں لیاقت علی خان کی ملاقات لکھنؤ یونیورسٹی میں زیر ِتعلیم ایک عیسائی لڑکی سے ہوئی جس کا نام شیلہ ائیر ینے پنت تھا اور وہ اس وقت بہار ریلیف فنڈ کیلئے ٹکٹیں فروخت کر رہی تھی۔
اُس لڑکی کا تعلق ہندو برہمن کے ایک ایسے خاندان سے تھا جن کے افراد چند سال پہلے عیسائی مذہب اختیار کر چکے تھے اور اُس کے والد ہیکٹر پنت برٹش انڈین آرمی میں میجر جنرل کے عہدے پر فائز تھے۔ وہ لڑکی اُن کے دل کو بھا گئی۔ لہذا اپریل 1933ء کے شروع میں جب لیاقت علی خان نے اُس لڑکی سے شادی کی تو پہلے اس لڑکی کو مسلمان کیا اور اُسکا اسلامی نام" رعنا" رکھا، جو بعد میں رعنا لیاقت علی خان کے نام سے مشہور ہو گئیں۔ رعنا لیاقت علی خان 1910ء میں ا لمورہ، اتراکھنڈ، ہندوستان میں پیدا ہوئیں اور پھر لکھنؤ یونیورسٹی سے بی۔ اے کرنے کے بعد کلکتہ یونیورسٹی سے معاشیات اور عمرانیات میں ایم۔ایس۔سی آنرز میں کیا. بعدازاں براستھا گرلز کالج دہلی میں معاشیات کی لیکچرار کے طور پر کچھ عرصہ ملازمت بھی کی۔ لیاقت علی خان کے رعنا لیاقت علی خان کے بطن سے بھی دو بیٹے اشرف لیاقت اور اکبر لیاقت علی خان تھے۔ رعنا لیاقت علی خان نے آگے چل کر اُنکی سیاسی زندگی کے ساتھ ایسا قدم سے قدم ملایا کہ پھر محمد علی جناح،فاطمہ جناح،دینا واڈیا اوراُن تمام اہم شخصیات سے ملاقات کرنے کا موقع ملا جن سے لیاقت علی خان ملتے۔
لیاقت علی خان جب اپنی دوسری بیوی کے ساتھ 1933ء میں ہنی مون منانے یورپ گئے تو اُنھیں خیال آیا کہ محمد علی جناح جو کہ گول میز کانفرنسوں کی ناکامی کے بعد انگلستان میں ہی مقیم ہو گئے ہیں سے ملنا چاہئے۔ جس کے بعد دونوں میاں بیوی نے لندن میں محمد علی جناح سے ملاقات کی اور لیاقت علی خان نے محمد علی جناح کو ہندوستان میں مسلمانوں کی تباہ حال اور بگڑی ہوئی حالت کا بتاتے ہوئے اصرار کیا کہ اُنھیں ہندوستان واپس آجانا چاہئے، کیونکہ مسلمان قوم کو وہاں ایک ایسے رہنماء کی ضرورت ہے جو کسی قیمت پر بھی خریدا نہ جا سکے۔ لیاقت علی خان ایک خوش اخلاق، وضعدار، مستقل مزاج شخص ہونے کے ساتھ ساتھ شیریں گفتگو کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے اور اپنے مقصد کو اپنی باتوں سے دل موہ لینے والے انداز سے منوا لینے کی بھی اُن میں عادت تھی۔
محمد علی جناح نے پہلے تو انکار کر دیا لیکن پھر مزید اصرار پر اُنکو کہا کہ پہلے ہندوستان جا کر جائزہ لیں۔ لیاقت علی خان سے پہلے علامہ اقبال نے بھی محمد علی جناح کو وطن واپس آنے کیلئے کہا تھاکیونکہ ایک تو محمد علی جوہر کا انتقال ہو چکا تھا اور وہ خود بھی اتنے صحت یاب نہیں رہے تھے۔ لیاقت علی خان نے محمد علی جناح کے کہنے پر ہندوستان کے دورے شروع کیئے تاکہ اُنکی ہندوستان میں آ نے کیلئے راہ ہموار کی جا سکے اور پھر جب اُنھیں اس میں کامیابی حاصل ہو گئی تو محمد علی جناح اپریل1934ء میں واپس ہندوستان آگئے۔
سید وزیر حسن کی زیرِ صدارت 12ِ اپریل 1936ء کو مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس بمبئی میں منعقد ہوا۔ اُس وقت مسلم لیگ کے صدر محمد علی جناح تھے۔ ا س اجلاس میں مسلم لیگ کے نئے جنرل سیکرٹری کیلئے محمد علی جناح نے لیاقت علی خان کو اہل سمجھا۔ لہذا اس نہایت ذمہ دارانہ عہدے کیلئے مسلم لیگ کے ممبران نے متفقہ طور پر اگلے تین سالوں کیلئے لیاقت علی خان کو جنرل سیکرٹری منتخب کر لیا۔ بعدازاں ِ مئی 1936ء کو بمبئی میں مسلم لیگ کونسل کے اجلاس کے بعد کچھ معاملات پر محمد علی جناح سے وقتی اختلاف ہو گیا تو لیاقت علی خان نے اس پر ایک جذباتی فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ سے علحیدگی اختیار کرلی اورنواب چھتاوی کی قائم کردہ ایگر یکلچرسٹ پارٹی کی رُکنیت حاصل کر لی۔ لیاقت علی خان کو صدرِ مسلم لیگ محمد علی جناح سے اختلافات کے فوراً بعد 1937ء میں حکومتِ ہند نے ایک سرکاری تجارتی وفد کے مشیر کی حیثیت سے لندن بھجوا دیا۔ اس تجارتی وفد کا مقصد حکومتَ برطانیہ کے ساتھ کپاس اور کپڑے کی درآمد و برآمد کے بارے میں ایک نیا تجارتی معاہدہ کرنا تھا۔
لیاقت علی خان نے لندن جانے سے پہلے 1937ء کے صوبائی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں ایگریکلچرسٹ پارٹی کی طرف سے حصہ لیا تھا اور بھاری اکثریت سے یو۔ پی کی صوبائی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے تھے۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ نے یو۔پی کی 36 نشستوں میں سے 29پر کامیابی حاصل کی تھی۔لہذا مسلم لیگ کی اس شاندار کامیابی کی وجہ سے لیاقت علی خان صوبائی اسمبلی میں آزاد رُکن کی حیثیت سے بیٹھے تاکہ وقت آنے پر مسلم لیگ میں واپسی کیلئے راہ ہموار ہو سکے اور پھر کچھ مدت بعد ہی لیاقت علی خان کی ماضی کی خدمات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُنھیں صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ کی نشستوں پر بیٹھنے کی اجازت دے دی گئی۔
اُنھیں 20 ِ ما رچ 1938ء کو دہلی میں مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں مسلم لیگ کا جنرل سیکرٹری مقرر کر دیا گیا۔ جس کے بعد اُنھیں اس عہدے پر قیامِ پاکستان تک مسلسل منتخب کیا جاتا رہا۔مسلم لیگ کونسل نے اُنھیں مرکزی دستورساز اسمبلی کا ممبر بننے کیلئے بریلے کی نشست سے موقع دیا توکانگرس نے اُنکے مدِ مقابل عام سے غیر معروف مسلمان کا نام دیا۔ تاہم لیاقت علی خان کی مقبولیت دیکھتے ہوئے کانگرس نے اپنے اُمیدوار کا نام واپس لے لیا اور لیاقت علی خان مرکزی اسمبلی کیلئے پہلی ہی دفعہ بلا مقابلہ رُکن منتخب ہو گئے۔
لہذا 1940ء مرکزی قانون ساز اسمبلی کے ممبر بننے کیلئے جب مسلم لیگ کی کامیابی کیلئے لیاقت علی خان نے بحیثیت مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری بہت محنت کی تو مسلم لیگ کونسل نے اُنھیں سے مرکزی اسمبلی کا ضمنی انتخاب لڑنے کی دعوت دی۔
محمد علی جناح جب دوسری مصروفیات اور علالت کے باعث اسمبلی کے اجلاسوں میں کم شرکت کرنے لگے تو اُنھوں نے 10ِفروری 1942ء کو مرکزی اسمبلی میں مسلم لیگ پارٹی کیلئے لیاقت علی خان کو ڈپٹی لیڈر مقرر کر دیا تاکہ اُنکی عدم موجودگی میں لیاقت علی خان پارٹی لیڈر کے طور پر کام کرتے رہیں۔ سیاسی ہنگاموں کے اس دور میں لیاقت علی خان اور رعنا لیاقت علی خان کے مراسم محمد علی جناح سے بہت بڑھ گئے تھے۔ کبھی کبھی دونوں میاں بیوی محمد علی جناح اور اُنکی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ سنیما دیکھنے چلے جاتے یا گھر پر ہی تاش کھیلتے رہتے۔
محمد علی جناح نے اُنکی مسلم لیگ اور مسلمانوں کیلئے دل و جان سے محنت کو سراہاتے ہوئے کہا کہ لیاقت علی خان ایک نواب زادہ ہونے کے باوجود ایک پرولتاری بھی ہیں۔ اُنھیں مسلم لیگ کی ایکشن کمیٹی کا کنوئنیر بھی مقرر کر دیا گیا تھا۔ سنٹرل پارلیمنٹری بورڈ کے چیئر مین اور ڈان اخبار کے منیجنگ ڈائریکٹر کا عہدہ بھی اُن کو مل گیا تھا۔
٭(جاری ہے)٭





Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 310058 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More