لیاقت علی خان(پہلے وزیر ِاعظم) ٭٭٭ قسط اوّل٭٭٭ابتدائی زندگی | قائدِاعظم سے پہلی ملاقات

پاکستا ن کے سربراہان ِمملکت٭باب 2٭

جناح و لیاقت علی خان

وزیر ِاعظم لیاقت علی خان (1895ء۔1951ء)
تحقیق وتحریر:عارف جمیل

ابتدائی زندگی | قائدِاعظم سے پہلی ملاقات٭ قسط اوّل٭

محمد علی جناح نے پاکستان کے پہلے باوقار، خود مختار وزیر اعظم لیاقت علی خان کو تحریک ِپاکستان کے دوران اپنا د ستِ را ست قر ار دیا تھا۔ انگریزی بہترین، اُردو زبان پر حاوی، بڑے جلسوں میں عوام سے اُردو زبان میں مخاطب ہوتے تو وہاں ہزاروں مسلمان جمع ہو جاتے تھے۔ لیاقت علی خان کی آواز تقریر کے دوران گرجدار اور بارُعب ہو جاتی اور اندازِ تقریر بہت ہی دِلنشین ہوتا۔ مجمع پر چھا جاتے۔ اُن کے اس انداز پر کبھی کبھی عوام کی طرف سے اللہ اکبر اور مسلم لیگ زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے تھے۔اسطرح اُنھوں نے ایک بہترین شعلہِ بیاں کے طور پر بھی خاصا نام کما یا تھا۔
ایران کا ایک معزز خاندان جس کا سلسلہ نسب نوشیرواں ِ عادل شاہِ ایران سے ملتا تھا چند صدیاں پہلے ہجرت کر کے مظفر نگر آباد ہو چکا تھا۔ جب 1806ء میں شاہِ عالم ثانی انگریزوں کی طرف سے صرف نام کے بادشاہ تھے اُس وقت وہ خاندان اپنے سربراہ نواب احمد علی خان کے ہمراہ مظفر نگر سے ہجرت کر کے مشرقی پنجاب کے ضلع کرنال میں آکر آباد ہوگیا اور پھر مستقبل میں وہاں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ نواب احمد علی خان کے حکومتِ برطانیہ سے اچھے تعلقات تھے لہذا اُنکی بہترین خدمات کی بدولت اُنھیں رُکن الدولہ شمشیرجنگ نواب بہادُر خان کا خطاب عطا ہوا۔ نواب احمد علی خان کے تین بیٹے تھے، جن کا نام عظمت علی خان، رُستم علی خان اور عمر دراز خان تھا۔ ان تینوں بیٹوں کو بھی اپنے والد کے انتقال کے بعد رُکن الدولہ شمشیر ِجنگ نواب بہادُر خان کا خطاب ملا۔
نواب احمد علی خان کے منجھلے بیٹے نواب رُستم علی خان کی شادی محمودہ بیگم سے ہوئی جن کا تعلق سہانپور کے قصبے رائے پور نزد راجپور سے تھا۔ اُنکے والد کا نام ناہر علی خان تھا جوکہ راجپوت قوم کے چشم و چراغ تھے اور اپنے علاقے کی مشہور ہستیوں میں سے تھے۔ محمودہ بیگم ایک بڑی سُلجھی ہوئی اور رکھ رکھاؤ والی بیوی تھیں۔ اُنکے بطن سے نواب رُستم علی خان کی سات اولادیں تھیں۔ جن میں پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ ان میں سے ایک اولاد جو تیسرے نمبر پر تھی اُسکا نام نواب زادہ لیاقت علی خان تھا۔ جن کی پیدائش یکم اکتوبر 1895ء بروز منگل کو ہوئی۔ لیاقت علی خان کو خاندانی وقار ددھیال و ننھیال کی جانب سے ورثے میں ملا تھا اس لیئے انکی پرورش کا آغاز ناز و نعم سے شروع ہوا۔
لیاقت علی خان کی ابتدائی تعلیم کیلئے انکی والدہ محمودہ بیگم نے اُنھیں اس وقت کی خاندانی روایات کے مطابق گھر میں ہی تعلیم دِلوانے کا انتظام کروایا۔ انکی تعلیم و تربیت سے لیاقت علی خان بچپن سے ہی نیک طبع بچہ کہلانے لگے۔جو غریبوں کو زیادہ پسند کرتے۔ اس کے علاوہ جب بھی محسوس کرتے کہ کسی کو پیسے کی ضرورت ہے تو اپنے والد یا والدہ سے کہہ کر اُسکی مالی امداد کرواتے۔ جب لیاقت علی خان کچھ مزید بڑھے ہوئے تو والدہ نے کرنال ہی ایک سکول میں داخل کروا دیا۔ جہاں ساتھ اُس دور کی ضرورت کے مطابق اُردو اور فارسی سیکھنے پر خاص توجہ دینی شروع کی۔جب اُنھوں نے جماعت پنجم میں اول پوزیشن حاصل کی تو سکول کی طرف سے انکو ایک کتاب تحفے میں دی گئی۔ لیکن اُنھوں نے اپنے اُستاد سے کہا کہ اُنھیں کتاب کی بجائے ڈبل پرموشن دی جائے۔جس پر کی سکول کی انتظامیہ نے انکا سابقہ تعلیمی ریکارڈ دیکھتے ہوئے اُنھیں جماعت ششم کی بجائے جماعت ہفتم میں بیٹھنے کی اجازت دے دی۔ان دنوں لیاقت علی خان کو کُشتی لڑنے اور ورزش کرنے کا شوق بھی ہو گیا۔ جوانی کے دِنوں میں تاش اور شطرنج کھیلنے کا بھی شوق رہا۔ اسکے علاوہ موسیقی سے بھی لگاؤ ہو گیا۔ لہذا اللہ رکھا نامی موسیقار سے باقاعدہ موسیقی کی تعلیم حاصل کی اور پکے راگ، ہار مونیم اور بانسری میں مہارت حاصل کی۔
لیاقت علی خان کوکرنال کے سکول میں تعلیم کے دوران ہی محمدن اینگلو اور ینٹل کالج علیگڑھ میں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا تو انکے والد نے بھی اس میں دلچسپی لیتے ہوئے کہ اُنکا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرے 1910ء میں محمد اینگلو اورینٹل کالج کے مدرسے میں داخل کروا دیا۔ لیاقت علی خان اپنے خاندان کے پہلے فرد تھے جو اس تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرنے گئے۔ لہذا وہاں بھی اُنکی ذہنی پختگی دیکھتے ہوئے اُنھیں جلد ہی انگلش ہاؤس کا مانیٹر بنا دیا گیا اور اسی دوران کرکٹ کے کھیل میں اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے مدرسے کی کرکٹ ٹیم کے کپتان مقرر ہو گئے۔ جس کے بعد دوسرے سکولوں سے میچوں کے دوران اپنے مدرسے کی طرف سے کرکٹ میں اعلیٰ کپتانی کے باعث کافی شہرت حاصل کی۔ بہرحال وہاں سے اعلیٰ نمبروں سے میٹرک پاس کر کے کرنال واپس آئے تو اُنکے والد نے اُنکو مزید تعلیم حاصل کرنے سے روکاکیونکہ ان دنوں انکے والد کے مطابق جاگیر دار طبقے میں میٹرک کی تعلیم کافی تھی۔
لیاقت علی خان نہ مانے اور ضد کر کے محمدن اینگلو اورینٹل کالج علیگڑھ جس کا کہ اس وقت الٰہ آباد یونیورسٹی سے الحاق تھا میں داخلہ لے لیا۔ ایک بار ایف۔اے کے امتحان میں فیل ہو گئے تو اتنے شرمندہ ہوئے کے مارے ندامت کے والد کو مُنہ تک نہ دکھاتے تھے۔ ایک دفعہ بڑے بھائی کی طرف سے فیل ہونے کی وجہ پوچھنے پر صرف مُسکرا کر یہ کہا تھا کہ ناکامی ہی تو عظمت کی نشانی ہے۔ بہرحال لیاقت علی خان نے ایک دفعہ پھر دل لگا کر محنت کی اور ایف۔ اے کا امتحان پاس کر لیا۔
لیاقت علی خان سر سید احمد خان کی تعلیمی اصلاحات، سیاسی اور علمی بصیرت سے بہت متاثر تھے۔ لہذا ایف۔اے پاس کرنے کے بعد ایک دفعہ پھر والدین کی مخالفت کے باوجود علیگڑھ کالج میں ہی بی۔اے میں داخلہ لے لیا اور 1918ء میں علیگڑھ کالج سے بی۔اے کا امتحان پاس کر کے الٰہ آباد یونیورسٹی سی بی۔اے کی ڈگری حاصل کی۔
لیا قت علی خان نے ابھی بی۔اے کرنے کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے لندن جانے کا فیصلہ کیا تھا کہ اُنکے والد کا انتقال ہو گیا۔ جس کا اُنھیں شدید صدمہ ہوا۔ جس کے بعد لیاقت علی خان کے بڑے بھائی نے مشورہ دیا کہ اُنھیں لندن جانے کا ارادہ ترک کر کے ہندوستان میں ہی سول سروس میں شامل ہو جانا چایئے۔ لیکن لیاقت علی خان اس بات کو گول کر گئے اور 1919ء میں مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے لندن تشریف لے گئے۔ اُنکے بڑے بھائی نے اسکے باوجود بڑی کاوشوں سے لندن میں ہی اُنکے لیئے سول سروس میں انٹرویو دینے کا انتظام کروا لیا اور اُنھیں لکھا کے وزیرِ ہند کے رُو برو پیش ہو کر انٹرویو دے دیں۔ لیاقت علی خان نے لندن میں جاکر جب وہاں کی قوم کا رویہ ہندوستانیوں کے بارے میں اچھا نہ پایا تو اُنھوں نے اس ہی وقت ارادہ کر لیا تھا کہ وہ کبھی بھی انگریزوں کی ملازمت نہیں کریں گے۔ لہذا اُنھوں نے اپنے بھائی کو صاف لکھ دیا کہ نہ تو انٹرویو دیں گے اور نہ ہی مستقبل میں کبھی سول سروس میں شامل ہونگے۔ بلکہ تعلیم مکمل کر کے مسلمانوں کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دِلوانے کی کوشش کریں گے۔
لیاقت علی خان نے ابتداء میں انگلستان میں کیتھرائن کالج میں داخلہ لیا اور پھر جلد ہی آکسفورڈ کے ایکسیٹر کالج میں فلسفہِ قانون کے مضمون میں داخلہ لے لیا۔ ساتھ میں وہاں ہندوستان کے طلبہ کی " ہندوستانی مجلس" کے سرگرم رُکن بن گئے اور جلد ہی اُس مجلس کے خزانچی بھی مقرر ہوگئے۔ بلکہ موقع ملنے پر اپنے سیاسی خیالات کا بخوبی اظہار بھی کرتے رہے۔ 1921ء میں اُنھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور پھر بیرسٹری کیلئے انرٹمپل میں داخلہ لے لیا۔ وہاں بھی اُنھوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کو جاری رکھا اور سیاست ِعالم کی واقفیت کے ساتھ ساتھ برصغیر کی سیاسی صورتِ حال سے بھی مکمل طور پر آگاہی حاصل کر لی۔ اس سلسلے میں اُنھوں نے کچھ یورپین ممالک کے دورے کیئے۔ 1922ء میں لیاقت علی خان نے انر ٹمپل سے بار ایٹ لاء کی ڈگری حاصل کی اور پھر ایک پیشہ وارانہ اور پختہ سیاسی ذہن لیکر واپس ہندوستان آگئے۔
قد اچھا، تندرست جسم، گول چہرہ، موٹے موٹے گال، نوکدار موٹی سی ناک، رنگ بادامی اور آنکھوں میں دُوراندیشی کے سُرخ سُرخ ڈورے ظاہر ہونے والی شخصیت لیاقت علی خان جب ہندوستان واپس آئے تو محمد علی جناح کانگرس سے علٰحیدگی اختیار کر چکے تھے۔ مسلمان نمائندے گاندھی کے زیر ِ اثر آچکے تھے اور گاندھی خود حکومت کے خلاف بغاوت اور بے اطمینانی پھیلانے کے الزام میں جیل جا چکے تھے۔ ان حالات میں لیاقت علی خان نے سب سے پہلے تو صوبہ یو۔پی کے شہر مظفر نگر میں اپنی خاندانی جاگیر پر جا کر رہائش اختیار کی اور پھر اُنھوں نے اپنے آپ کو ہندوستانیوں کو گرداب سے نکالنے کیلئے تیار کر لیا۔
اُنھیں اس دوران ایک دفعہ پھر انڈین سول سروس میں شامل ہونے کا موقع میسر آیا لیکن اُنھوں نے وکالت کی پریکٹس کرنے کا پروگرام بنایا اور اس سلسلے میں اُنھوں نے پنجاب ہائی کورٹ میں اپنا نام بھی رجسٹر کروا دیا۔لیکن بعد میں اس پر بھی عمل اس لیئے نہیں کیا کیونکہ اصل میں خوش قسمتی سے اُنکی خاندانی جائیداد اتنی تھی کہ اُس میں خوش اسلوبی سے زندگی بسر ہو رہی تھی۔ بلکہ اُنھوں نے اپنی اس مالی حیثیت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے باقاعدہ طور پر اپنے آپ کو سیاست، تعلیم اور سماجی کاموں کیلئے وقف کر دیا۔ اس اثنا میں لیاقت علی خان علی گڑھ یونیورسٹی ایگزیکٹو کونسل کے رُکن منتخب کر لیئے گئے جس کا یہ فائدہ ہوا کہ اُنکا علیگڑھ یونیورسٹی میں آنا جانا شروع ہوگیا اور وہاں کے مسلمان طلبہ کو اُنکے سیاسی نظریات کو جاننے کا موقع مل گیا۔
لیاقت علی خان 1923ء میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔لیکن جب 1926ء میں صوبائی قانون ساز اسمبلی کیلئے انتخابات ہوئے تو اُنھوں نے آزاد امیدوار کے طور پر مظفر نگر کے علاقے سے انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ہوگئے۔ شروع میں اُنھوں نے کافی احتیاط سے کام لیا اور ایوان میں کسی پارٹی کا ساتھ نہ دیا۔ لیکن بعد میں ارکان ِ اسمبلی کو ساتھ ملا کر ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے اسمبلی میں ایک سیاسی جماعت قائم کر لی اور اس کے لیڈر منتخب ہو گئے۔ اس کے کچھ عرصے بعد جب ایوان میں ڈپٹی سپکر کیلئے انتخاب ہوا تو لیاقت علی خان متفقہ رائے سے اس عہدے کیلئے منتخب ہو گئے۔ اُس وقت اُن کی عمر 31 سال تھی۔ ْٰؒٓ لیاقت علی خان پہلے تو اکثر مسلمانوں کیلئے جُداگانہ انتخابات کی مخالفت کیا کرتے تھے۔ پھر مستقبل میں ہندوؤں کا رویہ اور نہرو رپورٹ جیسے واقعات پیش آئے تو لیاقت علی خان جُداگانہ انتخابات کے خود سب سے بڑے حامی ہو گئے۔
دسمبر1928ء میں جب کلکتہ میں نہرو رپورٹ کے علاوہ مسلمانوں کی تعلیمی، لسانی، مذہبی، ذاتی قوانین اور رفاعہ عامہ جیسے امور پر بھی بحث کرنے کیلئے آل پارٹیز کانفرنس کا انقعاد ہوا تو لیاقت علی خان بھی اس میں شریک ہوئے اور محمد علی جناح سے پہلی دفعہ ملاقات کی۔ اسطرح اس کانفرنس میں مسلمانوں کی طرف سے ایک نئی سیاسی شخصیت کا تعارف ہوا۔ لیاقت علی خان کو اس مقبولیت کا یہ فائدہ ہوا کہ اُنھوں نے 1930ء میں ایک دفعہ پھر صوبائی قانون ساز اسمبلی کی نشست بلا مقابلہ جیت لی۔
٭(جاری ہے)٭
Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 310071 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More