شہباز (ن) لیگ کے صدر مریم نائب صدر۔۔ سیاسی جماعتیں یا فیملی لمیٹڈ کمپنیاں

image
 
کوئی سیاسی کیریئر ہے نہ کسی کام کا عملی تجربہ ۔۔ کسی کو ماں باپ تو کسی کو نانا دادا کی وجہ سے سیاست میں بڑے بڑے عہدے مل گئے۔۔ پاکستان میں سیاست کے نام پر چند فیملی لمیٹڈ کمپنیاں برسوں سے اقتدار پر قابض ہیں۔۔۔

مسلم لیگ (ن) کے انٹرا پارٹی الیکشن میں شہباز شریف آئندہ 4 سال کے لئے صدر، مریم نواز سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر منتخب ہوگئی ہیں،یہ دونوں بلا مقابلہ منتخب ہوئے ہیں۔ عمران خان کی تحریک انصاف کے علاوہ ایک دو بڑی جماعتیں ایسی ہیں جن میں خاندان کے لوگوں کی گنجائش نہیں جبکہ دیگر بڑی جماعتیں خاندان نظام کے تحت چل رہی ہیں۔

آج ہم آپ کو پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں خاندان قیادت کے بارے میں کچھ دلچسپ حقائق بتائیں گے۔۔ تو چلئے آپ کو پاکستان میں جمہوریت کے نام پر جاری کھیل کی اصلیت بتاتے ہیں۔۔

سیاستدان اکثر کہتے ہیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے لیکن اس انتقام کا نشانہ کون ہے یہ بتانا بھول جاتے ہیں۔ تو چلئے ماضی کی سب سے مقبول جماعت سے شروع کرتے ہیں۔
 
 
پیپلز پارٹی
ذوالفقارعلی بھٹو کو پاکستان کی سیاست میں کرشماتی شخصیت اور مزاحمت کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن جو لوگ نہیں جانتے ان کی معلومات کیلئے بتاتے چلیں کہ بھٹو مارشل لاء کے ادوار میں بھی بطور وزیر خدمات انجام دیتے رہے۔ دسمبر 1967 (انیس سو سڑسٹھ) میں انہوں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔۔ پیپلزپارٹی کہنے کو تو جمہوری جماعت ہے لیکن اس کی قیادت ہمیشہ بھٹو خاندان تک محدود رہی ہے اور جب قیادت سنبھالنے کیلئے بھٹو کم پڑے تو دوسروں کے نام کے ساتھ بھٹو لگاکر انہیں قیادت سونپ دی گئی۔آئیے دیکھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کس کس کے پاس رہیں۔ بھٹو کے بعد بیوی نصرت بھٹو۔ نصرت بھٹو سے بیٹی بینظیر بھٹو۔۔ بینظیر سے بیٹا بلاول گو کہ بھٹو نہیں لیکن ان زبردستی بھٹو بناکر قیادت سونپی گئی۔

مسلم لیگ فنکشنل
مسلم لیگ کے دیگر کئی دھڑوں کی طرح مسلم لیگ فنکشنل بھی سیاسی میدان کی ایک نامور جماعت ہے۔۔ اس پارٹی کی قیادت پیر پگاڑا شاہ مردان شاہ کے پاس رہی اور ان کے انتقال کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے پیر صبغت اللہ راشدی اس جماعت کے سربراہ بنے جبکہ ان کے بھائی پیر صدر الدین راشدی بھی پارٹی کے مرکزی رہنما ہیں۔

ن لیگ
اب اگر ماضی کی ایک اور مقبول ترین جماعت کی بات کریں تو ن لیگ بھی فیملی لمیٹڈ کمپنی ہی کہی جاسکتی ہے۔۔ ضیا الحق کی نرسری میں پرورش پانے والے نواز شریف ن لیگ کے سربراہ۔۔ بھائی شہباز شریف صدر۔۔ نواز شریف کی بیٹی مریم مرکزی نائب صدر اور اگر مزید ضرورت ہو تو حمزہ شہباز بھی دستیاب ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام
قیام پاکستان سے قبل وجود میں آنے والی جمعیت علمائے اسلام کی قیادت مفتی محمود کے بعد ان کے بیٹے مولانا فضل الرحمان نے سنبھالی۔ گو کہ اس وقت جے یو آئی میں مرکزی عہدے دیگر رہنماؤں کے پاس ہیں تاہم مولانا فضل الرحمان کے بیٹے اسعد محمود بھی سیاست میں فعال ہیں اور یقینی طور پر فضل الرحمان کے بعد قیادت ان کے بیٹے کو ہی منتقل ہوگی۔
 
image

تحریک لبیک
29 فروری 2016ء کو سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو پھانسی کی سزا کے بعد اگلے دن یکم مارچ کو وجود میں آنے والی تحریک لبیک نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں شہرت حاصل کرلی۔ نومبر 2020میں ٹی ایل پی کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی کی وفات کے بعد ان کے 26 سالہ صاحبزادے سعد رضوی کو پارٹی کی قیادت سونپ دی گئی۔

آگے ہم آپ کو ان جماعتوں کے بارے میں بھی بتائیں گے جہاں فیملی لمیٹڈ کمپنی کے بجائے جمہوری انداز میں قیادت منتقل کی جاتی ہے۔ تو ہمارے ساتھ رہیں۔

مسلم لیگ ق
2002 میں مسلم لیگ سے نکل کر مسلم لیگ ق بننے والی جماعت گو کہ اس وقت سیاست میں اپنی وقعت کھوچکی ہے تاہم اس جماعت کی قیادت کیلئے چوہدری شجاعت حسین کے بعد کے ان بیٹے چوہدری سالک حسین فیورٹ ہیں جو اس وقت وفاقی وزیر کے عہدے پر براجمان ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی
1986 کو وجود میں آنے والی عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ عبدالولی خان تھے ۔ ولی خان کی وفات کے بعد 8 سال تک اے این پی کی قیادت اجمل خٹک کے پاس رہی تاہم 1999 سے اب تک اسفند یار ولی اے این پی کے قائد ہیں۔۔ اور ان کے جانشین کے طور پر ان کے بیٹے ایمل ولی خان بھی سیاست میں متحرک ہیں۔۔ اے این پی خیبر پختونخوا کی قیادت ایمل ولی خان کے پاس جبکہ سندھ کی قیادت اسفندیار کے عزیز شاہی سید کے پاس ہے۔

ایم کیو ایم
پاکستان کی سیاست میں وڈیرانہ، جاگیرادانہ اور موروثی سیاست کیخلاف مزاحمت کی علامات ایم کیو ایم میں بانی و قائد الطاف حسین کی موجودگی میں بھی ان کا کوئی عزیز کسی اہم پارٹی عہدے پر نہیں رہا بلکہ کارکنوں کو اسمبلیوں میں بھیجا گیا اور آج بھی یہی نظام رائج ہے۔

جماعت اسلامی
پاکستان کی سیاست میں اگر جماعت اسلامی کو سب سے منظم جمہوری جماعت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔۔ جماعت اسلامی میں باقاعدہ سربراہ کا انتخاب ہوتا ہے۔ ایک مروجہ طریقہ کار کے تحت الیکشن میں کامیاب ہونے والوں کو جماعت کی قیادت سونپی جاتی ہے۔ قاضی حسین احمد۔۔ منور حسن۔۔ اور اب سراج الحق بھی الیکشن کے ذریعے ہی پارٹی کے سربراہ بنے اور رائج طریقہ کار کے تحت ہی آئندہ سربراہ کا انتخاب کیا جائیگا۔

تحریک انصاف
سانحہ نو مئی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کا شیرازہ بری طرح بکھر چکا ہے۔۔ تاہم 1996 کو وجود میں آنے والی جماعت میں موروثی سیاست کو معیوب سمجھا جاتا رہا ہے۔۔ پی ٹی آئی سربراہ عمران خان نے عزیزوں کو پارٹی میں اہم عہدوں سے نوازنے کے بجائے ساتھیوں کو اہم ذمہ داریاں دیں اور اب گرفتاری و سزا کی صورت میں پارٹی کو بکھرنے سے بچانے کیلئے اپنے بیٹوں یا رشتے داروں کی بجائے شاہ محمود قریشی کو اپنا جانشین مقرر کرکے فیملی لمیٹڈ سیاست کی نفی کی ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: