یونان کے قریب بحیرہ روم میں کشتی الٹنے کے سانحہ
کا حکومت نے سخت نوٹس لیا ہے۔ تحقیقات کے لئے تشکیل سی گئی 4 رکنی اعلیٰ
سطح کی کمیٹی نے کام شروع کردیا ہے جس میں آزاد کشمیر کے ایک ڈی آئی جی
پولیس بھی شامل ہیں۔ایف آئی اے اور آزاد کشمیر پولیس نے انسانی اسمگلنگ میں
مبینہ طور پر ملوث ایک درجن سے زئاد سب ایجنٹ گرفتارکئے ہیں۔مزید گرفتاریوں
کے لئے مختلف مقامات پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔پیر کے روز حکومت کے اعلان
پر یوم سوگ منایا گیا۔ اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن
(آئی او ایم) نے مختلف عینی شاہدین کے حواے سے کہا کہ کشتی پر 400 سے 750
افراد سوار تھے جن میں شامل متعدد پاکستانی شہریوں کے جاں بحق ہونے کا خدشہ
ہے ۔ ابھی تک سرکاری طور پر درست تعداد کی تصدیق نہیں ہو سکی۔پاکستان کے
دفتر خارجہ نے تصدیق کی کہ لوگوں کی تلاش جاری ہے۔ زندہ بچ جانے والوں کی
تعداد 104 بیان کی جا رہی ہے، جس میں 12 پاکستانی شامل ہیں۔وزیر اعظم میاں
شہابز شریف کے آفس میڈیا ونگ نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ وزیر اعظم نے
یونان میں 14 جون کو ہونے والے کشتی کے حادثے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے واقعے
کی تحقیقات کے لیے 4 رکنی اعلی سطح کمیٹی تشکیل دی اور پیر کویوم سوگ کے
موقع پر قومی پرچم سرنگوں رکھنے اور جاں بحق ہونے والوں کے لئے خصوصی دعا
کی ہدایت دی۔ کوٹلی کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) محمد ریاض
مغل نے تصدیق کی کہ ڈوبنے والی کشتی پر آزاد جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے
والے 21 افراد سوار تھے جو لاپتا ہیں۔ ان میں سے 19 کا تعلق کھوئیرٹہ اور
باقی کا تعلق اس کے پڑوس میں واقع علاقے چڑہوئی سے ہے۔ایس ایس پی کوٹلی کے
مطابق آزاد جموں و کشمیر سے 10 ’سب ایجنٹس‘ کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے
متاثرین کے اہل خانہ کی جانب سے ان افراد کے بارے میں فراہم کی گئی معلومات
کی روشنی میں حکمت عملی تیار کی اور یہ گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔
ملزمان نے متاثرین کو لاکھوں روپے کے عوض یورپ پہنچانے کا جھانسہ دیا۔
مشتبہ افراد کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کئے گئے ۔ گرفتارہونے
والے 10 ایجنٹ کوٹلی اور میرپور سے تعلق رکھنے والے لیبیا میں مقیم مرکزی
انسانی اسمگلروں کے سب ایجنٹ ہیں۔ ابتدائی تفتیش کے دوران مشتبہ افراد نے
تہلکہ خیز انکشافات کئے کہ وہ کس طرح اور کن افراد کے لئے کام کرتے تھے اور
اس گھناؤنے کاروبار میں اور کون کون افراد ملوث ہیں۔ ملزمان نے سفر کرانے
کے لئے ہر فرد سے 25 سے 30 لاکھ روپے وصول کئے۔ انہیں پہلے متحدہ عرب
امارات پھر مصر اور لیبیا لے گئے، اس کے بعد لیبیا سے بحیرہ روم کے ذریعے
متاثرین کے اس تباہ کن سفر کا آغاز ہوا۔پولیس دیگر مشتبہ افراد کی بھی تلاش
کر رہی ہے، گرفتار افراد کو جسمانی ریمانڈ کے لئے پیر کے روز جوڈیشل
مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ ایف آئی اے اینٹی ٹریفکنگ سرکل گجرات نے
کشتی حادثہ میں ملوث انسانی ایجنٹ کو گرفتارکیا۔ اس کے خلاف مقدمہ درج کر
لیا گیا۔ ایجنٹ نے متاثرہ شہریوں کو یورپ بھجوانے کے لئے پیسے وصول
کئے۔ایجنٹ کا تعلق وزیرآباد سے ہے۔ جس نے فی کس 23 لاکھ روپے وصول کئے۔
کشتی حادثے کی تحقیقات کے لئے 4 رکنی اعلی سطح کمیٹی میں نیشنل پولیس بیورو
کے ڈائریکٹر جنرل احسان صادق کوچئیرمین اور وزارت خارجہ کے ایڈیشنل
سیکریٹری (افریقہ) جاوید احمد عمرانی کو رکن مقرر کیا گیا ہے۔ آزاد جموں و
کشمیر پونچھ ریجن کے ڈی آئی جی پی سردار ظہیر احمد اور وزارت داخلہ کے
جوائنٹ سیکریٹری (ایف آئی اے) فیصل نصیر بھی کمیٹی میں شامل ہیں۔ کمیٹی
تمام حقائق جمع کرے گی۔ انسانی اسمگلنگ کے پہلو کی تحقیق ہوگی اور ذمہ
داروں کا تعین کیا جائے گا، عالمی سطح پر اس مسئلے کے حل کے لئے تعاون اور
اشتراک کے عمل کی تجاویز دی جائیں گی۔ فوری، درمیانی اور طویل المدتی قانون
سازی کا جائزہ لیاجائے گا، ایسے واقعات کا سبب بننے والے افراد، کمپنیوں
اور ایجنٹوں کو سخت ترین سزائیں دینے کے لئے قانون سازی ہوگی۔ کمیٹی کو ایک
ہفتے میں رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔اس رپورٹ کی روشنی
میں مزید کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔حکومت نے قانون نافذ کرنے والے
اداروں کو لوگوں کو جھانسہ دے کر خطرناک اقدامات پر مجبور کرنے والے انسانی
اسمگلروں کی نشاندہی کرنے کی ہدایت کی ہے۔انہوں نے انسانی اسمگلنگ جیسے
گھناؤنے جرم میں ملوث ایجنٹس کے خلاف فوری کریک ڈاؤن اور انہیں قرار واقعی
سزا دینے کی ہدایت کی۔ حادثے کا شکار پاکستانی شہریوں کی تمام تفصیلات فوری
مہیا کرنے، تمام پاکستانیوں کے لئے بہترین کاوشیں کرنے کا کہا گیا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وہ سُستی اور نااہلی برداشت نہیں کریں گے۔
متاثرہ پاکستانی خاندانوں کے لئے فوری طور پر ہیلپ ڈیسک قائم کئے گئے ہیں۔
انہیں تفصیلات سے آگاہ کیا جارہا ہے۔کشتی پر سوار افراد کی درست تعداد کا
تاحال پتا نہیں لگایا جاسکا، یونانی حکام نے غیر مصدقہ اطلاعات کا حوالہ
دیتے ہوئے کہا کہ کشتی پر سوار افراد کی کل تعداد 750 کے لگ بھگ ہو سکتی
ہے۔حادثے میں ایک زندہ بچ جانے والے شخص نے کالاماتا میں ڈاکٹروں کو بتایا
کہ اس نے کشتی میں 100 بچوں کو دیکھا تھا۔ پولیس نے 15 جون کو انسانی
اسمگلر ہونے کے شبہے میں 9 مصریوں کو گرفتار کرلیا، ان میں سے ایک اُس کشتی
کا کپتان تھا جو تارکین وطن کو لے جا رہی تھی۔مرنے والوں میں سے لا تعدادکی
شناخت تاحال نامعلوم ہے کیونکہ لاشیں ناقابل شناخت ہیں، یونانی حکام لاشوں
کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کرائیں گے۔سفارت خانے کی جانب سے اپیل کی
گئی کہ جن پاکستانیوں کو اندیشہ ہے کہ ان کے رشتہ داروں اس کشتی پر سوار
تھے وہ شناخت کے لیے ڈی این اے کے نمونے بھیجیں۔ لاپتا شخص کے شناختی کارڈ
یا پاسپورٹ نمبر کے ساتھ اس شخص کے والدین یا بچوں کی کسی معروف لیبارٹری
سے حاصل کردہ ’شارٹ ٹینڈم ریپیٹ (ایس ٹی آر) ڈی این اے رپورٹ‘ پاکستانی
سفارت خانے کے ای میل ایڈریس پر بھیجی جائے۔ یونان اور مصر میں پاکستانی
سفرا کو بھی ہنگامی اقدامات کی سخت ہدایت کی گئی ہیں۔ وزیر داخلہ رانا
ثنااﷲ کو اپنے اداروں کے ذریعے تفصیلات جمع کرنے اور تحقیقاتی رپورٹ دینے
کی ہدایت دی گئی ہے۔وزیراعظم چاہتے ہیں کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث پائے
جانے پر ایجنٹوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے
(ایف آئی اے) نے ڈی آئی جی عالم شنواری کو واقعے میں جاں بحق ہونے والوں
اور زخمیوں کی معلومات و سہولت کے لیے فوکل پرسن مقرر کر دیا۔ چیف سیکریٹری
آزاد جموں و کشمیر نے بھی پاکستانی سفارتخانے اور یونانی حکام سے رابطے اور
جاں بحق و زخمی ہونے والوں کی معلومات کے لئے فوکل پرسن تعینات کر دیا۔
یونان میں پاکستانی سفارتخانہ واقعے میں ریسکیو کئے جانے والے 12
پاکستانیوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ ایف آئی اے لوگوں سے اپیل کر رہا ہے کہ
جو اس واقعے میں ملوث ’مجرموں اور سہولت کاروں (ایجنٹ/انسانی اسمگلروں) سے
متعلق معلومات رکھتے ہیں‘ ایجنسی کو مطلع کریں اور ان کے ساتھ معلومات شیئر
کریں۔ایک ٹوئٹ میں ایف آئی اے نے کہا کہ ’کسی بھی شہری کے پاس یونان میں
کشتی الٹنے کے خوفناک واقعے کے مجرموں اور سہولت کاروں (ایجنٹ/انسانی
اسمگلروں) سے متعلق معلومات ہیں، بشمول کسی ایسے شخص کے بارے میں معلومات
جو ایک یا زیادہ افراد کو بیرون ملک بھیجنے میں ملوث ہو سکتا ہے۔ متاثرین
سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ایف آئی اے اسلام آباد (آئی سی ٹی، راولپنڈی
ڈویژن، گجرات اور لاہور) کے افسران کے ساتھ معلومات شیئر کریں۔ایف آئی اے
نے مذکورہ ایف آئی اے دفاتر کے اہلکاروں کے رابطہ نمبرز اور ناموں کے ساتھ
ساتھ ان کی پوسٹوں ، ہر برانچ کے ای میل ایڈریس بھی شیئر کئے۔ایف آئی اے
معلومات کا اشتراک کرنے والے شہریوں کے ناموں کو سختی سے خفیہ رکھنے کا
یقین دلا رہی ہے۔ برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ نے زندہ بچ جانے والوں کی
شہادتوں کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پاکستانیوں کو زبردستی کشتی کے
نیچے والے ڈیک میں بھیجا گیا ، دیگر قومیتوں کو اوپر والے ڈیک پر جانے کی
اجازت دی گئی جہاں ان کے گرنے سے بچنے کا بہت زیادہ امکان تھا۔زندہ بچ جانے
والوں کے بیانات سے پتا چلا کہ خواتین اور بچوں کو مردوں کے ہجوم سے بھری
کشتی میں محفوظ رکھنے کے لئے کشتی کے نچلے حصے میں سفر کرنے پر مجبور کیا
گیا تھا اور ان میں سے کسی کے بچنے کی اطلاع نہیں ہے۔دی گارجین نے دی
آبزرور کا حوالہ سے کہا کہ پاکستانی شہریوں کو بھی نیچے والے ڈیک میں رکھا
گیا، جب وہ تازہ پانی کی تلاش میں نظر آتے یا فرار ہونے کی کوشش کرتے تو
عملے کے ارکان نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔ایک رپورٹ میں مقامی میڈیا کا
حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ کم از کم 298 پاکستانی ہلاک ہوئے ہیں جن میں
سے 135 کا تعلق آزاد کشمیر سے تھا۔
اس سے پہلے بھی اٹلی اور لیبیا میں تارکین وطن کیکئیکشتیاں حادثے کا شکار
ہوچکی ہیں۔اس کے بعد اطالوی حکام نے غیرقانونی طریقوں سے مختلف ممالک کے
تارکین وطن کو بیرون ملک لے جانے والے 3 افراد کو گرفتار کرلیا۔ کشتی پر
سوار زیادہ تر تارکین وطن افغانستان سے آئے تھے۔ دیگر کا تعلق پاکستان،
ایران، صومالیہ اور شام سے تھا۔ ایک ترک اور 2 پاکستانی شہریوں کو خوفناک
موسم کے باوجود کشتی کو ترکی سے اٹلی کے لئے روانہ کرنے کا اصل مجرم قرار
دیتے ہوئے گرفتارکیا گیا ۔ ان تینوں نے مبینہ طور پر تارکین وطن سے اس سفر
کے لئے تقریباً 8 ہزار یورو (8 ہزار 485 ڈالرز) وصول کئے۔پاکستان میں
ترجمان دفترخارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ اٹلی کے ساحل میں ٹکرا کر
حادثے کا شکار ہونے والی کشتی میں سوار 20 میں سے 16 پاکستانیوں کی حالت
بالکل ٹھیک ہے۔دفترخارجہ نے کہا کہ لیبیا کے ساحلی شہر بن غازی میں کشتی کے
حادثے میں 7 پاکستانی جاں بحق ہوگئے۔ لیبیا میں پاکستان کا سفارت خانہ جاں
بحق افراد کی شناخت کے عمل میں سہولت فراہم کر رہا ہے۔ مقامی حکام اور ہلال
احمر کی انٹرنیشنل کمیٹی کے تعاون سے لاشیں پاکستان لائی گئیں۔ اسی طرح کا
ایک تیسرا واقعہ چند ماہ قبل جنوبی اٹلی کے ساحل میں پیش آیا تھا، حادثے کی
شکار کشتی میں پاکستان، افغانستان، ایران اور دیگر کئی ممالک سے تعلق رکھنے
والے افراد سوار تھے۔
کشتی ڈوبنے کے اس واقعہ سے ایک روز بعد ہی امریکی محکمہ خارجہ نے انسانی
اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے نمایاں کردار ادا کرنے پر پاکستانی پولیس افسر
ظہیر احمد کو ایوارڈ سے نوازا۔انہیں 2023 کے 8 انسداد اسمگلنگ ہیروز میں سے
ایک کے طور پر اعزاز سے نوازا گیا اور اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ پاکستان
نے انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے کوششوں میں اضافہ کیا ہے۔اعزازی فہرست
کا اعلان جمعرات (15 جون) کو واشنگٹن میں ایک خصوصی تقریب میں کیا گیا جہاں
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے 2023 کے لیے انسانی اسمگلنگ کی سالانہ
رپورٹ جاری کی۔رپورٹ میں پاکستان کو دوسرے درجے کے ممالک میں شامل کیا گیا
جہاں کی حکومتیں انسداد اسمگلنگ کے معیارات پر پورا نہیں اترتیں لیکن ان
معیارات تک پہنچنے کے لیے اہم کوششیں کر رہی ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ تسلیم
کر رہا ہیکہ 2022 میں پاکستان نے انسانی اسمگلروں کے خلاف تحقیقات، مقدمہ
چلانے اور سزا دینے کے لیے کوششوں میں مجموعی طور پر اضافہ ظاہر
کیا۔پاکستان کی پولیس سروس میں ایک ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ظہیر
احمد کو قانون نافذ کرنے والے ممتاز اداروں اور کارکنوں کی عالمی فہرست میں
سے منتخب کیا گیا جنہوں نے 2023 میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام میں کلیدی
کردار ادا کیا، اس سے قبل وہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے انسداد
انسانی اسمگلنگ یونٹ کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔امریکی محکمہ
خارجہ نے کہا کہ ظہیر احمد نے اس یونٹ کے ڈائریکٹر کے طور پر اپنے دور میں
انسانی اسمگلنگ سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی کوششوں کو بڑھانے میں اہم کردار
ادا کیا۔رپورٹ میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ قانون نافذ کرنے
والے اداروں میں بدعنوانی سے نمٹنے اور اسمگلنگ کے تفتیش کاروں اور
پراسیکیوٹرز کو بیرونی اثر و رسوخ سے بچانے کے لئے اقدامات کرے اور ہر قسم
کی اسمگلنگ کی سزاؤں میں اضافہ کریں۔ ان جرائم کی روک تھام کے حوالے سے
قانون نافذ کرنے والے اداروں، ججوں اور پراسیکیوٹرز سمیت اہلکاروں کو تربیت
دینے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔یہ پاکستان کے لئے بلا شبہ اعزاز کی بات ہے
مگر جب بھی کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ایف آئی اے
نے پاکستانیوں کو غیرقانونی طریقوں سے باہر بھیجنے والے افراد کے خلاف
تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔ تحقیقات اور متاثرین کو غیرقانونی راستوں سے باہر
بھیجنے والوں کو گرفتار کرنے کے لیے ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ جاں بحق افراد
کے لواحقین سے رابطے ہو رہے ہیں۔ عالمی ہیومن ٹریفکنگ نیٹ ورک سے کریک ڈاؤن
کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔مگر حکومت اس سلسلے میں ایک جامع حکمت عملی وضع نہیں
کر سکی ہے کہ جس سے انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس پر کریک ڈاؤن تیز کیا
جاسکے۔اطالوی وزارت داخلہ کے اعدادوشمار کے مطابق، 2022 میں105000 تارکین
وطن اطالوی ساحلوں پر اترے، جوگزشتہ سال کے مقابلے میں38000زیادہ ہیں۔یو
این ایچ سی آر نے کہا کہ ترکی سے تعلق رکھنے والے افراد نے اٹلی میں سمندر
کے راستے آنے والوں کا تقریبا 15 فیصد حصہ لیا۔ایف آئی اے نے لیبیا کے
راستے غیر قانونی طور پر پاکستانیوں کو یورپ بھیجنے میں ملوث مشتبہ افراد
کو ئی بارگرفتارکرنے کا دعویٰ کیا۔ مرکزی ملزم کو گرفتارکئے گئے۔
تارکین وطن کو یورپ لے جانے والی کشتی کے ڈوبنے کے بعد ملک میں اس سنگین
معاشی صورتحال کے بارے میں ایک بار پھر بحث چھیڑ دی ہے کہ کس طرح نوجوان
بیرون ملک بہتر حالات کی تلاش میں خطرناک سفر پر مجبور ہو رہے ہیں۔ وزیر
اعظم شہباز شریف نے پہلے بھی اسی طرح کے ایک سانحہ کے حقائق جاننے کا حکم
دیا تھا اورایف آئی اے نے کہا تھا کہ اس نے انسانی سمگلنگ کی تحقیقات کا
آغاز کر دیا ہے۔تا ہم ہر مرتبہ ایسا ہی کہا جاتا ہے۔ مگر زیادہ تر مجرم بچ
جاتے ہیں۔ ملک کا معاشی بحران اس سانحہ کی ایک بڑی وجہ سمجھا جاتا ہے کہ
لوگ خطرناک اور غیر قانونی طریقوں سے بھی بیرون ملک ہجرت کرنا چاہتے
ہیں۔ملک میں تباہ کن سیلاب نے 30 ارب ڈالر سے زیادہ کے معاشی نقصانات اور
لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر کے بحران پیدا کیا۔حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث
خوراک کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے
والے افراد کی تعداد دوگنی ہو کر 14.6 ملین ہو گئی ہے۔ورلڈ بینک نے اندازہ
لگایا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے مزید 90 لاکھ افراد غربت کی طرف گھسیٹ سکتے
ہیں۔ایشیائی ترقیاتی بینک اور آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کے 22 کروڑ
افراد میں سے پانچواں حصہ پہلے ہی قومی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے
ہیں۔اس وقت افراط زر تقریباً 30% پر چل رہا ہے، دولت کا فرق بہت زیادہ ہے،
اور امیر ٹیکس سے بچ جاتے ہیں۔ صرف ٹیکسٹائل کی صنعت میں تقریباً 70 لاکھ
کارکن اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں کیونکہ پیداواری لاگت بڑھنے اور
برآمدات میں کمی سے یہ شعبہ بری طرح متاثر ہواہے۔ ناقص پالیسیوں کا ذمہ دار
ہرحکمران دوسرے کو ٹھہراتا ہے جس نے پاکستان کو اس معاشی دلدل میں پھنسا
دیا ہے۔ تجارتی خسارہ ،کرنسی کی قدر میں کمی کا باعث بن رہا ہے۔اس وجہ سے
درآمدی لاگت میں اضافہ، قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہے ، کاروبار کرنے کی لاگت میں
اضافہ ہوتا ہے۔ ٹیکس سے بچنے اور کرپشن نے حکومت کے قرضوں کے بوجھ کو بھی
بڑھا دیا ہے۔ پاکستان میں، دیہی گھرانوں میں سے 5 فیصد امیر ترین کل زرعی
زمین کے تقریباً دو تہائی حصے پر قابض ہیں۔یہ امیر جاگیردار ٹیکس بالکل
نہیں دیتے اور غریب ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ چین نے 700 ملین ڈالر
کی کریڈٹ سہولت کی منظوری دی ہے۔اسلام آباد آئی ایم ایف کے ساتھ بھی بات
چیت کر رہا ہے تاکہ 2019 میں 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ سے 1 ارب ڈالر کے قرض
کی ادائیگی کو محفوظ بنایا جا سکے۔پاکستان نے مارکیٹ پر مبنی شرح مبادلہ کو
اپنایا، ایندھن اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا۔ سبسڈی کی واپسی، اور
مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لئے محصولات پیدا کرنے کے لیے مزید ٹیکس
لگائے۔ پاور سیکٹر کے قرضوں ، پالیسی ریٹ میں اضافے پرغور ہوا، جو اس وقت
17 فیصد ہے۔بین الاقوامی اداروں کی پالیسیاں پاکستان کے بحران کو مزید بڑھا
سکتی ہیں۔ہمارے درآمدی بل میں پہلے ہی سالوں میں اضافہ ہوا ہے اور اب آئی
ایم ایف غیر محدود درآمدات کا مطالبہ کرتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ آنے والے
سالوں میں پاکستان کے درآمدی بل میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے۔ معیشت کو
متحرک کرنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے
کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ گھروں اور سڑکوں
کی تعمیر سے، پاکستان مزید لاکھوں افراد کو غربت میں ڈوبنے سے روک سکتا ہے۔
ملک میں معاشی مواقع کی کمی کے باعث پاکستانی بیرون ملک ہجرت کرنے کی کوشش
کر رہے ہیں۔مزدور یہاں دن میں 12 گھنٹے سے زیادہ محنت کرنے کے بعد پریشان
ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ یہی کام اٹلی یا کسی دوسرے مغربی ملک میں
کریں تو وہ بہت سارے پیسے کما سکتے ہیں، جس سے ان کے خاندانوں کی مدد ہو
سکتی ہے۔لہذا لوگ بیرون ملک کام کی تلاش میں اپنی جانیں خطرے میں ڈال رہے
ہیں۔خوراک کی بڑھتی ہوئی عدم تحفظ، ملازمتوں کی کمی اور بنیادی ضروریات کی
بڑھتی ہوئی قیمتوں نے انہیں غیر قانونی طور پر یورپی ممالک کی طرف ہجرت
کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ایجنٹ انہیں کنٹینرز میں باندھ دیتے ہیں یا انہیں
بھری ہوئی کشتیوں میں دھکیل دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں ایسے سانحات رونما
ہوتے ہیں۔پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانی،ترقی انسانی
وسائل ساجد حسین طوری کا اعتراف چونکا دینے والا ہے کہ اپریل 2022 سے اب تک
6لاکھ پاکستانی ملازمتوں کے لئے بیرون ملک جا چکے ہیں۔ پولیسنگ کی ناکامی ،
اسمگلرز کا ملک کی بے روزگاری اور معاشی صورتحال کا کامیابی سے فائدہ اٹھا
نا، چند سال میں انسانی سمگلنگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ایف آئی اے کے اعداد و
شمار کے مطابق، مرد، خواتین، بچے اور خواجہ سراء بھی انسانی سمگلنگ کا شکار
ہوئے ہیں۔ ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے، پنجاب میں، اسمگلنگ کے
رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 6 تھی، جب کہ 2022 میں یہ تعداد بڑھ کر 217
تک پہنچ گئی ہے جو کہ حیرت انگیز طور پر 3,517 فیصد اضافہ ہے۔سندھ میں 2020
میں 6 کیسز رپورٹ ہوئے اور اس سال انسانی اسمگلنگ کے 434 کیسز کی تعداد
7000 فیصد سے زیادہ ہے۔کے پی میں رپورٹ ہونے والے کیسز 2021 میں 71 سے کم
ہو کر 2022 میں 61 رہ گئے ہیں، بلوچستان میں 2020 میں 4 کیسز رپورٹ ہوئے،
2021 میں یہ تعداد بڑھ کر 87 ہوگئی، اور اس سال 38 تک گر گئی ہے۔اسلام آباد
کیپٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) میں، 2020 میں اسمگلنگ کے کل رپورٹ ہونے والے 5
کیسز تھے اور 2022 میں بڑھ کر 26 ہو گئے ہیں۔ مجموعی طور پر، ایف آئی اے نے
2020 سے 2022 تک انسانی سمگلنگ کے 1,300 کیسز ریکارڈ کئے - مجموعی تعداد
ریکارڈ کے مطابق اکتوبر 2022 تک 7,000 افراد اسمگلنگ کا شکار ہو چکے ہیں۔
ایف آئی اے انسانی اسمگلنگ میں اضافے کے اہم عوامل مہنگائی، بے روزگاری اور
وسائل کی غیر مساوی تقسیم قرار دیتا ہے۔ پولیسنگ کو بہتر بنانے اور انسانی
اسمگلنگ کو روکنے کے لئے بنائی گئی قانون سازی کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے
کی ضرورت پر زوردیا جا رہاہے۔ ایف آئی اے کی ریڈ بک میں نامزد اشتہاری مجرم
پکڑنے میں کم دلچسپی دی جاتی ہے۔ اس طرح ملک میں انسانی سمگلنگ میں کمی
نہیں آسکتی۔پھر بھی ایف آئی اے سمگلنگ میں اضافے کے باوجود اس عمل کو روکنے
میں کامیاب ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو سالوں کے
مقابلے میں، اس نے 170 سے زیادہ انسانی سمگلروں کو گرفتار کیا ، بہت سے
لوگوں کو سزا ہو چکی ہے اور کچھ ابھی تک عدالتی حراست میں ہیں۔انسانی حقوق
کی مختلف تنظیمیں گزشتہ برسوں سے پاکستان میں انسانی سمگلنگ کے بڑھتے ہوئے
بحران کے بارے میں خبردار کرتی رہی ہیں۔مجرم اگر حکام اور اہلکاروں کے ساتھ
ملی بھگت نہ کریں تو کوئی جرم کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔ ہوائی اڈے پر سخت
چیکنگ، دفتر خارجہ اور سفارت خانوں ،ایف آئی اے کے متحرک ہونے کے مطالبہ پر
کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور تباہ حال معیشت کا
مطلب یہ ہے کہ اسمگلر آسانی سے لوگوں سے جوڑ توڑ کرتے رہیں گے۔ وہ نوجوانوں
کو بیرون ملک بہتر مواقع کے بارے میں جھوٹ بیچ کر نوجوانوں کو غیر قانونی
طور پر سرحد پار منتقل کر سکتے ہیں۔
|