پنجاب کے نگران وزیر اعلی محسن نقوی جب سے آئے ہیں اس وقت
سے پولیس بھی بڑی ہتھ چھٹ قسم کی ہو گئی ہے حالانکہ بطور صحافی وہ خود ان
چیزوں کے سخت خلاف ہوتے تھے ہوسکتا ہے کہ مصروفیات کے باعث وہ اب اس طرف
دھیان نہیں دے رہے امید ہے کہ وہ پولیس کا قبلہ بھی درست کرنے کی کوشش
کرینگے جس طرح دوسرے کچھ اداروں کا رویہ تبدیل ہوا خاص کر ہسپتالوں کے
ماحول میں تبدیلی ضرور آئی ہے رہی بات پولیس کی ایسا لگتا ہے کہ وہ قانون
پر عملدرآمد کروانے کی بجائے اسے بگاڑنے پر تلی ہوئی ہے قانون بھی عوام کے
ساتھ کھلواڑ کرتا ہے جن لوگوں کے پاس قانون کا علم نہیں ہوتا جن کے پاس
پیسہ نہیں ہوتا جن کے پاس سفارشیں نہیں ہوتی ایسے لوگوں کو با اثر لوگوں کے
ساتھ ملکر پولیس دبا لیتی ہے اور لوگ اپنا کیس واپس لے لیتے ہیں یا کیسوں
میں حاضر نہیں ہوتے جسکی وجہ سے بااثر جرائم پیشہ عناصر کی حو صلہ افزائی
ہوجاتی ہے اور پھر جرائم پروان چڑھتا ہے ایسے ماحول میں اور حالات کی تنگی
کی وجہ سے سفید پوش اور غریب لوگ کیسوں کی پیروائی نہیں کرتے لیکن کچھ لوگ
اس کلچر کو نہیں مانتے وہ بے پناہ دکھ ،تکلیفوں اور مسائل کے باوجود جسکی
لاٹھی اسکی بھینس جیسے کلچر کو فروغ نہیں دیتے بلکہ ڈٹ کر اسکا مقابلہ کرتے
ہیں اصل میں وہی لوگ ہیں جو قانون کی بالا دستی چاہتے ہیں آئین کی پاسداری
چاہتے ہیں انہی لوگوں میں ایک معصوم اور پری چہرہ سعدیہ خان ایڈوکیٹ کا بھی
ہے جو پولیس کے مظالم کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوگئی اس لیے نہیں کہ اسکے بھائی
کا مسئلہ ہے بلکہ اس لیے کہ آج کے بعد کسی کا بھائی کسھی کا بیٹا اور کسی
کا سہاگ پولیس کے ہاتھوں ظلم و بربریت کا نشانہ نہ بن سکے آج کے کالم میں
سعدیہ خان کا خط شامل کرتا ہوں جو معاشرے کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی
ہے۔میں قانون کی طالب علم ہونے کے ناطے یہ بات کہوں گی کہ انسان ساری عمر
کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا ہے زندگی ایک سیکھنے کا عمل ہے جب بات اپنے گھر کے
ذاتی مقدمے کی آئی تو پولیس کو غور سے دیکھا کہ تھانوں میں انصاف ملتا نہیں
انصاف بکتا ہے اور انصاف چھین کر لینا پڑتا ہے میراحقیقی بھائی محمد قاسم
خان جب 6-02-2023 کو مدینہ ٹاؤن کی حدود میں علاقہ تھانہ غازی آباد لاہور
میں قتل ہوا مقامی پولیس پہلے تو لاش کو ڈیڈ ہاؤس جنرل ہسپتال لیکر گئی جو
آفیسر لیکر گیا وہ کبھی ہم سے کاغذات منگواتا اور کبھی نیلا کاربن وغیرہ
اسی دوران جب ایف آئی آر کی درخواست تھانہ میں جمع کروائی تو SHO صاحب ایف
آئی آر نہ دے رہے تھے کیونکہ جن لوگوں نے میرے حقیقی بھائی کو نہ حق قتل
کیا تھا وہ علاقہ میں بااثر جرائم پیشہ افراد ہیں ان کے افراد پہلے ہی
تھانہ میں موجود تھے جب ملزمان کے ملنے والوں کو ہم نے تھانہ میں شناخت کیا
تو SHO صاحب غصے میں آگے اور کہا کہ یہ ہمارا CIA کا اہلکار ہے اور کہا کہ
میں ابھی آپ کی ایف آئی آر کا اندراج نہیں کرسکتا حالانکہ پولیس نے دیکھا
بھی تھا کہ معقتول جو فائر لگے ہوئے تھے جب SHO صاحب کو پتہ چلا کہ میں ایک
وکیل ہوں پھر وہ ٹال مٹول اور قانون سمجھانے لگے اور ایف آئی آر نمبر 1675
درج کی کیونکہ پہلے SHO صاحب اپنی مرضی کا استغاثہ لکھوانا چاہا رہے تھے
مقدمہ اندراج ہوکر انوسٹی گیشن کے پاس جاتا ہے تو پہلے 2/3 دن نقشہ موقعہ
نظری بلا سکیل بنانے کیلئے ٹائم دیا گیا پھر وہ بنایا گیا حالانکہ جو میرے
بھائی کو قتل کرنے اور کروانے کی نیت سے گھر سے لیکر گیا تھا اس کو پولیس
نے موقع سے پکڑ لیا تھا لیکن پولیس اس کو بچانے کی آج تک کوشش کر رہی ہے
کیونکہ وہ پولیس کا اہلکار ہے جسکا نام محمد وقار ہے اسکی آج تک انوسٹی
گیشن پولیس نے بھی گرفتاری نہ ڈالی ہے کیونکہ انچارج انوسٹی گیشن صاحب کہتے
ہیں وہ قتل میں شامل نہیں ہے اسکے علاؤہ 5 افراد میاں ذوالفقار،ابرار
ذوالفقار،ظہیر،محمد عاطف اورمحمد جاوید نامزد ہیں جن میں سے 4 افراد نے
معذز عدالت سے عبوری ضمانتیں حاصل کی ہوئی ہیں ابرار ذوالفقار کو چند دن
پہلے گرفتار کیاگیا وہ ریمانڈ پر ہے لیکن ایک پولیس اہلکار اورعلاقے کے
بااثر افراد کو بچانے کیلئے انچارج انوسٹی گیشن اعلی افسران کو غلط گائیڈ
کرکے تفتیش کا رخ موڑ رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ ایک ابرار نے فائر مارے ہیں
جبکہ ایسا نہیں ہے پولیس صرف تھانہ میں بیٹھ کر تفتیش کر رہی ہے علاقہ میں
جاکر تفتیش نہیں کر رہی انچارج صاحب اتنے اعلی انوسٹی گیشن آفیسر ہے کہ
انہوں نے میڈیکل رپورٹ آنے سے پہلے فائنل کر دیا کہ وہ کیسے قتل ہوا ہے
موقع کا نقشہ بنایا موقع کی جئیو فینسنگ نہیں کی اور کہ دیا کہ یہ افراد
وہاں موجود نہ تھے پولیس اہلکار کو تھانہ میں بتایا جارہا کہ آپ یہ بیان
دینا آپ کی جان بچ جائے گی کیونکہ پولیس اہلکار کا بھائی کچھ عرصہ قبل
تھانہ غازی آباد انوسٹی گیشن میں تعینات رہا ہے پولیس اہلکار کا والد
ریٹاٹرڈ سب انسپکٹر ہے جو غازی آباد میں رہا ہے اعلی افسران کو چائیے کہ
پولیس اہلکار کے موبائل فون کی CDR اور واٹس ایپ کا فرانزک کرائیں پولیس کے
اعلی افسران کو خود پتہ چل جائیگا کہ یہ کتنا ایماندار ہے جو جو ملزم پولیس
نے گرفتار کرلیے ہیں انکے واٹس ایپ کا فرانزک کروائیں تفتیش میں دودھ کا
دودھ پانی کا پانی ہو جائیگی اور میں ایک وکیل ہونے کے ناطے پولیس کے اعلی
افسران سے گزارش کرتی ہو کہ مقدمہ کو میرٹ پر حل کروائیں اس تفتیش کو جئیو
فینسنگ میڈیکل رپورٹ پر حل کیا جائے کیونکہ مقتول کے جسم پر تشدد کے نشان
بھی موجود تھے میں اپنے سینئر وکلاء کا شکریہ ادا بھی کرتی ہوں جو میرا اس
مقدمہ میں ساتھ دے رہے ہیں اور تمام بار ایسوسی ایشن کا جنہوں نے اس وقوع
کا مذمتی بیان جاری کیا میں اپنی کینٹ بار ایسوسی ایشن،لاہور بار ایسوسی
ایشن،ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے اوراپنے
سینئر وکلاء برادری سے درخواست کرتی ہو کہ میرا اس مقدمے میں مزید ساتھ دیں
میرے ساتھ ملکر پولیس سے انصاف کے تقاضے پورے کروائیں میں اپنے تمام وکلاء
برادری کی مشکور ہونگی کیونکہ ذوالفقار اور اسکا گرہ علاقہ میں جرائم پیشہ
عناصر اور شوٹروں کے سہولت کار ہیں اور یہ خود کو ن لیگ کا کوآرڈینیٹر
بتاتا ہے جسکی وجہ مقامی پولیس اس کے ساتھ منسلک ہے وکلاء برادری میرا ساتھ
دیں اور مقامی پولیس مجھے اور میری فیملی کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ سعدیہ
خان ایڈوکیٹ ہائیکورٹ۔ |