اترکاشی سانحہ : رونے اور لڑنے کا فرق

اتر کاشی کی دگر گوں صورتحال پر رابطہ عامہ کے ذرائع ابلاغ میں سوڈا واٹر کا ابال دیکھ کر نصف صدی قبل ریلیز ہونے والی فلم ’ہاتھ کی صفائی ‘ کا نغمہ ’پینے والوں کو پینے کا بہانہ چاہیے‘ یاد آگیا ۔ عصرِ حاضر کے سوشیل میڈیا کی دنیا پر یہ مکھڑا معمولی ترمیم ’رونے والوں کو رونے کا بہانہ چاہیے‘ کے ساتھ پوری طرح منطبق ہوجاتا ہے۔اس کے برعکس اترکاشی پر اے پی سی آر کے جرأتمندانہ اقدامات اور کامیابی نے رونے اور لڑنے والوں کے فرق کو واضح کردیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے حالات بہت خراب ہیں لیکن ان میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرکے اس کو ادا کرنے کی سعی کرنے کے بجائے رونے دھونے اور شکوہ شکایت کو کافی و شافی سمجھ لیاگیا ہے۔ انسان فطرتاً سہل پسند واقع ہوا ہے۔ وہ اپنے ضمیر کی آواز پر کچھ کرنا تو چاہتا ہے لیکن اکبر الہ بادی کے مطابق’رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ‘ کی مصداق کوئی آسان سا علامتی کام یعنی اپنے دل کی بھڑاس نکال کر خود کو مطمئن کرلیتا ہے۔ یہ قدیم مرض ہے جس سے متاثر ہوکر غالب نے کہا تھا؎
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

غالب چونکہ غالب تھا اس لیے اس کا یہ مطلع ادب کا شاہکار بن گیا لیکن عام لوگوں کا یہ مشغلہ ذاتی گفتگو تک محدود رہ جاتا تھا۔ فی زمانہ سوشیل میڈیا نے یہ سہولت فراہم کردی ہے کہ آپ بہ آسانی اپنے جذبات و احساسات کو عالمی پیمانے پر لے جاسکتے ہیں۔ ایک مراسلہ یا مضمون لکھ کر فیس بک یا واٹس ایپ پر ڈال دیں اور وہ جنگل کی آگ کے مانند منٹوں کے اندر دنیا بھر میں پھیل جاتاہے۔ اس سے آگے بڑھ کر ویڈیو بنائیں اور اسے یو ٹیوب و انسٹا گرام وغیرہ پر ڈال دیں تو دیکھتے دیکھتے سارے عالم میں اس کی پذیرائی ہونے لگتی ہے۔ دورِ جدید میں جس تیزی سے بات جاتی ہے اسی رفتار سے داد و تحسین بھی موصول ہونے لگتی ہے ۔ اس سے نوحہ گروں کے حوصلے اور بھی بلند ہوجاتے ہیں۔ ان خبروں کو پڑھنے اور دیکھنے والے انہیں فارورڈ کرکے اپنے نام نہاد فرضِ منصبی سے سبکدوش ہوجاتے ہیں ۔ ایسا کرتے وقت وہ اس سوال پر بھی غور نہیں کرتے کہ کہیں وہ نادانستہ دشمنوں کے امت کو احساسِ کمتری کا شکار کرنے کے منصوبے میں آلۂ کار تو نہیں بن گئے؟ ان ناانصافیوں کا نوٹس لینا تو ضروری ہے لیکن ان کی جانب اے پی سی آر جیسی تنظیموں کو متوجہ کرنے کے بجائے کہ جو عملی اقدامات کرنے کے قابل ہوں عام لوگوں میں پھیلانے سےحزن و یاس کے سوا کیا حاصل ہوگا؟ یہ سوال قابلِ توجہ ہے۔

اتر کاشی اور اطراف کے علاقہ میں مبینہ لوجہاد شوشہ چھوڑ کر مسلمانوں کے خلاف جو منافرت پھیلائی گئی اور انہیں کاروبار کو ختم کرکے ہجرت کرنے پر مجبور کیااسے دیکھ کرہندو سادھو سنتوں کی منافقت پر ہنسی آتی ہے۔ ہندو توا نواز تنظیموں نے حالات کو مزید بگاڑنے کے لیے15؍ جون کو مہا پنچایت کا اعلان کیا تھا ۔یہ سارا معاملہ ایک فرضی کہانی پر گھڑا گیا جس میں ہندو لڑکی کے تعلق سے عبید نامی نوجوان پر لَو جہاد کا الزام لگایا گیا جبکہ وہ لڑکی اسے جانتی تک نہیں بلکہ وہ توجتیندر سینی نامی ہندو لڑکے کی محبت میں گرفتار ہے۔ عبید چونکہ جتیندر کا شنا سائی ہے اس لئےان تینوں ایک ساتھ گھومتے ہوئے پکڑکر مقامی افراد نے لَو جہاد کا رنگ دے دیا ۔ اس کے بعدپرولا میں دھمکی آمیز پوسٹر لگے اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کواپنی 30؍ دکانیں بند کرنے پر مجبورہونا پڑا نیزمتعدد مسلمان محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے۔ پولیس نے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کی مگر مسلم طبقہ کے لیے انتظامیہ کی یقین دہانیوں پر اعتماد کرنا مشکل تھا ۔ ضلع افسر ابھیشیک روہیلا اور اعلیٰ پولیس افسرارپن یدونشی نے وشو ہندو پریشد کے ساتھ مسلم نمائندوں اور دکانداروں کی میٹنگ کرائی جس میں وی ایچ پی والے شر انگیزدھمکیاں دیتے رہے ۔

اتر کاشی میں فرضی لَو جہاد کے خلاف 15؍ جون کو جو مہاپنچایت بلائی گئی تھی اس کے خلاف سپریم کورٹ میں ایڈوکیٹ شاہ رخ عالم نے عرضی دائر کی۔ عدالتِ عظمیٰ نے اتراکھنڈ حکومت کو اشتعال انگیز تقریر کے خلاف کارروائی کرنے اور ایسی تقریبات پر پابندی لگانے کی ہدایت تو دی مگر سماعت سے انکار کرتے ہوئے یہ کہا کہ امن و امان کو برقرار رکھنا انتظامیہ کا کام ہے۔ اس کے ساتھ سابقہ فیصلوں کے حوالے سے ہائی کورٹ جانے کی تلقین کی ۔ دریں اثنا، دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند اور مصنف اشوک واجپئی نے اس مہاپنچایت کے خلاف چیف جسٹس کو ایک لیٹر پٹیشن بھیجی اور غیر سرکاری تنظیم پیپلز یونین فار سول لبرٹیز (پی یو سی ایل) نے بھی نوٹس لینے اور مہاپنچایت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ۔ ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کی جانب سے جب ایڈوکیٹ شاہ رخ عالم نے اتراکھنڈ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو چیف جسٹس وپن سانگھی اور جسٹس راکیش تھپلیال کی بنچ اسی دن سماعت کے لئے راضی ہوگئی۔

ہائی کورٹ میں اے پی سی آر کے ایڈوکیٹ شاہ رخ عالم، طلحہ اے رحمٰن، آرکیت کرشنا اور پریا وتس نے مبینہ طور پر 5 جون 2023 کو وشو ہندو پریشد کے لیٹر ہیڈ پر نئے ٹہری ضلع کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو بھیجے گئے خط کی طرف توجہ مبذول کرائی۔اس مکتوب میں ریاست کے مخصوص علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کو اپنے گھر خالی نہیں کرنے کی صورت میں 20 جون کو ہائی وے بلاک کرنے کی دھمکی دی گئی تھی ۔ ان لوگوں کے نفرت انگیز تقاریر کی جانب سپریم کورٹ کے حکم کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ۔ سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز پوسٹس اور بعض تنظیموں کی طرف سے جاری کردہ دھمکی آمیز خط پر اس کے لیے ذمہ دار افراد کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کا مطالبہ کیا ۔ عدالت نے اس گزارش کو ماننے سے تو انکار کیا لیکن ریاست کو فرض منصبی ادا کرنے یعنی امن و امان برقرار رکھتے ہوئے تمام افراد کی جان و مال کی حفاظت کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نےدس دنوں کے دوران کوئی کارروائی نہیں کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا اورمذکورہ خط پر دستخط کرنے والوں کے خلاف جامع ایف آئی آر درج نہیں کرنے کو افسوسناک بتایا۔ اس طرح کی بے عملی کوسپریم کورٹ کے مخصوص حکم کے ساتھ ساتھ تعزیرات ہند (IPC) اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (UAPA) کی مختلف دفعات کے خلاف بتایا۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ خط کا مواد قومی سالمیت کے خلاف کارروائیوں کو اکساتا ہے اور انتشار کا سبب بنتا ہے ۔

عدالتی کارروائی کے دباو کا اثر یہ ہوا کہ اترکاشی ضلع انتظامیہ نے مہاپنچایت کو لے کر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے مہاپنچایت کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ۔ ایس ڈی ایم اترکاشی ابھیشیک روہیلا نے پرولا میں 19؍ جون تک دفعہ 144؍ نافذ کر دی ۔ انہوں نے دوٹوک انداز میں کسی بھی تنظیم کو حالات بگاڑنے کی اجازت نہیں دینے کا اشارہ دیا ۔ حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے ایس ڈی ایم کی قیادت میں مقامی پولیس نے پرولا کے ہر علاقے میں فلیگ مارچ کیا اور سبھی سے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کی ۔ انتظامیہ کے اس موقف کی وجہ سے مقامی گرام پردھانوں کی تنظیم ڈر گئی مگرپہلے تو وی ایچ پی اور بجرنگ دل ہر قیمت پر مہا پنچایت منعقد کرنے کے لئے بضد رہے لیکن پھر انہیں بھی ہتھیار ڈالنےپر مجبور ہونا پڑا کیونکہ پولیس کی مدد کے بغیر یہ لوگ بھیگی بلی بن جاتے ہیں ۔پرسنل لا بورڈ نے ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کی کوششوں کو سراہا جس کی پی آئی ایل پر اتراکھنڈ کے ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو امن و امان اور قانون کی حکمرانی کو تلقین کی تھی ۔ کورٹ نے شہریوں کو بھی ہدایت کی کہ وہ سوشل میڈیا پر کو ئی غیر ذمہ دارانہ پوسٹ نہ ڈالیں اور نہ ہی سوشل میڈیا ڈبیٹس میں کوئی ایسی بات کہیں جس سے ریاست کا ماحول خراب ہو۔

اے پی سی آر کے قومی سکریٹری ندیم خان نے مہاپنچایت کی منسوخی کو ایک مثبت قدم قرار دیا لیکن ساتھ ہی خوف اور پولرائزیشن کی زمینی حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنےکا مشورہ دیا۔انہوں نے ریاستی حکومت کو مسلم تاجروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کی گزارش کی ۔ ندیم خان نے امید ظاہر کی کہ حکام نفرت انگیز تقاریر اور تشدد کے واقعات کی تحقیقات کے لیے فوری کارروائی کریں گے۔ وہ جامع ایف آئی آر درج کرکےنفرت انگیز جرائم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے، اس طرح انصاف، مساوات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے اصولوں کو برقرار رکھا جائے گا۔پرسنل لا بورڈ نے بھی ہائی کورٹ کے فیصلے کو سراہا اور حکومت کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلایا۔ اے پی سی آر کی یہ کامیابی ’ہمت مرداں مدد خدا ‘کی منہ بولتی تصویر ہے۔ امت کو مایوسی کا شکار ہونے کے بجائے عزم و حوصلے کے ساتھ میدانِ عمل میں جدوجہد کرکے کامیابی سے ہمکنار ہونے کی ترغیب بھی ہے۔ ایسے میں احمق پھپھوندی کے یہ اشعار یاد آتے ہیں ؎
اگر کوہ گراں بھی ہوگا اپنی راہ میں حائل
اسے بھی پائمال عزم و ہمت کر کے چھوڑیں گے
غرض اب یہ تہیہ کر لیا ہے مستقل ہم نے
فنا اک دن یہ طاغوتی حکومت کر کے چھوڑیں گے
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449810 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.