نظامِ زَر اور عالَم اسلام (قسط اوّل) - (Money system and Islamic World)


• زَر'' کی حیثیت • زَر'' کی تعریف • اِفْراطِ زَر کا معاملہ • کرنسیوں کا ارتقاء • نظامِ مقایضہ • قیمتی دھاتی اشرفیاں یا سکّہ • کاغذی کرنسی یا رسیپٹ • فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے • کاغذی کرنسی کے منفی اثرات • پلاسٹک کرنسی • ای کرنسی • کرپٹو کرنسی یا ورچوئل کرنسی • بلاک چین سسٹم کیا ہے؟ • کرپٹو کرنسی کا تعارف • بِٹکوئن یا کرپٹو کوئن کی تیاری • کرپٹو کرنسیز کی مختلف اقسام • کرپٹو کرنسی کے نقصانات و منفی اثرات • کرپٹو کرنسی اور عالم اسلام • اسلام اور نظام زَر

﴿وَلَا تَاۡكُلُوۡٓا اَمۡوَالَـكُمۡ بَيۡنَكُمۡ بِالۡبَاطِلِ﴾
اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دُوسرے کے مال ناروا طریقہ سے کھاؤ۔ (البقرۃ: 188)
''نظامِ زَر اور عالَم اسلام'' اس موضوع پر لکھنے کی جسارت اس لئے ہوئی کہ میں نے بمبئی کی جس اسکول سے تعلیم حاصل کی وہاں 8/ویں سے 10/ویں تک کامرس کے نام سے مختص کلاس ہوا کرتی تھی، وہاں کامرس کے عنوان کے تحت اسباق پڑھائے اور سکھائے جاتے تھے۔ اس کے بعد کالج میں کامرس فیکلٹی میں داخلہ ہوا، جہاں بارٹر سسٹم اور رائج دنیاوی اقتصادی و معاشی نظام پر کافی بڑے کینوس پر مطالعہ ہوا۔ اس موضوع کو تحریر میں لاتے وقت اپنی کم علمی کا اعتراف بھی شدت سے محسوس ہوا۔ لیکن اللّٰہ گواہ ہے کہ میں نے طالب علم کی حیثیت سے اس موضوع پر اپنے خیالات و احساسات اور جذبات کو حاصل مطالعہ کی حیثیت سے آپ کے ساتھ بانٹنے کی کوشش کی ہے۔
اس مضمون میں اس بات کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے کہ گفتگو کا مرکز صرف زَر، کرنسی اور موجودہ mode of payments and transactions ہی رہیں۔ فائنانس، تجارت، بینکنگ سسٹم، سودی نظام مَعِیشَت، نہ ہوں، کیونکہ الحمدُللّٰہ! ان موضوعات پر کافی کچھ لکھا اور کہا جارہا ہے۔ قدیم اور جدید ادوار میں رائج medium of money exchange کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ جس میں مندرجہ بالا نکات پر سیر حاصل گفتگو کرنے کی کوشش کی گئی ہیں۔
• ''زَر'' کی حیثیت:
قرآن کریم نے مال و زَر کو قیام للناس کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ تجارت و معیشت کو پسندیدہ اور اللّٰہ کا فضل کہا ہے، اور مال کو خیر کے لفظ سے ماخوذ کیا ہے۔ دولت و زَر، مال و متاع انسانی معاشرے میں بہت ہی اہمیت کے حامل ہوتے رہے ہیں۔ مال و زَر بنی نوع انسانی کے حیات کا سبب بھی ہے، زندگی کو برقرار رکھنے کا بڑا ذریعہ اور اہم وسیلہ مال و زَر ہیں۔
اسلامی معیشت و تجارت کا اصل فطری اور کامیاب ترین طریقہ یہی ہے کہ وہ زَر کی بنیاد پر ہو۔ زَر کی حیثیت و شرح ایک ایسے معیاری ذریعہ تبادلہ کی ہو جس پر تمام بنی نوع انسانی متفق ہوں۔
• ''زَر'' کی تعریف:
''زَر'' اصل میں فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کے حقیقی معنی سونا ہے اور مجازاً اس کا اطلاق چاندی و قیمتی دھات یا معدنیات اور دور حاضر کی کرنسیوں، روپیہ، پیسہ و دولت پر بھی ہوتا ہے۔ اور دنیا بھر میں اسی سونے و چاندی کے سکوّں کے ذریعے ''زَرِ مُبادَلَہ'' کا طریقہ، عام و خواص دونوں کے لئے آسان و معروف تھا۔
معاشیات میں زَر سے مراد ایک ایسا وسیلہ مبادلہ (medium of exchange) ہے۔ پیسہ یا زَر (money) ایک ایسی شے ہے جسے اجناس (goods) اور خدمات (services) وغیرہ کے تبادلے میں دیا جاتا ہے۔
اسلام کی تاریخ میں ''زَر'' یا ''کرنسی'' ہمیشہ سونے اور چاندی سے بنے سکّے ہی ہوا کرتے تھے۔ اللّٰہ ربّ العالمین! نے قرآنِ کریم میں جب کرنسی کا ذکر کیا ہے تو سونے کے دینار (سورہ آل عمران: 75) اور چاندی سے بنے دراہم (سورہ یوسف: 20) کے سکّوں کا ذکر کرکے بنی نوع انسانی کو اس بات کا علم دیا کہ کرنسی کی شکل اللّٰہ کے نزدیک سکّے ہی ہیں۔
سونے کے دینار اور چاندی کے دراہم کو ''شرعی زَر'' اس لیے کہا جاتا ہے کہ شریعت نے اس کے ساتھ دین کے کئی معاملوں کا تعلق جوڑ دیا ہے۔ مثلاً زکوٰۃ، مہر اور حدود وغیرہ میں۔ لہٰذا سونے اور چاندی کا ہر سکّہ دینار و درہم نہیں کھلائے گا بلکہ وہ سکّہ جو کم از کم بائیس (22k) قرات سونے سے بنا ہو اور اس کا وزن 4.25 گرام ہو تو اُسے ہم ایک دینار کہیں گے۔ چاندی کا سکّہ جو کم از کم 99% خالص چاندی سے تیار کیا گیا ہو، جس کا وزن تقریباً 2.975 گرام ہو اُسے ہم ایک درہم کہیں گے۔ دینار و درہم ان دونوں کو شریعت نے ''ثَمَن'' قرار دیا ہے۔ اس لیے اسلامی معاشی نظام میں جدید ٹیکنالوجی کو معلومات کی جلد رسائی کے لیے استعمال کیا جائے گا ناکہ بطورِ ''زَر''۔ بقول علامہ اقبالؒ:
؎ یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند بتان وھم و گماں لا الہ الا اللّٰہ
• اِفْراطِ زَر کا معاملہ:
محفوظ سونے سے زیادہ کاغذی کرنسی یا نوٹوں کا اجرا جس سے روپیہ کی قدر و قیمت گھٹ جاتی اور اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اِفْراطِ زَر کے مسائل کو حل کرنے کی غرض سے کاغذی، پلاسٹک، ڈیجیٹل اور ورچوئل یا کرپٹو کرنسیوں کا بڑا مسئلہ انسانیت کے سامنے پیش کیا گیا۔ جو مسائل کا حل کم اور اسے بڑھانے کا بڑا ذریعہ ثابت ہورہا ہے۔ عصر حاضر میں نظامِ معیشت کے سامنے جو اہم مسئلہ درپیش ہے وہ ہے اِفْراطِ زَر کا معاملہ۔ دنیا کے اکثر ممالک اس پریشانی کا شکار ہیں، اِفْراطِ زَر کی شرح اور رفتار بہت تیز ہے۔ بہت سے مسلم ممالک میں اِفْراطِ زَر کی شدید بہتات ہے۔ جس کے پس پشت سودی نظام معیشت کا بڑا دار و مدار ہے۔ جہاں سودی معیشت ہوگی وہاں اِفْراطِ زَر کسی نہ کسی صورت میں موجود ہوگا۔
اِفْراطِ زَر کی ایک سب سے بنیادی اور اہم وجہ حکومت کا اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے زیادہ نوٹ چھاپنا بھی ہے۔ ماہرینِ معاشیات کہ نزدیک اِفْراطِ زَر کی بحرانی کیفیت کو دور کرنے کا حل یہ ہے کہ سود و قرضوں کا کاروبار کرنے کے بجائے حقیقی تجارت ہو۔ حقیقی خدمات یا حقیقی اصول یعنی اثاثۂ جات کی بنیاد پر کاروبار کو فروغ دیا جائے۔ سودی معیشت کے بجائے مشارکانہ معیشت کی ابتداء کی جائے۔ کاغذی زَر کی بنیاد حقیقی زَر پر مشتمل ہو۔ اور زَر حقیقی کی بنیاد حقیقی موجودات یا حقیقی اثاثۂ جات real assets کی بنیاد پر ہو۔
• کرنسیوں کا ارتقاء: The Evolution of Currencies
ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک و معاشرے کی معیشت میں کرنسی کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ کرنسی (عُمْلَۃ یا عُمُلاَت) سے مراد ایسی چیز ہوتی ہے جس کے بدلے دوسری چیزیں خریدی یا بیچی جا سکیں۔ سونے کے دینار، چاندی کے درہم، روپیہ، پیسہ، نقدی، رقم سکّہ یا کرنسی سے مراد ایک ایسی چیز ہوتی ہے جس کے بدلے دوسری چیز خریدی یا بیچی جاسکے۔
تین ہزار قبل مسیح میں میسوپوٹیمیا میں شیکل سکہ بہ طور کرنسی استعمال ہونا شروع ہوا، جب کہ جاپان میں ایک خاص مقدار میں چاول کو 'کوکو‘ قرار دے کر جنسِ تبادلہ کے لیے استعمال کیا گیا۔ کہیں سمندری سیپیوں اور کوڑیوں کو کرنسی کی قدر مانا گیا۔
کرنسی وہ چیز ہونی چاہیے جس کی تخلیق انسان کے ہاتھ میں نا ہو اس لیے گولڈ زیادہ اہم سمجھا گیا۔ ٹائم ویلیو آف منی کو بھی دیکھنا ہے کرنسی وقت گزرنے کے ساتھ اپنی قدر کم کرتی ہے اور دھاتی کرنسی وقت کے ساتھ اپنی قدر بڑھاتی ہے۔ اس کے بمقابل کاغذی کرنسی دھوکہ ہے اور معیشت کو چند ہاتھوں میں دینے کے مترادف۔
بنک آف انگلینڈ کے گورنر نے 2014ء؁ میں ایک بہت اہم تقریر کی ہے، جس میں یہ کہا ہے کہ ہمارا banking system پانچ سال سے شدید بحران کا شکار ہے، لیکن ہم نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یعنی 2007ء؁ سے یہ بحران شروع ہوا ہے۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے پورے بنکاری طور طریقوں (banking culture) کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ہم بحران سے نہیں نکل سکتے۔
ڈیجیٹل کرنسیوں کی طرح کرپٹو کرنسی یا ورچوئل کرنسی کا وجود محض انٹرنیٹ تک محدود ہے، خارجی طور پر اس کا کوئی جسمانی وجود نہیں۔ عصر حاضر میں متعارف کی گئی کرپٹو کرنسیز ایک decentralised system سے ٹریڈ اور ٹرانزیکشن کرتی ہے، جسے بلاکچین بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے لئے کافی زیادہ کمپیوٹر پاور کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلاکچین اور ڈیجیٹل کرنسی مستقبل کی تجارت اور لین دین کے خدوخال مرتب کر رہی ہے۔
ایک وہ سکّوں کا دور تھا جب پیسہ کانوں (mines) میں پایا جاتا تھا اور لوگ اس کی تلاش کے لئے کان کنی (mining) کیا کرتے اور آج ایک یہ کرپٹو کرنسی کا موجودہ دور ہے کہ لوگ الگورتھم اور بلاکچین ٹیکنالوجی کے ذریعے کمپیوٹر سسٹم میں mining کرکے بِٹکوئن وہیل کا روپ دھارن کرتے ہیں۔
کرپٹو کرنسیوں کو کسی ایک مرکزی نظام کے تحت نہیں چلایا جاسکتا اور نہ ہی اس کی مدد سے کسی انسان کی ذاتی معلومات مل سکتی ہیں۔ اور نہ ہی یہ کہ اس نے وہ رقم ماضی میں کہاں اور کن مقاصد کے لیے استعمال کی کا پتا چل سکتا ہے۔ کرپٹو کرنسی کسی حکومتی پالیسی کے بغیر چلنے والا نیٹورک ہے۔ اسی لئے ہمارے ملک بھارت میں بھی کرپٹو یا ورچوئل کرنسی کے لین دین پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
فنانشئیل کیپٹلزم کے نام پہ دنیا میں تبدیلی تو آئی مگر اس سے دنیا کی بیشتر دولت صرف چند ہاتھوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ چیز لانگ رن میں مسائل کھڑے کر رہی ہے یعنی لامحالہ طور پہ ہم انسان معاشی لحاظ سے صرف چند ہاتھوں میں کٹپتلی بن کر رہے گئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں آج کا انسان گریٹ ڈپریشن سے نکل کر گریٹسٹ ڈپریشن میں پہنچ گیا ہے۔ اس کی وجہ سودی نظام اور موجودہ کرنسیوں کا نیٹورک ہی ہے۔ اسلام ہمیں حکم دیتا ہے اور یہ اسلامی معاشی پالیسی کا اہم نکتہ بھی ہے کہ:
کَیْْ لَا یَکُونَ دُولَۃً بَیْْنَ الْأَغْنِیَاء مِنکُمْ۔
وہ دولت تمہارے مالداروں کے درمیان (ہی) گردش کرنے والی نہ ہوجائے۔ (سورۃ الحشر: 7)
آج انسان ٹیکنالوجی و ترقی کے سہارے مواصلاتی ٹیکنالوجی میں 4جی (4G) کی صورت میں تیز رفتار انٹرنیٹ کی سہولیات سے ہوتے ہوئے ''کلاؤڈ کمپیوٹنگ'' (یعنی کسی بھی کونے میں بیٹھ کر کام کرنے اور معلومات تک رسائی) جیسے کام کو آسان سے آسان بنا کر ارتقائی سفر کی جانب گامزن ہے۔ فائیو جی ٹیکنالوجی کی سب سے اہم پارٹنر ٹیکنالوجی ''انٹرنیٹ آف تھنگز- IoT'' ہے۔ یہ مختلف طرح کے الیکٹرانک ڈیوائسز کے مابین خود کار اور منظم طریقے سے چلتا ہوا نیٹ ورک ہے۔ اسی نیٹورکینگ کے سسٹم سے مزید آگے بڑھتے ہوئے انٹرنیٹ، چین بلاکینگ ٹیکنالوجی اور ایلگوریدم کے ذریعے کرپٹو یا ورچوئل کرنسی کا وجود بنی نوع انسانی کے لئے کہیں تباہی کا باعث نہ بن جائے۔
(جاری)
 

Masood Khan
About the Author: Masood Khan Read More Articles by Masood Khan: 3 Articles with 1971 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.