|
|
ایک ایسے وقت میں جب ٹائٹینک کے ملبے تک تفریحی سفر پر جانے والی لاپتہ
آبدوز کے ملبے کی دریافت اور اس میں سوار پاکستانی نژاد سیاحوں سمیت پانچ
افراد کی ہلاکت کی تصدیق کردی گئی ہے، امریکی صحافی مائیکل گویلین نے ایک
ایسے ہی بھیانک ذاتی تجربے کی روداد سنائی ہے جب سنہ 2000 میں ایسی ہی
آبدوز نما میں اسی مقام پر وہ سمندر کی گہرائیوں میں پھنس گئے تھے۔
بی بی سی ریڈیو فور سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر گویلین نے بتایا کہ ’میں
ٹائٹینک کے ملبے کے مقام سے خبر دینے والا پہلا صحافی تھا اس لیے میں کافی
پرجوش تھا۔‘
اس وقت وہ امریکہ کے اے بی سی نیٹ ورک میں بطور سائنس ایڈیٹر کام کر رہے
تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ڈائیونگ پارٹنر برائن اور روسی پائلٹ وکٹر کے ساتھ وہ
ایک چھوٹی روسی آبدوز نما میں سوار ہوئے جسے سندر میں اتار دیا گیا۔
سمندر کی گہرائیوں میں پہچننے کے بعد سب سے پہلے انھوں نے جہاز کے ملبے کے
اگلے حصے کا جائزہ لیا جس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ اب پچھلے حصے کا جائزہ
لیا جائے، جو کچھ فاصلے پر موجود تھا۔
واضح رہے کہ 15 اپریل 1912 کو ٹائٹینک جہاز ڈوبنے سے قبل ہی دو حصوں میں
ٹوٹ چکا تھا۔
ڈاکٹر گویلین نے بتایا کہ ’جب ہم اس جانب پہنچے تو پانی کی رفتار کافی تیز
تھی۔‘
’اچانک جیسے ہم کسی چیز سے ٹکرائے اور یکدم ملبے کے بڑے بڑے ٹکڑے، جو
ٹائٹینک کے زنگ آلود حصے تھے، ہمارے اوپر گرنا شروع ہو گئے۔‘
’میں نے دل میں الوداع کہنا شروع کر دیا‘
|
|
|
ڈاکٹر گویلین کو اب بھی یاد ہے کہ ان کو اندازہ ہو چکا
تھا کہ وہ لوگ پھنس چکے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ موجود پائلٹ، جو ماضی میں روسی لڑاکا طیارے
اڑاتے تھے، آبدوز نما کو نکالنے کی کوشش کرنے لگے۔
’یہ ایسا ہی تھا جیسے آپ کی گاڑی کیچڑ میں پھنس جائے، آپ آگے جانے کی کوشش
کرتے ہیں، پیچھے جانے کی، پھر آگے اور پھر پیچھے تاکہ کسی طرح سے باہر نکل
سکیں۔‘
’ہم سب خاموش تھے۔ کسی نے بھی وکٹر کی توجہ ہٹانے کی کوشش نہیں کی۔ ہم
جانتے تھے کہ ہم مشکل میں پھنس چکے ہیں، اسی لیے ہم چپ رہے۔‘
ڈاکٹر گویلن کے مطابق وکٹر کی مہارت کی وجہ سے بلاآخر وہ باہر نکلنے میں
کامیاب ہو گئے۔
’ہم خوش قسمت تھے لیکن ہم تقریبا ایک گھنٹہ پھنسے رہے اور میں نے میں نے دل
میں الوداع کہنا شروع کر دیا تھا۔‘
’میں ان لمحوں میں اپنے دماغ میں آنے والی سوچ کبھی نہیں بھلا سکتا جب میں
نے سوچا کہ اس طرح تمہارا خاتمہ ہو گا۔‘
’لیکن پھر ہمیں محسوس ہوا کہ کچھ بدل گیا ہے، ایسا لگ رہا تھا کہ ہم تیر
رہے ہیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ یہ سب مکمل تاریکی میں ہو رہا تھا کیونکہ پائلٹ نے لائٹ
بند کر رکھی تھی۔
’پھر میں نے وکٹر سے پوچھا سب ٹھیک ہے؟‘
’وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولتا تھا۔ اس نے روسی لہجے میں جو جواب دیا وہ
مجھے اب بھی یاد ہے۔‘
اس نے کہا ’کوئی مسئلہ نہیں۔‘ میں نے سکھ کا سانس لیا۔
ڈاکٹر گویلین کا کہنا ہے کہ ان کو سمندر کی سطح پر واپس پہنچنے میں ڈھائی
گھنٹے لگے اور ان کا انتظار کرنے والے جہاز میں لوگوں کو اندازہ ہو چکا تھا
کہ کوئی مسئلہ ہوا ہے۔
ان کے مطابق سنہ 2000 میں صرف روس اور فرانس کے پاس ایسی آبدوزیں تھیں جو
سمندر کی گہرائیوں میں پانی کا زیادہ دباؤ برداشت کر سکتی تھیں۔
وہ جس 26 فٹ کی روسی آبدوز میں سوار تھے، اس کا لاپتہ تفریحی آبدوز سے
موازنہ کرتے ہوئے ڈاکٹر گویلین نے کہا کہ ’ہماری آبدوز اتنی پرآسائش نہیں
تھی۔ میں نے ٹائٹن کی تصاویر دیکھ رکھی ہیں۔ وہ تو ایک حویلی ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ جس آبدوز میں وہ سوار تھے اس میں دونوں طرف دو بینچ تھے
اور بیچ میں پائلٹ بیٹھا تھا۔
انھوں نے اعتراف کیا کہ ان کو پانی سے ڈر لگتا ہے۔ ’میرے لیے یہ سب کرنا
بہت مشکل تھا‘ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ٹائٹینک کے ملبے سے رپورٹنگ کے موقع کو
وہ گنوانا نہیں چاہتے تھے۔
سمندر میں جانے سے پہلے ان کو بتایا گیا تھا کہ آبدوز میں سفر کیسا ہو گا۔
امریکی صحافی نے بتایا کہ ’ہمیں ایک سچی کہانی سنائی گئی کہ ایک آبدوز میں
پھنس جانے والے ایک اور شخص پر کیا بیتی تھی۔‘
’اس کا پہلا ردعمل ہیچ کی جانب بڑھنا تھا کیونکہ جب آپ اس طرح پھنس جاتے
ہیں تو آپ فوری طور پر پہلے ردعمل کے طور پر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ہیچ کی
جانب ہاتھ بڑھاتے ہیں جو بالکل سر کے اوپر ہوتی ہے یہ سوچتے ہوئے کہ آپ
فرار ہو سکتے ہیں۔‘
|
|
’اس شخص نے گھبراہٹ میں یہی کیا اور خود کو ڈبو لیا کیونکہ جیسے ہی اس نے
ہیچ کھولی، پانی اندر آیا اور وہاں دباؤ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ یہ تیز دھار
آلے کی طرح آپ کو کاٹ دیتا ہے۔‘
’مجھے اپنے سفر کے دوران کسی کی جانب سے ایسا ہی کرنے کی فکر تھی تو میں
محتاط تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ میں گھبراہٹ میں کسی کے ایسا کرنے پر اس سے
نمٹنے کے لیے تیار تھا۔‘
’اس کی وجہ سے مجھے اس صورت حال سے نمٹنے میں مدد ملی کیونکہ مجھے ایک مقصد
مل گیا تھا، ایک وجہ مل گئی تھی کہ میں کسی اور چیز کے بارے میں نہ سوچوں۔‘
’اور پھر سائنس دان ہونے کے ناطے میں نے اپنے ذہن میں سوچنا شروع کر دیا کہ
ہمارے پاس آکسیجن کتنی دیر تک دستیاب رہے گی اور ہم کیا کر سکتے ہیں۔‘
’میں نے سوچا کہ کہ ہم کیا کریں تو اس مشکل سے نکل سکتے ہیں لیکن ایک موقع
آیا جب مجھے اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑا کہ باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔‘
’اور تب میرے ذہن میں یہ آواز گونجی کہ اس طرح تمہارا خاتمہ ہو گا اور یہ
ایک ماورائی سکون حاصل کرنے جیسا تجربہ تھا۔‘ |
|
Partner Content: BBC Urdu |