|
|
موسم گرما میں شمالی پنجاب میں 45 اور 46 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت
رہتا ہے۔ یہ وہ موسم ہوتا ہے جس میں آم کُھل کر پکتا ہے اور گرمی کی شدت
کی وجہ سے اس میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گرمی کے موسم میں ژالہ باری کی وجہ سے آم کی
فصلوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ بے موسمی برسات اور برف کے اولے کھڑی
فصلوں کو تباہ کردیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آم پکتا نہیں ہے اور مٹھاس بھی
نہیں آتی۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اپریل اور مئی کے مہینے میں اتنی گرمی نہیں پڑی
جتنی ماضی میں ان مہینوں کے دوران عموماً پاکستان میں ہوتی تھی۔ آپ کو
چاہے گرمی پسند نہ ہو لیکن آم کی فصل کے لیے گرمی بہت ضروری ہوتی ہے۔
گرمی کے موسم میں برسات کیلئے ہر کوئی دعائیں مانگتا ہے اور اگر گرمی میں
برف کے اولے پڑ جائیں تو شہریوں کیلئے تفریح کا ذریعہ بن جاتا ہے لیکن
کاشتکاروں کیلئے گرمی کی شدت میں کمی اور ژالہ باری تباہ کن ہوتی ہے۔
|
|
|
بے وقت کی بارشیں، ژالہ باری اور آندھی صرف آم ہی نہیں
بلکہ موسم گرما کے تمام پھلوں اور فصلوں کو نقصاں پہنچاتی ہے۔ اس سال اپریل
اور مئی میں گرمی کم رہی اور بارشیں زیادہ ہوئیں۔
کپاس کی فصل کے آغاز پر اگر گرمی کم ہو تو اس کے لیے اچھا ہوتا ہے مگر
بارش ہونے کے بعد اگر پانی کھڑا ہوجائے تو تباہی ہوتی ہے۔
پاکستان میں ژالہ باری کا عمومی مہینہ تو مارچ ہے تاہم گذشتہ ہفتے کے دوران
سوشل میڈیا پر چند علاقوں سے ایسی ویڈیوز اور تصاویر دیکھنے کو ملیں جن میں
اہلِ علاقہ کے مطابق آدھا کلو وزنی اولے پڑے جس نے گاڑیوں اور جانوروں کو
نقصان پہنچا۔
ژالہ باری اب صرف پہاڑی علاقوں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ سندھ کے حیدر
آباد، جامشورو اور کوٹری میں جیسے شہروں سے بھی شدید ژالہ باری ہوئی۔
بلوچستان کے ضلع خضدار میں پڑنے والے اولے تو ٹینس بال جتنے بڑے تھے۔
|
|
موسم گرما میں ژالہ باری کھڑی اور تیار فصلوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ
دیتی ہے۔ پھلوں کے دانوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور یہ صورتحال کسان کی کمر
توڑ کر رکھ دیتی ہے۔
پہلے کبھی کبھی ژالہ باری ہوتی تھی، جو کسی بھی فصل کے لیے انتہائی نقصان
دہ ہوتی ہے مگر اب تو ہر سال ایسا ہو رہا ہے اور اگر یہ سلسلہ یونہی جاری
رہا تو شائد پھلوں کابادشاہ آم پکے گا نہ مٹھاس آئے گی۔ |