علامہ قمرالزماں اعظمی: ایک ہمہ وصف شخصیت

داعیانہ فہم و فراست، تدبرو تفکر اور منفرد لب و لہجہ کے اعتبار سے مفکر اسلام مبلغ اسلام علامہ قمرالزماں اعظمی ممتاز ہیں۔ آپ کی سیمابی شخصیت نے صرف برصغیر ہی کو متاثر نہیں کیا بلکہ آپ کی خدمات کے چشمہ صافی سے سیرابی کرنے والے پوری دنیا میں موجود ہیں۔ آپ جہاں جاتے ہیں دلوں میں گھر کر لیتے ہیں۔ گفتگو میں وہ بانک پن ہے کہ سنگ دل بھی موم ہوجائے۔ آپ کی خطابت میں محض اوصافِ خطابت کی جلوہ آرائی ہی نہیں بلکہ دل کے پاکیزہ جذبات کی عکاسی بھی موجود ہوتی ہے۔

کئی جہات سے علامہ موصوف کی ذات انفرادی حیثیت رکھتی ہے۔

اسلوب خطابت:
آج کل ہمارے یہاں کس طرح کی تقریریں ہوتی ہیں یہ مخفی نہیں، کم ہی تقریریں سنجیدہ اور بامقصد ہوتی ہیں۔ علامہ اعظمی نے خطابت کو نیا آہنگ عطا کیا، نئی فکر عطا کی، خطابت کو لب و لہجے کی چاشنی دی اور قوت عمل، جذبہ فکراور واردات قلبی سے آراستہ کیا، جس سے آپ کی خطابت ملّی احساسات کی ترجمان بن گئی۔ سامع کے لیے آپ کی گفتگو میں اصلاح فکر و عمل کا سامان وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ ہر تقریر دعوت فکر ہوتی ہے جس سے دل کی دنیا میں انقلاب کی آہٹ محسوس کی جا سکتی ہے۔

ادبیت اور لسانی اقدار کے لحاظ سے آپ کی خطابت نے زبان کو نئے لب و لہجہ اور اسلوب کی جواہر سے مالا مال کیا ہے۔ وضع اصطلاح میں بھی آپ کا جواب نہیں۔ اربابِ ادب سے پوچھیے وہ یہی کہتے ہیں کہ علامہ اعظمی کی زبان فیض ترجمان سے زبان و ادب کے ساتھ کا دامن فیض یاب ہوتا ہے اور ہر ہر لفظ ادبیت کا آئینہ اور معنی کا گنجینہ بن کر ادا ہوتا ہے۔ اس جدت لسان و شکوہ الفاظ میں تصنع کا گمان بھی نہیں گزرتا گویا الفاظ صف بستہ اور مربوط ہوتے ہیں جو وقت کے اس عظیم مفکر کی زبان سے بے ساختہ ادا ہوتے چلے جاتے ہیں۔

موضوعات کا تنوع:
اچھوتے اور البیلے موضوعات کا انتخاب علامہ موصوف کا وصف ہے۔ جس عنوان کو موضوع سخن بناتے ہیں بھر پور مواد پیش کردیتے ہیں، وسعت مطالعہ کے ساتھ وسعت فکر اور طرز استدلال کے ساتھ توضیح بیان کی خوبی صاف جھلکتی ہے۔ وقت اور حالات کے تناظر میں خطاب کرتے ہیں۔ ان کی ہر بات امت مسلمہ کو درپیش مسائل کے گرد گردش کرتی ہے، صحیح ہے حالات سے نگاہیں موند لینا بندہ مومن کا شیوہ نہیں، بندہ مومن کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ عرفان سے آشنا کراتا ہے اور مضرات سے متنبہ بھی کرتا ہے:
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بےزار کرے

باطل کی ریشہ دوانیاں، خارجی سازشوں کی بساط ، داخلی حملوں کی یلغار پر آپ عمیق نظر رکھتے ہیں اور ان کے سدباب کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ موضوعات کے انتخاب میں نفسیات کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں اور وہ خطیب جو نفسیات کو مدنظر رکھ کر مخاطب ہو اس کی بات مقصدیت سے قریب ہوتی ہے۔ علامہ موصوف کی ہر تقریر محض تقریر نہیں بلکہ اصلاح فکرو اعتقاد کی تنویر ہوتی ہے۔ ایسے موضوعات جن پر پیشہ ور مقرر بول نہیں سکتے آپ لمبی لمبی ساعت تک بلاتکلف بولتے ہیں اور وہ نکتے ارشاد فرماتے ہیں جن تک بہت سے ارباب فکر کی نگاہ بھی بسا اوقات نہیں پہنچتی۔ موضوعات کے انتخاب میں قوم کی تربیت کا پہلو پیش نظر رکھتے ہیں، چند موضوعات دیکھیں اور سوچیں کیا ہمارے خطبا انھیں موضوع سخن بناتے ہیں ؟لیکن علامہ اعظمی کی درجنوں تقریریں ان موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں:
(۱) توحید (۲) رسالت (۳) قیامت و برزخ (۴)تصور آخرت (۵)تصور سزا و جزا (۶)تصور انسانیت (۷)اصلاح عقیدہ (۸) اصلاح نفس (۹) اصلاح عمل (۰۱)خوف خدا (۱۱)احتساب اعمال (۲۱)دعوت کی اہمیت (۳۱) مقصد دعوت (۴۱)مبلغ کی زندگی کیسی ہو (۵۱)اعجاز قرآن....وغیرہ وغیرہ

اہل سنت کی ترجمانی:
مسلک حق پر استقامت آپ کی ذات کا اہم وصف ہے، اس معاملے میں معمولی سی بھی لچک کے قائل نہیں۔ صاف ستھرے اور واضح لہجے میں اہل سنت کے موقف کی ترجمانی فرماتے ہیں۔ اسلاف کے مسلک پر سختی سے گامزن ہیں اور عملاً اس کی توسیع میں کوشاں بھی۔ دورانِ گفتگو کبھی باطل فرقوں کی تردید کی نوبت آتی ہے تو قمر کا اسلوب دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے پھر قوتِ استدلال اور جذبہ ایمانی باہم ملتے ہیں اور حق کی تصویر نکھر کر سامنے آتی ہے، سچ ہے اشاعتِ حق اورحفاظتِ ایمان کے معاملے میں مدا ہنت گوارہ نہیں کی جانی چاہیے۔

اہل سنت کی ترجمانی کے سلسلے میں ایک نکتہ ملحوظ رہے کہ ہمارے یہاں الحمدللہ دلائل کا انبار موجود ہے۔ پھر ہمارے اکثر خطبا کیوں عارفانہ انداز میں دلائل سے پر گفتگو نہیں کرتے، جب کہ باطل تمام ہتھکنڈے اپنا کر آتا ہے، وہ زبردستی پیوندکاری سے دلائل اختراع کرتا ہے۔ ہمارا ہر موقف باوزن ہوتا ہے، یہی وہ فرق ہے علامہ اعظمی اور دوسرے خطبا میں کہ آپ کے یہاں اشاعت حق کے لیے استدلال کا جوہر نمایاں ہوتا ہے جب کہ دلائل سے عاری جارحانہ گفتگو سے دلوں کی دنیا میں انقلاب کی دستک نہیں ہوتی اور اصلاح عقیدہ کا سامان بھی فراہم نہیں ہوتا۔ ضروری ہے کہ علامہ قمرالزماں اعظمی کے اسلوب خطابت سے رہ نمائی حاصل کر کے ہمارے خطبا مسلک اہل سنت کی ترجمانی کا فریضہ بہ احسن طریق انجام دیں تو ہر گفتگو دل پذیر اور ہر دعوت کامیاب رہے گی۔

سنجیدگی و متانت:
چند سال قبل علامہ موصوف مالیگاؤں تشریف لائے، راقم ملاقات کو حاضر ہوا۔ خندہ پیشانی سے ملے، آپ کی شخصیت میں عجزو انکسار غایت درجہ موجود ہے۔ شفقت و مروت کا معاملہ فرماتے ہیں۔ ملنے والا خلوص سے متاثر ہو جاتا ہے۔ گفتگو بڑی سلیس و سنجیدہ فرماتے ہیں۔ بہت ہی متوازن اور مناسب لہجے میں بات کرتے ہیں۔ مزاح بھی ایسا ہوتا ہے کہ سنجیدگی برقرار رہتی ہے، مسکرانے پر اکتفا کرتے ہیں۔ راقم نے متعدد مرتبہ ملاقات کی۔ ہر ملاقات نے ذہن و فکرپر خوش گوار اثر ڈالا۔قوت عمل پیدا کرنے کے لیے نجی گفتگو میں اکثر حضور مفتی اعظم اور حافظ ملت کا تذکرہ فرماتے، راقم نے کئی واقعات علامہ اعظمی زبانی سنے۔ جن میں نصیحت و جہد عمل کا سبق موج زن تھا۔

حوصلہ افزائی:
راقم نے قلمی کام کا آغاز کیا۔ اس درمیان آپ مالیگاؤں تشریف لائے۔ راقم نے اپنی تحریریں پیش کیں، مطبوعات نذر کیں۔ قبول فرما کر دعائیں دیں۔ علمی کام، قلمی شغل، اشاعتی ورک کی ستائش کی، حوصلہ افزائی کی، راقم نے کہا کہ کام کے سلسلے میں مشورہ دیں، فرمایا: اشاعتی کام کیے جاؤ، یہی اہم کام ہے، اسے جاری رکھو۔ پھر جب بھی فون پر بات ہوئی، حوصلہ افزا کلمات ارشاد فرمائے۔ دعاؤں کی سوغات بھی دی۔ اس طرح آپ کے حوصلہ افزا کلمات نے ہمارے جذبات کو مہمیز لگائی۔

رضویات :
مجدد اسلام امام احمد رضا محدث بریلوی کی دینی و علمی خدمات کا چرچا عالمی جامعات و یونی ورسٹیوں میں جس قدر ہے وہ مخفی نہیں۔ رضویات ایک فرع علم کے طور پر متعارف ہے۔ علامہ موصوف نے اس رخ سے بھی فکری نکات دیے ہیں۔ چند سال پیش تر عرس قاسمی برکاتی میںمارہرہ شریف تشریف لے گئے اس موقع پر خانقاہی نظام اور اس کے اثرات کے موضوع پر گفتگو کی، اس حوالے سے امام احمد رضا کے خانقاہی نظام کے تحفظ و اصلاح میں امام احمد رضا کے کردارپر البیلے انداز میں روشنی ڈالی۔ اور جائز مراسم خانقاہی کے تناظر میں کہا کہ امام احمد رضا نے خانقاہی مراسم کو استدلالی زبان دے دی ہے ہر خانقاہ اعلیٰ حضرت کے احسان تلے دبی ہوئی ہے۔ کوئی خانقاہ امام احمد رضا کے احسان سے سرنہیں اٹھا سکتی۔(مفہوم)

افغانستان کی امریکہ کے ذریعے تاراجی کے بعد حالات کی ناموافقت اور دم ٹوڑتے حوصلوں کے پیش نظر دو ٹوک لہجے میں آزاد میدان میں سنی دعوت اسلامی کے اجتماع میں آپ نے یہ حوصلہ افزا جملہ ارشاد فرمایا :”فکر اعلیٰ حضرت ہی آپ کی رہ نمائی کر سکتی ہے، وہی آپ کو سہارا دے سکتی ہے، سب کسی در پر جھکے نظر آتے ہیں، وہ تنہا امام احمد رضا ہیں جو کہیں جھکے نظر نہیں آتے:
منم و کنج خمولی کہ نگنجد دروے
جز من و چند کتابے و دوات و قلمے“

رضویات سے آپ کا ذوق فطری ہے۔ آپ جو کہتے ہیں اس میں ایک وسیع فلسفہ ہوتا ہے۔ انھیں بھی آپ دعوت فکر دیتے ہیں جو حسد کی آگ میں سلگ رہے ہیں، انھیں امام احمد رضا کی خدمات اور دینی بصیرت کا تعارف تدبر کے ساتھ کراتے ہیں، امام احمد رضا کی فکری گہرائی اور کمالات علمیہ کی بابت واقعی بات کہتے ہیں جس پر غور کیا جانا چاہیے، اپنی ایک تاثراتی تحریرمیں فرماتے ہیں:”امام احمد رضا علیہ الرحمة والرضوان کی شخصیت اس اعتبار سے بہت عظیم ہے کہ ہر مطالعہ کرنے والا اپنے ذوق اور فکر کے اعتبار سے نئے نئے گوشوں کو تلاش کر لیتا ہے، وہ اک بحر ذخار ہیں جس میں غوطہ لگانے والا ہر غو ّاص نئے آبدار موتیوں کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ ان کی حیات اور خدمات پر ہزاروں صفحات لکھے جا چکے ہیں مگر اس بات کا اعتراف ہر شخص کرے گا کہ تاہنوز حق نہیں ادا کیا جا سکا ہے۔ ان کے ہر علم و فن پر مستقل تصانیف مرتب کی جا سکتی ہیں۔“ (رائے گرامی: امام احمد رضا خدمات اور اثرات،ص۲)

رضویات کے موضوع پر راقم کے کئی مقالات آپ نے ملاحظہ فرمائے ہیں اور عمدہ مشوروں سے بھی نوازا ہے۔

چند سال قبل جب الحاج محمد سعید نوری صاحب نے جہان مفتی اعظم کے نام سے سرکار مفتی اعظم قدس سرہ پر ایک اہم اشاعت کا منصوبہ بنایا راقم نے علامہ موصوف سے مفتی اعظم پر مشاہدات قلم بند کرنے کی استدعا کی آپ نے عدیم الفرصتی کے باوجود ۰۱صفحات پر مشتمل مقالہ ایک ہی نشست میں سپرد قلم فرما کر بھیج دیا جس میں مفتی اعظم کی خدمات کا جائزہ ہند میں اشاعت اسلام کے تناظر میں لیا ساتھ ہی کئی اہم واقعات بھی درج کر دیے جو دین پر استقامت اور تحفظ اسلام کے لیے مفتی اعظم کی عظیم قربانیوں پر دال ہیں۔ اسی طرح مفتی اعظم کے اکرام و عنایات کا بھی ذکر فرما دیا ۔ جس کا ایک ایک جملہ دل میں بسانے کے لایق ہے، ایک مقام پر کس قدر دل پذیر بات تحریر کی ہے:”ان کی(مفتی اعظم کی) زندگی ہر دور کے مسلمانوں کے لیے مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔“ (جہان مفتی اعظم،ص۵۷۲)

معروضات:
(۱) علامہ قمرالزماں اعظمی کی خدمات کو موضوعات کے اعتبار سے مرتب کیا جائے۔
(۲) آپ کے اصلاحی و اعتقادی خطبات مختصر کتابچوں کی شکل میں منظر عام پر لائے جائیں۔
(۳) آپ ایک عرصے سے مانچسٹر میں درس قرآن دے رہے ہیں، اس درس کے نکات کو کتابی شکل دی جائے اس طرح جدید تقاضوں کے مطابق ایک عمدہ تفسیر سامنے آئے گی۔
(۴) آپ کی تحریروں کو یک جا کر کے شایع کیا جائے۔
(۵) آپ کے دعوتی اسفار کی روداد لکھی جائے۔
(۶) دعوتی خدمات کا جائزہ ورلڈ اسلامک مشن کے تناظر میں لیا جائے۔
(۷) قادیانیت کے استیصال میں آپ کی خدمات کو تحریری شکل دی جائے۔
(۸) سماجی، فلاحی اور تعلیمی رخ سے خدمات کا جائزہ لیا جائے۔

اللہ کریم اہل سنت کے اس مخلص مبلغ، مسلک رضا کے داعی، فکر اسلامی کے ترجمان کی عمر میں برکتیں عطا فرمائے.... چند لمحات میں یہ سطریں قلم برداشتہ لکھ دیں۔ انشاءاللہ پھر کسی موقع پر علامہ اعظمی کی فکری بصیرت پر نوک قلم کو جنبش دی جائے گی۔
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 256816 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.