جلد گلو کر رہی ہے دیکھنا تمہارا بیٹا ہی ہوگا٬ حاملہ ماؤں سے متعلق کی جانے والی پیشگوئیوں کی حقیقت کیا ہے؟

image
 
ویسے تو پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں ’بیٹا ہو گا یا بیٹی‘ کی پیشگوئی کرنے والی گیم کھیلنے کا رواج شاید ہاکی کی تاریخ سے بھی پرانا ہے۔

اس کے لیے حاملہ خاتون کے اٹھنے بیٹھنے کے انداز سے لے کر ان کے کھانے پینے کی ترجیحات اور رنگ روپ سے لے کر پیٹ کے اوپر ہونے یا باہر نکلنے تک کو پرکھا جاتا ہے۔

تُکا ٹھیک نکلے تو تجربے کا ٹیگ بھی لگ سکتا ہے جس کی بنا پر اگلی بار بے دھڑک ہو کر ناصرف تُکا لگایا جاتا ہے بلکہ غیرضروری نصیحیتیں بھی دی جاتی ہیں اور غلط ہونے کی صورت میں اسے 50-50 کا چانس کہہ دیا جاتا ہے۔

یہ پیشگوئیاں حاملہ یا نئی ماؤں کو جانے انجانے میں کافی تکلیف پہنچا سکتی ہیں یا ان کی توقعات بڑھا سکتی ہیں۔ میں نے ایسی ہی چند خواتین سے بات کی جنھوں نے اپنے تجربات شیئر کیے۔

’جلد گلو کر رہی ہے تو لڑکا ہی ہوگا‘
بزنس ویمن عنبرین ذوالفقار نو ماہ کی حاملہ ہیں۔ اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے وہ بتاتی ہیں کہ لوگوں نے بہت کوشش کی ان کے کھانے کی چوائس سے ان کے ہونے والے بچے کی سیکس کی پیشگوئی کریں لیکن انھیں کسی خاص کھانے کی خواہش ہی نہیں ہوئی۔

پھر لوگوں نے کہا چونکہ ان کی جلد گلو کر رہی ہے، تو ان کے ہاں لڑکا ہی ہو گا۔

وہ کہتی ہیں کہ لوگوں کو سمجھ نہیں آتا کہ دیکھ کر نہیں بتایا جا سکتا کہ لڑکا ہو گا یا لڑکی۔

ان کے لمبے قد کی وجہ سے ان کا پیٹ باہر کی طرف زیادہ نہیں نکلا تو لوگ انھیں بچہ کمزور ہونے کی باتیں سناتے ہیں جو ایک نئی ماں ہونے کے طور پر ان کے لیے کافی تکلیف دہ تجربہ ہے۔
 
image
 
’ساس نے کہا تم بہت نکھٹو ہو گئی ہو، تمھاری بیٹی ہو گی‘
اسما ناز ایک نئی ماں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے ساتھ دفتر میں کام کرنے والے لوگوں نے ان کے بارے میں کہا کہ اس کی چال سے لگتا ہے کہ اس کی بیٹی پیدا ہو گی۔

انھیں یہ سن کر بہت عجیب لگتا تھا کہ کوئی کیوں ان کو اوپر سے نیچے تک دیکھ کر ان کے بارے میں کمینٹ کر رہا ہے کہ اس کی بیٹی ہو گی یا بیٹا۔

دوسری جانب ایک اور خاتون فردوس کے مطابق ان کی ساس نے انھیں کہا کہ تم بہت نکھٹو ہو گئی ہو، بالکل کام پر دھیان نہیں دے رہی، اس بار تمھاری بیٹی ہی ہو گی اور پھر ان کی بیٹی ہی ہوئی۔

اب فردوس ماننے لگی ہیں کہ بڑے بزرگ جو کہتے ہیں ویسا ہی ہوتا ہے۔

بیٹا ہو گا یا بیٹی: پیشگوئیوں کی حقیقت کیا؟
’بیٹا ہو گا یا بیٹی‘ کے حوالے سے کی جانے والی پیشگوئیوں کی حقیقت جاننے کے لیے میں شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد میں بطور کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ کام کرنے والی ڈاکٹر شہناز نواز کے پاس گئی اور چند سوالات کیے۔

میٹھا یا تیکھا کھانا کھانے کی خواہش کرنا: ڈاکٹر شہناز بتاتی ہیں کہ حمل میں میٹھا یا نمکین کھانے کا دل کرنا عام بات ہے لیکن اس سے آپ بچے کی سیکس کا پتا نہیں چلا سکتے۔

’اگر کسی خاتون کو میٹھا کھانے کا دل چاہے تو اس کا مطلب ہے کہ ان کا بلڈ شوگر لیول کم ہے۔ اگر جسم میں نمکیات کی کمی ہے تو نمکین یا تیکھا کھانا کھانے کی خواہش ہو سکتی ہے یعنی اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ حمل کے دوران جسم میں کس چیز کی کمی ہے۔‘

مخصوص انداز میں بیٹھنا یا اٹھنا: ڈاکٹر شہناز کے مطابق ایسی کوئی ریسرچ موجود نہیں، جس سے یہ پتا چلایا جا سکے کہ کسی مخصوص انداز میں بیٹھنے والی حاملہ خاتون کا بیٹا ہو گا یا بیٹی۔

حمل میں جلد کا ’گلو‘ کرنا یا پھیکا پڑنا، گردن پر لکیریں پڑنا یا کیل مہاسے نکلنا: اس بارے میں ڈاکٹر شہناز کہتی ہیں کہ پریگنینسی میں جسم بہت زیادہ ہارمونز پیدا کرتا ہے چاہے لڑکا ہو یا لڑکی جس سے حاملہ خاتون کی جلد پر چھائیاں، کیل مہاسے یا گلو اور گردن پر لکیریں بھی آ سکتی ہیں۔ اس کا بیٹا یا بیٹی ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

زیادہ متلی آنا: ڈاکٹر شہناز کے مطابق متلی زیادہ آنے کا تعلق بیٹا ایچ سی جی ہارمونز سے ہے جو خاتون کے حاملہ ہوتے ہی پلیسنٹا یا آنول سے نکلتے ہیں اور ان کا لیول بڑھتا چلا جاتا ہے اور 12 ہفتوں تک اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے اور پھر کم ہونے لگتا ہے۔ 16ویں ہفتے میں ہارمونز کا لیول اتنا کم ہو جاتا ہے کہ متلی آنا بھی تقریباً رک جاتی ہے۔ البتہ ہر پریگنینسی مختلف ہوتی ہے تو ایک ہی خاتون کو ایک بار زیادہ متلی اور اگلی بار کم متلی ہو سکتی ہے۔

پیٹ کا اوپر یا باہر کی طرف نکلنا: اس بارے میں ڈاکٹر شہناز کا کہنا ہے کہ پہلے یا دوسرے حمل میں جن خواتین کے پٹھے زیادہ سخت ہوتے ہیں ان کا پیٹ اوپر کی صرف ہوتا ہے۔ جب یہی پٹھے ریلیکس ہو جاتے ہیں تو پیٹ جگہ باہر کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ یہ دونوں صورتوں میں ہو سکتا ہے، چاہے لڑکا ہو یا لڑکی۔
 
image

کون سے ٹیسٹ بتا سکتے ہیں کہ بیٹا ہو گا یا بیٹی؟

الٹراساؤنڈ ٹیسٹ:
ڈاکٹر شہناز کے مطابق تو یہ ایک غیرضروری ٹیسٹ ہے کیونکہ اس سے ماں یا بچے کی صحت کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلایا جا سکتا بلکہ کچھ خواتین پر لڑکا پیدا کرنے کا دباؤ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ یہ پتا چلنے پر کہ ان کی بیٹی ہو رہی ہے، وہ غیرمحفوظ طریقے سے ابارشن یا استقاطِ حمل کروا لیتی ہیں جس میں ان کی جان جانے کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔

مگر کچھ موروثی بیماریوں جیسے ہیموفیلیا یعنی کسی چھوٹی سی چوٹ لگنے کی صورت میں بہت زیادہ خون بہہ جانے کی بیماری کی صورت میں یہ ٹیسٹ کروانا لازمی ہو جاتا ہے کیونکہ یہ بیماری صرف لڑکوں میں ہوتی ہے۔

ڈاکٹر شہناز کہتی ہیں کہ الٹراساؤنڈ ٹیسٹ حاملہ ہونے کے 12 ہفتوں بعد کروایا جا سکتا ہے لیکن بہتر رزلٹ کے لیے یہ 14 ہفتوں بعد کروایا جا سکتا ہے جس میں یہ پتا چل سکتا ہے کہ لڑکا ہے یا لڑکی لیکن اس میں بھی 5 فیصد غلطی کی گنجائش ہو سکتی ہے۔ اکثر اوقات پیٹ میں بچے کی ٹانگیں بند بھی ہوتی ہیں تو اس صورت میں الٹراساؤنڈ کے ذریعے سیکس کا پتا چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔

این آئی پی ٹی ٹیسٹ:
اس ٹیسٹ میں حاملہ ماں کے خون کا نمونہ لیا جاتا ہے کیونکہ حمل کی صورت میں بچے کا ڈی این اے ماں کے خون میں شامل ہو جاتا ہے۔

اس سے بچے کی سیکس کا پتا چلایا جا سکتا ہے۔ یہ ٹیسٹ کافی مہنگا ہے اور فی الحال پاکستان میں تو اس ٹیسٹ کی سہولت موجود نہیں۔

کروموثومل انیلیسِس ٹیسٹ:
ڈاؤن سینڈروم وغیرہ کے لیے کیا جانے والا کروموثومل انیلیسِس ٹیسٹ بھی بچے کی سیکس بتا سکتا ہے۔

ڈاکٹر شہناز کے مطابق حاملہ ماؤں کے سامنے بچے کی سیکس کی پیشگوئیاں کرنا ان کی توقعات کو بڑھا سکتا ہے جو پوری نہ ہونے کی صورت میں انھیں کافی تکلیف پہنچا سکتا ہے۔

ڈاکٹر شہناز کہتی ہیں کہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے لوگ سمجھتے ہیں کہ عورت کے اختیار میں ہے کہ لڑکا ہو گا یا لڑکی۔

’خواتین میں قدرتی طور پر صرف XX کروموسوم ہوتے ہیں اور مردوں میںXY۔ پچے کی پیدائش کے لیے عورت صرف X کروموسوم دے سکتی ہے، اگر مرد کی طرف سے بھی X کروموسوم ملے گا تو لڑکی ہو گی اور اگر Y ملے گا تو لڑکا ہو گا۔ حالانکہ یہ مرد کے بھی اختیار میں نہیں کہ وہ X کروموسوم دے یا Y۔
 
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: