سویڈن میں مسلمانوں ہی نہیں بلکہ مسیحیوں کا بھی برا حال ۔۔ قرآن کی بار بار بے حرمتی کرنے کی اصل وجوہات کیا ہیں؟

image

 

سویڈن میں عید کے موقع قرآن پاکستان کی بے حرمتی کیخلاف پوری امت مسلمہ سراپا احتجاج ہے جبکہ پاکستان میں آج سرکاری سطح پر یوم تقدیس قرآن منایا جارہا ہے۔

سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ایسے واقعات پیش آچکے ہیں اور مستقبل میں بھی سویڈن ایسے نفرت انگیز اقدامات کو روکنے کیلئے سنجیدہ نہیں دکھائی دیتا۔آیئے دیکھتے ہیں کہ سویڈن میں ہونیوالے ان نفرت انگیز اقدامات کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں۔

سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم میں عید کے روز عراقی نژاد شخص سلوان مومیکا نے قرآن کو نذر آتش کرتے ہوئے کلام مقدس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔سلوان مومیکا سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی کرنے والے پہلے شخص نہیں ہیں بلکہ سویڈن میں اس سے پہلے بھی کئی بار قرآن کو نذر آتش کرنے کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔

تو چلیں سویڈن میں پھیلتی نفرت کے محرمات دیکھتے ہیں، محققین کے مطابق معرض وجود میں آنے کے بعد جیسے جیسے سویڈش سلطنت پھیلتی گئی، اسی طرح اس کے مذہبی خیالات بھی پھیلتے گئے۔

 

image

 

سویڈن میں ابتداء میں اکثریت کیتھولک مسیحیوں کی تھی یہ ملک 16ویں صدی میں لوتھرن پروٹسٹنٹ ملک بن گیا جس کے بعد 1665 میں سویڈن نے کیتھولک مذہب کو غیر قانونی قرار دے دیا جس کے بعد سے کیتھولک مسیحیوں اور مسلمانوں کو مسیحیت کے دشمنوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

سویڈن میں بسنےوالے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ سویڈن کے رویے میں بڑی تبدیلی آئی ہے اور اب یہاں اسلاموفوبیا بڑھ رہا ہے جس کا اظہار ناصرف انٹرنیٹ پر ملتا ہے جبکہ حقیقت میں یہاں بسنے والے مسلمانوں کی زندگیوں میں بھی اس کا اثر نمایاں ہے۔سویڈن کی سڑکوں پر مسلم خواتین کو ہراساں کرنا، مسلمانوں کے گھروں کو نقصان پہنچانا اور مساجد پر چھوٹے موٹے حملے کرنا عام سی بات ہے۔

سویڈن میں مسلمانوں کیخلاف نفرت کے پرچار میں سیاسی جماعتیں بھی پیش پیش ہیں اور اس حکومت میں موجود سویڈن ڈیموکریٹس پارٹی مسلمانوں کے حوالے سے انتہائی سخت موقف رکھتے ہیں اور مسلمان پناہ گزینوں کی سویڈن میں آمد کے بھی سخت خلاف ہیں۔

 

image

 

جیسا کہ بھارت کی سیاست میں پاکستان کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈہ کرکے ووٹ لئے جاتے ہیں اسی طرح سویڈن میں مسلمانوں اور کیتھولک مسیحیوں کیخلاف مہمات چلاکر کامیابی حاصل کی جاتی ہے۔

سویڈن میں مسلمانوں کیخلاف نفرت میں 1990 کے بعد انتہائی تیزی کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ 2014 کے ایک سروے سے پتا چلا کہ 35 فیصد جواب دہندگان کے خیال میں اسلام یورپی طرز زندگی کے لیے خطرہ ہے۔ 2016 میں ایک اور سروے میں 57 فیصد رائے دہندگا ن نے سویڈن آنے والے مہاجرین کو سویڈن کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا۔

محققین اور عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ سویڈن میں عام طور پر اقلیتوں پر تنقید نہیں کی جاتی لیکن اس کے باوجود ان کے الفاظ میں تعصب کی جھلک نظر آتی ہے۔سلوان مومیکا نے عدالت کی اجازت سے قرآن کو نذر آتش کیا جبکہ سویڈن پولیس کو اس واقعہ کے بعد احتجاج کے لیے لوگوں کی نئی درخواستیں موصول ہوئی ہیں جو ناصرف قرآن بلکہ تورات اور بائبل کو بھی جلانا چاہتے ہیں۔

YOU MAY ALSO LIKE: