ہنسی ہنسی میں جہاں سے گزر نہ جائیں ہم

ماہرین کا دم غنیمت ہے کہ ہم وہ باتیں بہتر انداز سے دوبارہ جان لیتے ہیں جو صدیوں، بلکہ ہزار صدیوں سے جانتے ہیں! آئے دن سُننے میں آتا ہے کہ فلاں مغربی ملک میں ”عادی“ ماہرین نے چار پانچ سال کی تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ جس سے محبت ہو اُس کے مَرنے پر اِنسان شدید دُکھ محسوس کرتا ہے! یا یہ کہ زیادہ کھانے سے وزن بڑھتا ہے اور سُستی میں بھی اضافہ ہوتا ہے! لو، کرلو بات۔ کون ہے جو یہ سادہ سی حقیقت بھی نہیں جانتا کہ کسی پیارے کے مَرنے سے دِل دُکھی ہو جاتا ہے؟ ماہرین شاید یہ چاہتے ہیں کہ ہم اُن سے پوچھ لیا کریں کہ کب خوش ہونا ہے اور کب دُکھ محسوس کرنا ہے! اور صاحب! زیادہ کھانے سے وزن کے بڑھنے کا راز اور تو اور، ہم بھی جانتے ہیں کیونکہ ہم خود اِس منزل سے گزرتے رہے ہیں اور گزر رہے ہیں!

اب ماہرین نے یہ شوشہ چھوڑ کر اپنے دِماغ کا بوجھ ہلکا کیا ہے کہ کُھل کر ہنسنے سے اِنسان کے دِل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے! ماہرین نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کھُل کر ہنسنے سے کیا مُراد ہے؟ کیا اِنسان کوئی صندوق ہے کہ پہلے کُھلے اور پھر ہنسے؟ ماہرین کی ایک ٹیم کے سربراہ اور برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر رابن ڈنبر کہتے ہیں کہ زیادہ ہنسنے سے درد کی شِدّت گھٹ جاتی ہے۔ اُن کے نزدیک بھرپور قہقہہ بہت حد تک درد کش دوا کا کام کرتا ہے۔ درد سے نجات پانے کی شرط یہ ہے کہ ہنسی دَبی دَبی نہ ہو بلکہ پوری قوت سے قہقہہ لگایا جائے۔ پروفیسر رابن ڈنبر کا فارمولا یہ ہے کہ جس قدر درد ہو اُسی قدر قہقہے لگاتے جائیے۔ موصوف نے یہ نہیں بتایا کہ ایسا کرنے والوں کا نظارہ کرنے والے اپنے قہقہوں پر کس طرح قابو پائیں گے!

اُردو کے شعراءکی غالب اکثریت درد کو زندگی کا حاصل قرار دیتی ہے۔ پروفیسر رابن ڈنبر کے مشورے پر عمل کرنے سے تو درد کی وقار ہی ختم ہو جائے گا۔ شاید ایسی ہی کی کیفیت کو شان الحق حقی نے یوں بیان کیا تھا
لَذّتِ درد سے آسودہ کہاں دِل والے
ہیں فقط درد کی حسرت میں کراہے جاتے!

پروفیسر رابن ڈنبر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہنسی سے درد مِٹانے کے تجربے کے دوران رضا کاروں کے ایک گروپ کو مزاحیہ پروگرام دکھائے گئے اور دوسرے گروپ کو گالف کے بارے میں دستاویزی فلم دیکھنے کے مرحلے سے گزارا گیا۔ مزاحیہ پروگرام دیکھنے والوں کے جسم میں اینڈروفنز نامی کیمیکل پیدا ہوا جو درد کی شِدّت کو کم کرنے میں معقول حد تک مدد دیتا ہے۔ گالف پر دستاویزی فلم دیکھنے والوں نے واضح طور پر بیزاری محسوس کی۔ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ گالف پر دستاویزی فلم دیکھنے والوں نے بیزاری محسوس کی تو اِس میں درد محسوس کرنے یا نہ کرنے کا کیا سوال ہے! ہمارے ہاں تو بہت سے مزاحیہ پروگرام بھی اِس معیار کے ہیں کہ اُنہیں دیکھ کر اِنسان سوچتا ہے کاش گالف پر دستاویزی فلم ہی دیکھ لی ہوتی! اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں بیشتر دستاویزی فلمیں زیادہ اور معیاری مزاح پیدا کرتی ہیں! سوال مزاح کا ہے۔ اگر مزاحیہ پروگراموں سے زیادہ مزاح دستاویزی فلموں میں ہو تو دستاویزی فلمیں کام کی ہوئیں!

ماہرین کا مشورہ سر آنکھوں پر مگر حقیقت یہ ہے کہ درد کش دوا کے طور پر ہنسی کو زندگی کا جُز بنانے کا آئیڈیا اُن کے لیے نیا ہوگا، ہم نے اِسے کئی عشروں سے زندگی کا حصہ بنا رکھا ہے! اور سچ تو یہ ہے کہ مستقل ہنستے رہنے سے اب پوری پاکستانی قوم کے دماغی پیٹ میں بل پڑچکے ہیں! اور یہ بل پیشانی کو مزید شِکن آلود کر رہے ہیں!

ماہرین فرماتے ہیں کہ قدیم دور کا اِنسان غیر مہذب تھا۔ اسے معلوم ہی نہ تھا کہ کُھل کر، پوری زندہ دِلی کے ساتھ ہنسنتا کیا ہوتا ہے۔ اِس بات سے ہم بھی اتفاق کریں گے۔ آج کے اِنسان نے ثابت کردیا ہے کہ اگر حوصلہ ہو یعنی ہنسنے کی ٹھان لی جائے تو کسی بھی بات پر ہنسا جاسکتا ہے! ٹی وی سیٹ آن کیجیے اور دیکھیے کہ جن باتوں پر لازم ہے کہ دِل خون کے آنسو روئے اُن پر بھی لوگ جی بھر کے ہنس رہے ہوتے ہیں! قدیم دور کے اِنسان آج زندہ کردیئے جائیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ اب کوئی بھی شعبہ ہمارے قہقہوں سے محفوظ و مامون نہیں رہا۔ دہشت گردی کی کسی بھی واردات کے بعد متعلقہ وزیر اور حکام کے بیانات سُنیے اور پھر اپنی ہنسی روک کر دِکھائیے! قدرتی آفات کے رُونما ہوتے ہی حکومتی مشینری کا ”زبانی“ ریسپانس بھی لوگوں کو ہنسا ہنساکر بے حال کردیتا ہے۔ نچلی سے نچلی ترین اور اعلیٰ سے اعلیٰ ترین سطح کے تعلیمی اداروں میں جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے کیا وہ کم قہقہہ آور ہے؟

سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے ہاں ہنسنے کا مقابلہ ہو رہا ہے یا ہنسانے کا! ہنسانے والوں نے تہیّہ کر رکھا ہے کہ ہنسا ہنسا کر مار ڈالیں گے اور ہنسنے والے بھی کمر کَس کر میدان میں اُترے ہیں! اگر آپ فوری اور بے ساختہ ہنسی چاہتے ہیں تو ٹی وی چینلز پر کسی بھی واقعے کی براہ راست کوریج دیکھیے۔ یہ مزاح کی بالکل تازہ اور شاید بہترین قسم ہے! اگر کسی واقعے کے فوراً بعد کسی رپورٹر کو جگاکر واقعے سے متعلق بریف کئے بغیر بیپر لیا جائے یعنی تفصیلات طلب کی جائیں تو انتہائی منفرد قسم کا مزاح سُننے کو ملتا ہے! کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی رپورٹر کو چند باتیں بتائیے اور اسپاٹ (یعنی اسٹوڈیو کی چھت!) پر بھیج دیجیے اور پھر دیکھیے کہ وہ ”آنکھوں دیکھا حال“ بیان کرنے کے لیے کتنی دُور کی کوڑیاں لاتا ہے!

اسٹوڈیو میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی کچھ کم سِتم ظریف نہیں ہوتے۔ قدم قدم پر ایسے بھنڈ فرماتے ہیں کہ اِنسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ کس پر ہنسے اور کس پر نہ ہنسے! ایک بار کسی واقعے پر معروف تجزیہ کار طلعت حسین کی رائے جاننے کے لیے اُن سے موبائل فون پر رابطہ کیا گیا۔ پروڈکشن والوں نے غلطی سے اداکار طلعت حسین کا نمبر ملا دیا۔ جب اینکر نے واقعے کی مناسبت سے اُن کا ردعمل جاننا چاہا تو طلعت حسین اپنی مخصوص سنجیدہ، کھرج بھری آواز میں بولے ”بی بی! میں اداکار طلعت حسین بات کر رہا ہوں۔“ اینکر کو سیکنڈ کے پچاسویں حصے میں غلطی کا احساس ہوا مگر یہاں بھی بھنڈ فرمانے سے گریز نہیں کیا گیا۔ اُس نے جلدی سے کہا ”طلعت حسین صاحب! ہم سے بات کرنے کا شکریہ!“

سچ تو یہ ہے کہ اب کسی چیز کے مزاحیہ اور سنجیدہ ہونے کی کوئی حد یا قید بھی نہیں رہی۔ اخبارات میں جو کچھ سنجیدگی کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے وہ لافانی مزاح کے ذیل میں آتا ہے! اور جن باتوں کو مزاحیہ یا فکاہیہ قرار دے کر شائع کیا جاتا ہے اُنہیں پڑھ کر لوگ منہ بسورتے پائے گئے ہیں! ماہرین یہ بھی فرماتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ لوگ ہر مزاحیہ پروگرام دیکھ کر ہنسیں۔ بالکل ٹھیک۔ ہمارے ہاں ایسے معاملات کی کمی نہیں جو مزاح کے زُمرے میں رکھے جاتے ہیں مگر اُن پر بے اختیار رونا آتا ہے! لوگوں کی مرضی ہے، جس بات پر چاہیں جی بھر کے ہنسیں۔ یہ کوئی فوجی تقریب کا معاملہ تو ہے نہیں کہ کامیڈین کوئی آئٹم سُنائے اور جوان پوری شِدّت سے اُبھرنے والی ہنسی کو بھی محض اِس لیے روک لیں کہ جنرل صاحب کو ہنسی نہیں آئی! عوام اِس ٹائپ کا ڈسپلن پسند نہیں کرتے۔ وہ تو ہنسنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔

پاکستانی قوم پہلے ہی بہت ہنس رہی ہے۔ اِس ہنسی نے تو ہم سے درد کی دولت ہی چھین لی ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ
درد اُٹھتا ہے مگر رُسوائیوں کے خوف سے
اپنے دِل کی چوٹ دُنیا سے چُھپالیتے ہیں لوگ!

ماہرین سے پوری سنجیدگی کے ساتھ اِلتماس ہے کہ ہمیں کچھ تو جینے دیں، بے سر و پا تحقیق کی مدد سے مزید ہنسانے کی کوشش نہ کریں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524914 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More