یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ اب کے
کون زیادہ بَرسا ہے.... پانی یا مُشکلات؟ جو زمین فصل کے لیے پانی کو ترستی
تھی اُسی پر کھڑی فصلیں اب خُشکی کو یاد کرکے روتی ہیں۔ اللہ سے فضل و کرم
بَرسانے کی التجا کرنے والے اب مُلتَمِس ہیں کہ رحمت مزید نہ برسے! دُنیا
بھر میں بارش سے بہت پہلے اُس کے ممکنہ اثرات سے بچنے کا اہتمام بھی کرلیا
جاتا ہے تاکہ رحمت کسی صورت زحمت نہ بنے۔ ایک ہم ہیں کہ کِسی بات کا ہوش ہی
نہیں۔ ہماری ”بے اہتمامی“ دیکھ کر بادل بھی شرم سے پانی پانی ہوئے جاتے ہیں!
جن غریبوں کے نصیب میں بدنصیبی لِکھی ہوئی ہے اُن کے لیے بارش نے ”مَرے کو
مارے شاہ مَدار“ والا کام کیا ہے۔ پانی کیا برسا، طرح طرح کے مصائب بَرس
گئے۔ اللہ کی رحمت کے دھارے سیلابی ریلوں میں تبدیل ہوئے اور انسانوں،
مویشیوں اور دیگر اسباب کے ساتھ ساتھ ساری اُمیدوں کو بھی بہا لے گئے۔ جہاں
کھیت تھے وہاں اب کیچڑ نے ڈیرا ڈال لیا ہے۔ کھلے میدان تالاب کی شکل اختیار
کرگئے ہیں۔ حوصلے بیٹھ گئے، پانی کھڑا ہے۔ مقدر کا سورج جانے کب چمکے گا؟
ہاں، آسمان کا سورج بھرپور آگ برسائے گا تو پانی بھاپ بن کر اُڑے گا۔ مگر
اِس سے بہت پہلے اختیار والوں کی ساری توجہ بھاپ بن کر اُڑ چکی ہے۔ اور رہے
غریبوں کے جذبے تو اُن میں ایسا تھا ہی کیا کہ موسم کی نذر ہوتا؟
پانی کی زیادتی کا یہ عالم ہے کہ بستیاں جزیروں کی حیثیت اختیار کرگئی ہیں۔
پانی نے غریبوں کو اُسی طرح گھیر لیا ہے جس طرح غنڈے کسی شریف عورت کے گرد
ہوس کا جال بُنتے ہیں۔ کوئی جائے تو کہاں جائے؟ دو قدم چلنا بھی دُشوار ہوا۔
کل تک جہاں سڑکیں تھیں وہاں اب گڑھے ہیں۔ یہ گڑھے نہیں، کرپشن کے ہاتھوں
ہمارے اجتماعی یعنی قومی وجود کے جسم پر سَڑتے گلتے زخم ہیں۔ جب کوئی زخم
ناسُور بن جاتا ہے تو ہم سُکون کا سانس لیتے ہیں کہ چلو، علاج کی زحمت سے
تو چُھوٹے! لاچاری کی انتہا یہ ہے کہ لا علاج ہو جانے ہی کو اب علاج تصور
کرلیا گیا ہے!
اب ڈھونڈنا پڑے گا ہمیں کچھ نہ کچھ علاج
چارہ گروں کے حُسن طریق علاج کا!
ایک سال قبل بھی بارش اور سیلاب نے قیامت ڈھائی تھی مگر افسوس کہ ہمارے
حافِظے نے اِتنا بوجھ بھی برداشت نہ کیا اور ہم پلک جھپکتے میں سب کچھ بھول
گئے۔ یاد ہی نہ رہا کہ جن کا سب کچھ مِٹ گیا ہے اُنہیں یاد رکھنا ہے۔ کل کے
متاثرین مزید متاثرہ قرار پائے اور اِس جُھنڈ میں نئے پنچھی بھی شامل ہوئے
ہیں۔ زندگی مسائل کا انبار بنتے بنتے اب بجائے خود سب سے بڑے مسئلے کی شکل
اختیار کرگئی ہے۔ مگر صاحب! زندگی تو پھر زندگی ہے، کوئی کیسے دُھتکار دے؟
لاکھ بوسیدہ سہی، پھینکی نہیں جاتی مگر
زندگی گویا کِسی مُفلِس کی چادر ہوگئی
کارڈ کھیلنے کی سیاست نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ اِمداد کے معاملے میں بھی
کارڈ کھیلا جارہا ہے۔ کچھ نہیں ہے تو وطن کارڈ ہی سہی! ہنگامی حالت میں لوگ
فوری اِمداد کو ترستے ہیں۔ ایک سال قبل جن لوگوں سے طرح طرح کے وعدے کئے
گئے تھے وہ آج بھی اِمداد کی دوسری قسط کو ترس رہے ہیں۔ ایسے میں سال رواں
کے سیلاب متاثرین کو کیا ملے گا، اِس کا اندازہ لگانا کسی کے لیے مشکل نہیں۔
جب اِنسان پورے خلوص نیت کے ساتھ محنت کرتا ہے تو نتائج بہتر بنانے کے لیے
اللہ سے برکت کی دُعا کرتا ہے۔ اللہ سے دُعا اُسی وقت مانگی جاتی ہے جب
اِنسان اللہ کے فرمان کے مطابق اپنی سی کوشش کرچُکتا ہے۔ کسی بھی قدرتی آفت
سے بچاؤ کے لیے پہلے بھرپور کوشش کی جاتی ہے اور اِس کے بعد دُعا کا مرحلہ
آتا ہے! ذاتی حیثیت میں تمام ممکن فوائد بٹورنے کے بعد ناداروں کے لیے اللہ
سے دُعا مانگ کر خیر کی توقع رکھنا اپنے آپ کو اور دوسروں کو دھوکا دینے کی
کوشش کے سِوا کچھ نہیں۔
چھوٹی موٹی بستیوں کا تو خیر ذکر ہی کیا، وبائی امراض سے بچاؤ کے لیے کراچی
جیسے بین الاقوامی شہر میں اب تک باضابطہ اسپرے مہم نہیں چلائی گئی اور قوم
سے کہا جارہا ہے کہ قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے اللہ سے دُعا اور اپنے
گناہوں کی معافی مانگی جائے۔ دُعا ضرور کرنی چاہیے مگر اُن سے نجات کی جو
اختیار پاکر ہم پر مُسلط ہوگئے ہیں اور گئے گزرے ڈھنگ سے جینے کا حق بھی
چھین لینا چاہتے ہیں! ہمارے مسائل حل کرنے کی ذمہ داری جن کے کاندھوں پر
عائد ہوتی ہے وہ ہمی سے کہہ رہے ہیں کہ گناہوں کی معافی مانگی جائے! یقیناً
وہ درست کہہ رہے ہیں۔ کبھی کبھی پوری شِدّت سے محسوس ہوتا ہے کہ بست و کشاد
کا اہتمام کرنے پر اُنہیں مامور کرکے ہم نے گناہ ہی تو کیا ہے! اہل حَکم کی
بے اعمالی سے تعفن اُٹھ رہا ہے۔ ایسے میں اگر قوم بد دعاؤں کا اسپرے کرے تو
کیا ہرج ہے!
آرزو لکھنوی نے کہا تھا:
ہاتھ سے کِس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر
ایسا برسا ٹوٹ کے بادل، ڈوب چلا میخانہ بھی!
اب ہاتھ سے ساغر پٹکنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ”یاروں“ کے لیے موسم کبھی
بے کیف ہوتا ہی نہیں۔ لاکھوں، کروڑوں اِنسانوں کو پینے کے صاف پانی کے لیے
بھی ترسانے والے چند مَے کش اب ساغر کے دَور کو چلتا رکھنے کا ہُنر خوب
جانتے ہیں! بادل کے ٹوٹ کر برسنے پر مَے خانے شاید کبھی ڈوبتے بھی ہوں گے۔
اب تو بادل کا سینہ خالی ہونے کے ساتھ ساتھ ساغر اور جیب دونوں ہی کے بھرنے
کا اہتمام ہوتا جاتا ہے! غریبوں کو اللہ جزا دے، یہ برباد ہوکر بہتوں کو
آباد کرتے ہیں۔ اِن کی بے چارگی وہ قبر ہے جس پر سِطوت کے محل تعمیر کئے
جاتے ہیں۔ غریبوں کے خالی ہاتھوں اور اُجڑے گھروں کو اللہ سلامت رکھے اور
نظر بد سے بچائے کہ اِنہی کے دم سے چند پیٹ بھرے ناداروں کی تجوری بھر پاتی
ہے!
مملکتِ خدا داد میں یہ تماشا بھی خوب ہے کہ بارش کے پانی سے کھیتوں میں
فصلیں بعد میں لہلہاتی ہیں، حکمرانوں کی آنکھیں دُنیا بھر سے اِمداد حاصل
کرنے کے خواب پہلے سجانے لگتی ہیں! قدرت کی اَدا سے غریب کی جان جاتی ہے تو
جائے، جو اختیار والے ہیں اُن کے لیے یہ کھانے، کمانے کا سیزن ہے!
تیر پر تیر چلاؤ، تمہیں ڈر کِس کا ہے؟ |