ان کا ڈنک آپ کو موت کے منہ میں لے جاسکتا ہے ۔۔ سمندر کی چار زہریلی ترین مچھلیاں

image

 

سمندر انسانوں،پودوں اور جانوروں کے لئے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ، زمین پر سانس لینے کے لئے ہوا اوراستعمال کے لئے پانی سب کا سمندر سے گہرا تعلق ہےجبکہ آبی مخلوق مسکن بھی ہیں۔

محققین کا ماننا ہے زمین کا 71 فیصد حصہ پانی اور 29 فیصد خشکی پر مشتمل ہےاور زمین کے 71 فی صد پانی میں سے 97 فی صد کھارے پانی یعنی کہ سمندری پانی اور صرف 3 فیصد میٹھے پانی پر مشتمل ہے۔ اس میٹھے پانی میں سے بھی 68 فی صد سے زیادہ برف اور گلیشیئرز میں بند ہے، جب کہ مزید 30 فی صد میٹھا پانی زمین میں ہے۔

چند روز قبل ٹائنٹن آبدوز کے حادثے نے سمندر کی گہرائیوں اور سمندر کی تہہ میں موجود آبی مخلوق کے حوالے سے بھی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس رپورٹ میں ہم آپ کو سمندر کی گہرائیوں میں پائی جانے والی 4 انتہائی خطرناک مچھلیوں کے بارے میں بتائیں گے جو پاکستان میں بھی پائی جاتی ہیں اور یہ مچھلیاں انسانوں کی موت کا سبب بھی بنتی ہیں۔

مچھلی موت کا سبب کیسے بن سکتی ہے، یہ جاننے کیلئے ایک بات جاننا بہے ضروری ہے کہ ایک وینم ہوتا ہے اور ایک پوائزن کہلاتا ہے، انسان جو کھاتا ہے وہ پوائزن ہے اور جو انسان کو کھاتا ہے وہ وینم ہے۔تو چلیں اب آپ کو ان چار خطرناک مچھلیوں کے بارے میں بتاتے ہیں جو انسانوں کی جان لے سکتی ہیں۔

 

image

 

اسٹون فش
اسٹون فش ایک وینمز مچھلی ہے اور مچھلیوں کی دنیا میں اسکو سب سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے، اس کا نام اسکی ظاہری شکل پر رکھا گیا ہے اور یہ خلیج عرب سے لے کر آسٹریلیا اور بحرالکاہل کے جزیروں، اور بحر ہند کے ساحلی علاقوں میں پائی جاتی ہے۔

اسٹون فش کا جسم عام طور پر نارنجی، پیلا یا سرخ دھبوں کے ساتھ بھوراہوتا ہے۔اسکی لمبائی 12 انچ تک اور وزن کلو سے ڈیڑھ کلو تک ہوتا ہے۔ ان کی کمر میں ریڑھ کی 13 نوکیلی ہڈیاں ہوتی ہیں جو دباؤ پڑنے پر زہر چھوڑتی ہیں۔ مناسب جوتوں کا بندوست نہ کر کے سمندر میں جانے والے یا پھر ننگے پاؤں لوگ بے دھیانی میں اس پر پاؤں رکھ کر اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔اسٹون فش کی خوراک میں چھوٹی مچھلیاں، کیکڑے اور جھینگے شامل ہیں۔

 

image

 

پفر فش

پفر فش کا نام پف سے نکلا ہے جس کا مطلب پھولنا ہے، یہ سست رفتار سے تیرتی ہے، یہ مچھلی زیادہ تر بحر اوقیانوس، بحر الکاہل، اور بحر ہند کے پانیوں میں پائی جاتی ہے جبکہ اس کی تقریباً 120سے زائد اقسام دریافت ہوچکی ہیں، دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس خطرناک مچھلی کو ایکوریم میں بھی پالا جاتا ہے۔

شکاری کے حملے سے بچنے کیلئے یہ مچھلی اپنے اندر پانی یا ہوا بھرلیتی ہے ، پاکستان میں اسے ’گدھا‘ اور ’ٹورو‘ مچھلی کہا جاتا ہے اور یہ اکثر کیماڑی اور چرنا آئی لینڈ کے اطراف کانٹوں میں ملتی ہے۔
دنیا بھر میں ہر سال پفر فش پوائزننگ کے تقریباً 50 سے 200 کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور ان میں سے تقریباً نصف مہلک ہوتے ہیں۔ پفر فش کی مختلف اقسام میں مختلف حصے زہریلے ہوتے ہیں، تاہم مجموعی طور پر ان کی جلد، جگر اور بیضہ دانیاں سب سے زیادہ زہریلی ہوتی ہیں۔

 

image

 

لائن فش
زہریلی مچھلیوں میں لائن فش کا شمار انتہائی خطرناک مچھلیوں میں ہوتاہے، لائن فش کا زہر ان کی ریڑھ کی ہڈیوں میں ہوتا ہے۔ یہ ٹوٹل 18 ریڑھ کی ہڈیاں یا کانٹے ہوتے ہیں جن میں 13 ڈورسل فن پر، 3 مقعد فن پر، اور 2 پیلوِک فن پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ کانٹے ایک زہریلا ڈنک دیتے ہیں جن کا اثر کئی دنوں تک رہتا ہے اور یہ ڈنک انتہائی درد، پسینہ آنا، سانس کی تکلیف اور یہاں تک کہ فالج کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

لائن فش پہلے یہ صرف بحر ہند اور بحرالکاہل میں پائی جاتی تھی لیکن اب ان کی آبادی بحر اوقیانوس، خلیج میکسیکو، بحیرہ کیریبین اور امریکا کے پانیوں تک پھیل چکی ہے۔

 

image

 

باکس جیلی فش
سمندروں میں اب تک دریافت شدہ زہریلی مخلوقات میں سب سے زیادہ زہریلی مچھلی ہونے کی بنا پر باکس جیلی فش کو اس لسٹ میں شامل کیا جا رہا ہے۔یہ عام مچھلی نہیں بلکہ ایک جیلی فش ہے۔ باکس جیلی فش کو یہ نام اس کی جسمانی شکل باکس کی طرح لگنے کی بنا پر دیا گیا ہے۔ اس کی 50 یا اس سے زیادہ انواع میں سے صرف چند میں ہی زہر ہوتا ہے جو انسانوں کے لیے مہلک ہوتا ہے۔

باکس جیلی فش دنیا بھر کے گرم ساحلی پانیوں میں پائی جاتی ہے اور اس کی مہلک اقسام بنیادی طور پر انڈو پیسیفک کے علاقوں اور شمالی آسٹریلیا میں پائی جاتی ہے۔

باکس جیلی فش کے جسم پر زہر سے لدی باریک سوئیاں یا ڈارٹس انسانوں اور جانوروں کو ڈنک مارنے پر فالج، دل کا دورہ پڑنے اور یہاں تک کہ موت کا باعث بھی بن سکتے ہیں ۔

YOU MAY ALSO LIKE: